زوال کا عروج

ایتھلیٹکس میں اب ہمارا قومی پرچم کہیں بلند نہیں ہوتا تو ہم اپنا جینا عذاب کیوں کریں ...


Ayaz Khan June 03, 2014
[email protected]

ہاکی ایک کھیل ہی تو ہے۔ ہم اگر پہلی بار ورلڈکپ کے لیے کوالیفائی نہیں کر سکے تو کیا ہوا۔ پاکستان کی شمولیت کے بغیر ورلڈکپ ٹورنامنٹ جاری ہے تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ آسٹریلیا، جرمنی، ہالینڈ یاکوئی اور ٹیم اس بار عالمی کپ لے جائے تو ہمارا کیا بگڑے گا۔ اسکواش میں کبھی ہمارا طوطی بولتا تھا، اب ہم بولنے کے قابل بھی نہیں رہے تو کسی کی صحت پر کیا اثر پڑا۔

ایتھلیٹکس میں اب ہمارا قومی پرچم کہیں بلند نہیں ہوتا تو ہم اپنا جینا عذاب کیوں کریں۔ کرکٹ میں حالات خراب ہوتے جاتے ہیں تو کیا اس سے ہماری نبضیں ڈوب جانی چاہئیں۔کس کس کھیل کا نام لیں، کن کن قومی ہیروز کا ذکر کریں۔ کچھ قصے تمام ہوئے، کچھ تمام ہونیوالے ہیں۔ ہالینڈ کے شہر دی ہیگ میں جاری ہاکی کا یہ عالمی کپ آخری ہے نہ اسکواش میں برٹش اوپن اور ورلڈ اوپن پر پابندی لگ رہی ہے۔ دیگر کھیلوں کے مقابلے بھی دنیا کے کسی نہ کسی کونے میں ہوتے رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے۔

آگے بڑھنے سے پہلے ایک شعر آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں۔

غیر ممکن ہے کہ حالات کی گتھی سلجھے

اہل دانش نے بہت سوچ کر الجھائی ہے

قومیں اپنی زندگی میں عروج بھی دیکھتی ہیں اور انھیں زوال کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ وہ عروج تو شاید ہم کبھی نہیں دیکھ سکے جس کی پاکستانی قوم اہل تھی مگر ایسا زوال ہمارے مقدر میں تھا اس کا بھی کبھی اندازہ نہیں تھا۔ مجھے کہنے دیں کہ آج ہم زوال کے عروج پر ہیں۔ کھیل اور کھلاڑیوں کا ہی رونا کیوں، رونے کو اور بھی بہت کچھ ہے۔ قوموں نے ادارے مضبوط کیے ہم شخصیات کو مضبوط کرنے میں لگے رہے۔

نواز شریف عظیم قائد ہیں تو زرداری مین آف کرائسسز کے مرتبے پر فائز ہیں' عمران خان معمار نیا پاکستان ہیں تو مولانا قادری رہبر قوم بننے پر تلے ہوئے ہیں' جدھر نظر دوڑائیں قائد ہی قائد نظر آتے ہیں' کوئی دین کو بچانے نکلا ہے' کسی نے قوم پرستی کا جھنڈا اٹھایا ہوا ہے تو کوئی لسانی گھوڑے پر سوار آدم بو آدم پکار رہا ہے لیکن ان کے درمیان کہیں پاکستان اور اس کے ادارے نہیں ہیں' سب مل کر ادارے تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں تاکہ ان کی شخصی حکومت قائم ہو سکے۔ آج کسی ایک ادارے کا نام لیں جو تنقید سے بچ سکا ہو۔

زوال اور پستی کی ایسی ایسی داستانیں ہیں کہ سن کر روح کانپ اٹھے۔ جہاں انصاف بکتا ہو، عزتوں کی سرعام نیلامی ہوتی ہو، بھوک، افلاس اور ننگ لوگوں کو خودکشیوں پر مجبور کر دے، وہاں ترقی کی باتیں طعنہ لگتی ہیں۔ 20 سے 25 سال پہلے حالات اتنے برے نہیں تھے۔ 1992ء میں پاکستان نے کرکٹ کا عالمی کپ جیتا۔ 1994 میں ہاکی اور اسنوکر کے ورلڈ کپ اپنے نام کیے۔ اس دور میں اسکواش پر ہماری حکمرانی جاری تھی۔ اس کے بعد بھی کہیں نہ کہیں سے کوئی اچھی خبر مل جاتی تھی۔ آج ہر خبر پریشان کن اور ہر واقعہ جان لیوا ہوتا ہے۔ میری بات پر یقین نہ آئے تو نجی چینلز پر چلنی والی بریکنگ نیوز اور نیوز الرٹ پر ایک نظر ڈال لیں۔

اعتماد ختم ہو جائے تو پھر شکست کے سوا کچھ اور مقدر نہیں ہوتا۔ اولمپکس میں ہاکی کی وجہ سے ایک آدھ میڈل ضرور مل جایا کرتا تھا۔ آج وہی ہاکی ٹیم عالمی کپ سے باہر ہے۔ چین کی ہاکی ٹیم کی کوچنگ ہم نے کی، آج اس سے جیتنا دشوار ہوتا ہے۔ ہم اس سے بھی ہار جاتے ہیں۔ 2012 ء کے بیجنگ اولمپکس میں چین نے 38 گولڈ میڈل کے ساتھ امریکا کے بعد دوسری پوزیشن حاصل کی۔ یہی چینی ایتھلیٹس تھے جو 1976ء کے مانٹریال اولمپکس میں ایک بھی میڈل نہیں لے سکے تھے۔ 1984ء میں چینی ایتھلیٹس پہلی بار میڈل ٹیبل پر چوتھے نمبر پر آئے اور پھر ہر چار سال بعد ہونے والے اولمپکس مقابلوں میں کبھی تیسرے اور کبھی چوتھے نمبر پر رہے۔

اولمپکس میں امریکا، روس اور جرمنی کو ٹکر دینا آسان نہیں تھا مگر چینی قوم نے یہ کر دکھایا۔ کبھی ہم بھی کسی سے کم نہیں تھے۔ ہاکی کے چیمپیئنز ٹرافی ٹورنامنٹ کا بانی پاکستان ہے۔ ایئرمارشل (ر) نورخان اس کے روح رواں تھے۔ انٹرنیشنل کرکٹ میں غیر جانبدار امپائروںکے تقررکا کریڈٹ عمران خان اور پاکستان کا ہے۔عمران خان کو کپتان کی حیثیت سے اپنی جن کامیابیوں پر ناز ہے اس میں سر فہرست 10 سالہ دورکپتانی میں اپنے وقت کی مضبوط ترین ویسٹ انڈیز کی کرکٹ ٹیم سے کوئی بھی ٹیسٹ سیریز نہ ہارنا ہے۔ 1988ء میں ویسٹ انڈین امپائرز نے بے ایمانی کی انتہا کر دی وگرنہ پاکستان تو کالی آندھی کو اس کی سرزمین پر شکست دینے میں کامیاب ہو جاتا۔

اس دور میں کسی اور ٹیم نے یہ کارنامہ انجام نہیں دیا۔ ویسٹ انڈیز کی ٹیم تب صرف جیت کے لیے میدان میں اترتی تھی۔ وہ وقت بھی تھا جب انٹرنیشنل کرکٹ کونسل ہماری مرضی کے بغیر کوئی فیصلہ نہیںکر سکتی تھی، آج بھارت آئی سی سی کا چوہدری ہے۔ پاکستان کہنے کو ایک جمہوری ملک ہے مگر 1970ء میں ہونے والے الیکشن کے سوا کوئی الیکشن بھی ایسا نہیں جس پر دھاندلی کے الزامات نہ لگے ہوں۔ ابھی حکومت کو اقتدار سنبھالے ایک سال ہی ہوا ہے اور عمران خان کی تحریک انصاف سڑکوں پر ہے۔ لندن میں طاہر القادری، چوہدری شجاعت اور چوہدری پرویز الہی کے درمیان اتحاد ہو گیا ہے۔ حکومت کی ساری توانائیاں توانائی کے منصوبوں پر لگ رہی ہیں۔میٹرو بس کے بعد لاہور میں میٹرو ٹرین آنے والی ہے۔ معیشت میں بہتری کے دعوے بھی کیے جا رہے ہیں۔

وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید کے دعوے کے مطابق آج بجٹ میں نئی تاریخ رقم ہونے جا رہی ہے۔ حکومت کہتی ہے 5سال پورے کرنے دو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ اس سے پہلے بھی ایک جمہوری حکومت 5 سال پورے کر کے گئی ہے۔ اس حکومت کے دونوں وزرائے اعظم عدالتوں کے رحم و کرم پر ہیں۔ ایک سال کے دوران اداروں کے درمیان تصادم کی جھلکیاں ہم دیکھ چکے ہیں۔ آج کی تاریخ تک کوئی فریق پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہے۔ شوکت عزیز کہا کرتے تھے معاشی ترقی کے اثرات عام آدمی تک پہنچنے میں وقت لگے گا۔ موصوف آج اپنے وطن امریکا میں پناہ گزین ہیں۔ دیکھتے ہیں موجودہ معاشی ترقی کے ثمرات عام آدمی تک کب پہنچتے ہیں۔

زوال کے عروج کی یہ کہانی کبھی کوئی موڑ بھی مڑے گی یا یوں ہی سیدھے راستے پر چلتی رہے گی۔ میرے سامنے ورلڈ اٹلس پڑا ہوا ہے' میری نظر ہالینڈ کے شہر ہیگ پر پڑی جہاں ہاکی کا عالمی کپ ہو رہا ہے' پھر میری نظر سفر کرتی ہوئی پاکستان تک آ گئی' جہاں عرصے سے کوئی عالمی ایونٹ نہیں ہوا' یہیں سے میرے ذہن میں ایک خوف زدہ کر دینے والا خیال پیدا ہوا کہ ہمارے قائدین جو کھیل کھیل رہے ہیں' اس میں کہیں عالمی اٹلس سے پاکستان ہی غائب نہ ہو جائے' پھر فوراً ہی میرے منہ سے نکلا' اللہ نہ کرے' ہم زندہ ہیں اور زندہ رہیں گے' سیاسی کھلاڑیوں کا کیا ہے' یہ خود ہی آئوٹ ہو کر باہر چلے جائیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں