ہماری پسماندگی اور تاریخ کے اوراق پہلا حصہ

تین دہائیوں کے دوران دنیا جتنی تبدیل ہوئی ہے، اتنی پچھلے دس ہزار سال میں بھی نہیں ہوئی تھی


Zahida Hina January 21, 2024
[email protected]

دنیا اکیسویں صدی کی تیسری دہائی میں سفر کررہی ہے۔ یہ صدی سائنس اور ٹیکنالوجی کا انقلاب برپا کر رہی ہے۔

تین دہائیوں کے دوران دنیا جتنی تبدیل ہوئی ہے، اتنی پچھلے دس ہزار سال میں بھی نہیں ہوئی تھی۔ ترقی اورتبدیلی کی رفتار یقیناً غیر معمولی اور منفرد ہے لیکن ہم جدید ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کے میدان میں آج جو حیران کن ترقی دیکھ رہے ہیں، وہ ایک طویل ارتقائی عمل کا نتیجہ ہے۔

اس حوالے سے اٹھارہویں اور بیسویں دو صدیاں ایسی ہیں جو انتہائی غیر معمولی اہمیت کی حامل ہیں اور مستقبل بعید کا کوئی بھی مورخ ان کی تاریخ سازاہمیت کو نظر انداز نہیں کرسکے گا۔

آج نہ صرف ہم بلکہ ہم جیسے بہت سے ملک جس پسماندگی کا شکار ہیں، اس کے اسباب یقینا کئی ہونگے لیکن تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ آج سب سے زیادہ ترقی کرنے والی قوموں نے ایسے افراد پیدا کیے جو اپنے علم و دانش میں یکتا تھے اور انھوں نے مشکل ترین حالات میں بھی سچ کہنے سے گریز نہیں کیا۔ آئیے تاریخ کے اوراق الٹ کر ایسے کردار تلاش کرتے ہیں۔

اب جب کہ بیسویں صدی ہماری آنکھوں کے سامنے اختتام کو پہنچ چکی ہے اور انیسویں صدی اپنی تمام تر تفصیلات کے ساتھ ہمارے علم میں ہے ۔ ہم اس نتیجے پر پہنچنے میں حق بجانب ہیں کہ انیسویں اور بیسویںصدی کا اختتام محض دو صدیوں کا گزر جانا نہیں تھا۔ ان دو صدیوں کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انھوں نے تہذیب انسانی کے وہ دو تمدن پیدا کیے جو کمیتی اور کیفیتی اعتبار سے بے مثال اور بے نظیر تھے۔

لیکن ذرا رکیے، پہلے سولہویں صدی اور سترہویں صدی کے ان کرداروں کی کہانی پڑھ لیجیے جو اگر پیدا نہ ہوتے تو گزشتہ دو صدیوں میں سائنس اور ٹیکنالوجی اور سیاست کے میدان میں ان گنت حیرت انگیز تبدیلیاں اور انقلاب کبھی رونما نہیں ہوتے۔27 اکتوبر 1553 کو شامپل جنیوا کے چوک میں نعرے لگاتا ہوا ایک ہجوم ہے۔ خشونت زدہ چہروں والے ہیں۔ اپنی زہر زبانوں اور اپنے تاریک دماغوں پر نازاں۔ سامنے ٹکٹکی پر کھنچا ہوا ایک ہسپانوی ہے۔

ولیم سرویٹس، اپنے عہد کا مانا ہوا طبیب، دینیات کا عالم ، دوران خون کی دریافت کے مراحل میں ایک اہم اور بنیادی کردار۔ علم الابدن میں نامور ونامدار۔ اپنے ہم عصروں میں ' ' جالینوس ثانی'' کے نام سے یاد کیا جانے والا۔ کالون کی مذہبی عدالت ایک روز پہلے اس بے دار مغز کو زندہ جلانے کا حکم صادر کرچکی۔ اور اب چرچ کی سربلندی او ر حاکمیت کے قیام کے لیے اس کا زندہ وجود آ گ کے سپرد کیا جارہا ہے۔ ہجوم نعرے لگا رہا ہے۔ کلیسا کی فتح کے نعرے۔

تاریخ 19 فروری کی ہے اور سنہ 1600، ہمارے سامنے ایک ہجوم ہے۔ سنگ بہ دست۔ کف در دہن، یہاں بھی مقدس راہبوں کے پرے ہیں۔ ان میں وہ 9 بھی ہیں جنھوں نے گیوردانو برونو کے فلسفیانہ اور سائنسی نظریا ت کی بنا پر اس کے زندہ جلائے جانے کا فرمان جاری کیا ہے۔ یہ وہی فرمان ہے جس پر دستخط ہونے کے بعد برونو نے مسکراتے ہوئے کہا ہے '' کیسی دلچسپ بات ہے کہ سزا کا فرمان جاری کرنیوالے مجھ سزا پانے والے سے کہیں زیادہ خوفزدہ نظر آتے ہیں۔''

برونو روم کے چوک میں لایا جاتا ہے۔ جہاں ایک بڑی چتا اس کی منتظر ہے وہ پا برہنہ، تن برہنہ آرہا ہے۔ زبان بندھی ہوئی ہے۔ دونوں ہاتھ پشت پر باند ھ دیے گئے ہیں۔ وہ اپنی پرسکون آنکھوں سے انھیں دیکھتا ہے جن کی آنکھوں پر علم دشمنی اور مذہبی تنگ نظری کی اندھیریاں چڑھی ہوئی ہیں، وہ اپنی چتا پر اپنے قدموں سے چل کر چڑھتا ہے، چتا کو آگ لگادی جاتی ہے۔

زمانہ سفر میں ہے اور ہم اس کے ہم سفر۔21 دسمبر 1614 کا ٹھٹھرا دینے والا دن۔ ایک عیسائی مبلغ ایک عابد و زاہد اٹھتا ہے اور اس شخص پر کتاب مقدس کی تکذیب کا دعویٰ کرتا ہے جسے لوگ گلیلیو گلیلی کے نام سے پہچانتے ہیں۔ کلیسائے روم کا احتسابی ادارہ حرکت میں آجاتا ہے۔ گلیلیو کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ کوپر نیکس کے نظریے کی ترویج نہ کرے اور اپنے اس نظریے سے تائب ہوجائے کہ نظام شمسی کا مرکز زمین کے بجائے سورج ہے اور یہ کہ زمین حرکت میں ہے اور سورج کے گرد گردش کرتی ہے۔

گلیلیو اپنے نظریات پر قائم رہتا ہے اور اس کے خلاف کارروائی شروع ہوجاتی ہے۔ دن بہ دن، ماہ بہ ماہ، سال بہ سال۔ 19 برس تک ہم عدالتی کارروائی دیکھتے ہیں۔ مقدس راہبوں کے الزامات اور معتوب گلیلیو کے جوابا ت سنتے ہیں۔ اس بوڑھے کی قید تنہائی، اس کی ذ ہنی اذیتیں، اس کے جسمانی عذاب، اس کی سماجی توہین و تذلیل، سب ہی کچھ ہماری نظر میں ہے۔ آخرکار عدالت احتساب کے سات مکرم و معظم کارڈنیل اس فرمان پر دستخط کردیتے ہیں جو گلیلیو گلیلی کو دہریہ اور کلیسا کا نا فرمان قرار دیتا ہے۔

وہ بوڑھا جس کی نگاہوں نے ہمیشہ آسمان سے نگاہیں ملائیں وہ زمین کو تکنے پر مجبور ہوجاتاہے۔ بھیانک موت کا خوف اسے کلیسائے روم کے سامنے رکوع میں لے جاتا ہے۔ پھر وہ فرش پر دو زانو ہوکر اپنے جرائم کا اعتراف کرتا ہے۔ مقدس پوپ سے جان کی امان مانگتا ہے۔ جیت کلیسا کی ہوتی ہے اور عقل ہا ر جاتی ہے۔ بوڑھا کراہتا ہوا زمین سے اٹھتا ہے۔ اس کے گھٹنے کانپ رہے ہیں۔ زیر لب زبان سے ایک جملہ ادا ہوتا ہے۔ "Eppur si muove" ''لیکن گھومتی تو ہے۔'' تاریخ یہ جملہ اپنے سینے سے لگا لیتی ہے ۔ تاحیات نظر بندی اس بوڑھے کا مقدر ٹھہرتی ہے۔

وقت کا تخت رواں اڑا چلاجاتا ہے اور زمانہ ہمیں اپنی نیرنگیاں دکھاتا ہے۔ہم میڈرڈ کے ایک چوک کو دیکھتے ہیں جہاں کلیسا کے جرم و جہل پر شرمسار، مودب اور پراز محبت ہاتھ ولیم سرویٹس کا مجسمہ نصب کررہے ہیں۔ یہ 1876 ہے۔ ہم شامپل میں اس جگہ کو پہچان لیتے ہیں جہاں اسے زندہ جلایا گیا تھا، وہیں اب ا س کے نام کی تختی لگائی جارہی ہے۔ یہ 1903 ہے۔

ہماری نظر میں روم کا شہر ہے جہاں گیوردانو برونو کی تعظیم کی جارہی ہے اور جس جگہ کلیسا نے اس کی چتا جلائی تھی وہیں اس کا مجسمہ مسکرا رہا ہے۔ یہ 1889 ہے۔ہم کلیسا کی جانب سے ہر سال جاری ہونے والی ممنوع کتب کی فہرست پر نظر ڈالتے ہیں۔ اس فہرست میں سے معتوب و مقہور گلیلیو کی کتابوں کے نام خارج کردیے گئے ہیں یہ 1835 ہے۔ہم پر 31 اکتوبر 1992 کا دن طلوع ہوتا ہے۔ ویٹکن شہر سے پوپ جون پال ثانی کی مقرر کردہ عدالت تیرہ برس کی کارروائی کے بعد اعلان کرتی ہے کہ 359 برس پہلے کلیسائے روم کی جانب سے جاری ہونے والا کفرو الحاد کا فتویٰ بہ نام گلیلیو گلیلی ساقط کیا جاتا ہے۔

چاند کی مٹی پر انسانی قدموں کے نشان اس بوڑھے انسان کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں جسے کلیسا نے 359 برس تک معاف نہیں کیا۔ زہرہ، مریخ اور عطارد کی جانب محو پرواز انسانی ذہانتیں اس نام کو تعظیم دیتی ہیں جسے تادم مرگ اجازت نہیں ملی ،کھلے آسمان کے نیچے کھڑے ہوکر چاند کو دیکھنے، زہرہ، مریخ اور عطارد کے نظاروں سے اپنی آنکھیں ٹھنڈا کرنے کی۔ (جاری ہے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں