غزل
نہ خوش ہو چھین کے مجھ سے تو سائبان مرا
لیا ہے دھوپ نے پہلے بھی امتحان مرا
عجب نہیں کہ خفا ہو ہر اک بشر مجھ سے
کہ ترجمان مرے دل کا ہے بیان مرا
سمے کی موج پہ رکھا ہوا حباب ہوں میں
کہاں ملے گا مرے بعد پھر نشان مرا
میں بارشوں کے قصیدے پڑھوں تو کیسے پڑھوں
ٹپک رہاہے کئی روز سے مکا ن مرا
وہ جس نے زخم جدائی کا بے سبب ہی دیا
وہ بے وفا نہیں اب بھی ہے یہ گمان مرا
تمام عمر میں طاہرؔ کرا ئے دار رہا
مری لحد ہی بالآخر بنی مکان مرا
(محمد طاہر۔لاہور)
۔۔۔
غزل
طاقت کے لیے عیش و مراعات کی دنیا
اور لوگ اسے کہتے ہیں مکافات کی دنیا
ہر حال میں ہو جاتا ہے دونوں کا تصادم
ملتی نہیں حالات سے جذبات کی دنیا
کل میں تھا جہاں آج کوئی اور کھڑا ہے
ایسے ہی تو ہوتی ہے مفادات کی دنیا
صد شکر کہ آمادہ ہوئی تازہ روش پر
رسموں کی رواجوں کی روایات کی دنیا
تا عمر رہا شاد مگر کہہ کے گیا ہے
صدمات کی دنیا ہے یہ آفات کی دنیا
سمجھائیں انہیں علت و معلول کا رشتہ
جاذبؔ جو سمجھتے ہیں طلسمات کی دنیا
(اکرم جاذب۔ منڈی بہاء الدین)
۔۔۔
غزل
مدت کے بعد تو جو مجھے دوستا ملا
میں نے نچوڑے اشک، مجھے قہقہہ ملا
دیکھا تھا رات خواب کہ تو دل میں اب نہیں
جاگا جو نیند سے تو بدن کانپتا ملا
ہراک حسین نے مرے دل میں گزارے دن
اک حُسن ہی بدن میں مجھے جا بہ جا ملا
پھرتے ہیں کتنے لوگ یہاں ڈھونڈتے ہوئے
منزل اُسے ملے گی جسے راستہ ملا
طارقؔ ہمیشہ زندگی سے یہ گلہ رہا
جو شخص بھی ملا وہ جڑیں کاٹتا ملا
(طارق جاوید۔ کبیروالا)
۔۔۔
غزل
ثمر نہ پات، نہ شاخیں دکھائی دیتی ہیں
حسین پیڑ پہ چیلیں دکھائی دیتی ہیں
سنائی دیتی ہیں آوازیں عہدِ رفتہ کی
گئے زمانوں کی روحیں دکھائی دیتی ہیں
اندھیرا چھانے لگے شامِ شہر یاراں میں
تو گول باغ میں شمعیں دکھائی دیتی ہیں
فریب کھائے ہیں اتنے کہ اب اِن آنکھوں کو
ہر ایک شخص کی چالیں دکھائی دیتی ہیں
نہ ہم نے لوٹ کے آنا ہے اب نہ تم نے دوست!
سو دوریوں کی قطاریں دکھائی دیتی ہیں
دیارِ یار سے گزریں تو ہر قدم پہ امام
ہمارے خوابوں کی قبریں دکھائی دیتی ہیں
(فیصل امام رضوی۔ مظفر گڑھ)
۔۔۔
غزل
دل میں ہماری یاد کو ٹھہراؤ دیکھ کر
پوشاک اپنے زخم کو پہناؤ دیکھ کر
یوں بھی بھلی ہے پر مرے معبود اگلی بار
تم کہکشاں بنانا مرے گھاؤ دیکھ کر
یہ خامشی بھی درد کی آواز کب بنی
چیخوں سے سارے لوگوں کا برتاؤ دیکھ کر
بیری نہیں تھی جو کسی پھل کو اچھالتی
کرنا تھا مجھ فصیل پہ پتھراؤ دیکھ کر
مرنے لگے تھے ساتھ میں تم دیکھ کر ہمیں
ہم اب بھی ایک ساتھ ہیں مر جاؤ دیکھ کر
(بشریٰ شہزادی ۔ڈیرہ غاری خان)
۔۔۔
غزل
جوہری دیکھ بڑے کام کے پتھر آئے
پھر کسی ہاتھ سے الزام کے پتھر آئے
پھر درختوں پہ وہی صبر کا پھل پکنے لگا
پھر وہی گردشِ ایّام کے پتھر آئے
لو غریب الوطنو، بخت زدو، ہم سفرو
اب کی آندھی میں درو بام کے پتھر آئے
اپنے آئے ہوئے گل دیکھ چکو تو یارو
دیکھنا اِن میں مرے نام کے پتھر آئے
جانچنے والا ہی کہتا رہا' گوہر نہیں یہ'
ہاتھ میں تو کئی اقسام کے پتھر آئے
آج اِس جبّہ و دستار کی یا اللہ خیر
آج تو دستِ ادب تھام کے پتھر آئے
میں عجوبہ تھا مگر میرا ستوں ٹوٹ گیا
اے زمیں لے مرے اہرام کے پتھر آئے
دل کی لہروں میں زبیرؔ ایسا طلاطم تو نہ تھا
کیا پھر اُس سمت سے پیغام کے پتھر آئے؟
(زبیرحمزہ ۔قلعہ دیدار سنگھ)
۔۔۔
غزل
عمر ڈھلتے جمال بدلے گا
ہر کسی کا سوال بدلے گا
کون کہتا ہے حال بدلے گا
بدلے گا کچھ، تو سال بدلے گا
مجھ پہ سارے جہاں کی نظریں ہیں
جلد میرا زوال بدلے گا
ایک عاشق ولی کے روپ میں ہے
عشق اپنی دھمال بدلے گا
یہ جو صیاد پیچھے ہو گیا ہے
عین ممکن ہے چال بدلے گا
جو محبت کو جسم سمجھے ہے
وہ بہت جلد کھال بدلے گا
تو یقیں رکھ خدا پہ اے اذفرؔ
وہ یقیناً خیال بدلے گا
(علی مان اذفر۔ مریدکے، شیخوپورہ)
۔۔۔
غزل
غمِ جہاں کے ستم سے بکھر گیا ہوگا
وہ ایک شخص نہ جانے کدھر گیا ہوگا
مصیبتوں سے جو دامن چھڑا لیا اس نے
میں کیا کہوں،کہ وہ کتنا نکھر گیا ہوگا
میرا خیال تھا اب کہ وہ لوٹ آئے گا
بچھڑ گیا ہے تو شاید سدھر گیا ہوگا
یہاں وہاں میں اسے ڈھونڈتا رہا لیکن
اِدھر ملا جو نہیں تو اُدھر گیا ہوگا
(جواد انور۔نظامپور، نوشہرو)
۔۔۔
غزل
گھٹن کو چھوڑ کے بیٹھا تو میں نے سانس لیا
میں اپنے آپ سے نکلا! تو میں نے سانس لیا
زمین پیروں سے نکلی تو سانس گھٹنے لگی
فلک اتار کے پھینکاتو میں نے سانس لیا
میں اپنے آپ کو مردہ سمجھ کے سو گیا تھا
لپٹ کے مجھ سے تُو رویا! تو میں نے سانس لیا
وہ حبس تھا کہ تنفس کی کوئی کھڑکی کھلے
بدن کا ملبہ ہٹایا تو میں نے سانس لیا
جو تھوڑا کارِ جراحت تھا میرے سینے میں
کسی نے دل جو لگایا تو میں نے سانس لیا
تمہارے ہاتھ کا مرہم ہَوا میں شامل تھا
جو زخم زخم سے ابھرا تو میں نے سانس لیا
ہَوا ضروری تھی دونوں کو سانس لینا تھا
غبارا پھونک کے چھوڑا تو میں نے سانس لیا
(مصور عباس۔ بلوٹ شریف ،ڈیرہ اسماعیل خان)
۔۔۔
غزل
گلگت کی فضاؤں میں تجھے ڈھونڈ رہا ہوں
سکردو کی بہاروں میں تجھے ڈھونڈ رہا ہوں
اس پہلی ملاقات کا منظر نہیں بھولا
میں دھوپ کی چھاؤں میں تجھے ڈھونڈ رہا ہوں
اوراق پلٹتا ہوں میں ماضی کی صبح و شام
اور اپنی کتابوں میں تجھے ڈھونڈ رہا ہوں
اے تیشۂ نفرت اے مری جان کے دشمن
احباب کے ہاتھوں میں تجھے ڈھونڈ رہا ہوں
اس خاک پہ شاید نہ ہو الہامِ محبت
میں چاند ستاروں میں تجھے ڈھونڈ رہا ہوں
(شاہد بلیاری۔ سکردو، بلتستان)
۔۔۔
غزل
ہم فقط کچھ دلوں سے اتارے گئے
پھر بھی تیری نگاہوں سے مارے گئے
وہ تو خود ہی میری جال میں آگئے
میری آنکھوں کے بس کچھ اشارے گئے
اس لیے ترک کردی محبت میاں
اس میں اپنے بھی دو چار مارے گئے
اس شجر کی جڑیں کھوکھلی ہوگئیں
اس شجر کے میاں اب سہارے گئے
میرے حق میں بھی دیکھو میاں چاند ہے
تیرے حق میں اگر یہ ستارے گئے
تیرے غم میں گزرتی گئی زندگی
رات کاٹی گئی دن گزارے گئے
شعبۂ اردو ہے شیر ایسی جگہ
بے ادب بھی جہاں پہ سنوارے گئے
(ارسلان شیر۔ نوشہرہ ،خیبر پختون خوا)
۔۔۔
غزل
کم مایگی کی رنج کی عسرت کی دھوپ میں
ہم لوگ چل رہے ہیں قیامت کی دھوپ میں
گھر میں گھنے درخت کی موجودگی میں بھی
گزری ہے اپنی زندگی شدت کی دھوپ میں
بیٹھے ہوئے ہیں چھاؤں میں اربابِ اختیار
بے بس بلک رہے ہیں مصیبت کی دھوپ میں
سائے میں اتفاق کے بیٹھے نہیں مکین
گھر جل گیا شدید خصومت کی دھوپ میں
ٹھنڈے ہیں میرے بخت کچھ ایسے کہ آج تک
جلتا ہی جا رہا ہوں صعوبت کی دھوپ میں
(عبداللہ باصرؔ۔گوجرانوالہ)
۔۔۔
غزل
نام سن کر آنکھ میں اک رنگ بھرجاتا شہاب
پانیوں پر عکس سا پھر تیر جاتا تھا شہاب
اس کے ہونٹوں پر تبسم میرے شعلوں کی طرح
جس نے مجھ کو آسماں سے ٹوٹتے دیکھا شہاب
چونک جاتا تھا میں اکثر دیکھ کر اس شخص کو
نام تیرا سن کے گہرا سانس جو لیتا شہاب
وہ ملا جب راستے میں اجنبی بن کر ملا
کاش! میری روح کو پہچانتا میرا شہاب
بات کرتے کرتے اس کے لفظ بھی رونے لگے
آنسوؤں میں بھیگتا دیکھا گیا لہجہ شہاب
ہم رہے پیاسے، ہماری سوچ بھی پیاسی رہی
ہم جہاں رہتے تھے بہتا تھا وہاں دریا شہاب
اس نے میرا ہاتھ پکڑا اورسمجھانے لگا
میں نے دیکھا تو تھا وہ رستہ ترے گھر کا شہاب
(شہاب اللہ شہاب۔ منڈا، دیر لوئر، خیبر پختونخوا)
سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ''کوچہ سخن ''
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی