آئی ایم ایف کے اہداف عوام زیر بار کیوں

سیاستدانوں کا یہ گٹھ جوڑ ہی ملک میں غربت مہنگائی، بے روز گاری اور دیگر مسائل کا ذمے دار ہے


Editorial January 22, 2024
سیاستدانوں کا یہ گٹھ جوڑ ہی ملک میں غربت مہنگائی، بے روز گاری اور دیگر مسائل کا ذمے دار ہے۔ فوٹو: فائل

آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان کی معاشی صورتحال بہتر ہو رہی ہے، معاشی ترقی کی شرح دو فیصد رہنے کا امکان ہے، حکومتی زرمبادلہ کے ذخائر 4.5 سے بڑھ کر 8.2 ارب ڈالر ہوگئے ہیں۔

دوسری جانب ریونیو اہداف پورے نہ ہونے پر پاکستان نے آئی ایم ایف کو یقین دہانی کرائی ہے کہ پندرہ فروری سے قبل گیس کی قیمت میں مزید اضافہ کر دیا جائے گا، یہ ایک سال میں تیسرا اضافہ ہوگا، اسی طرح پاکستان ہر ماہ اٹھارہ ارب روپے کے اضافی ٹیکسز لگانے پر بھی تیار ہے، اس طرح ہر سال 216 ارب روپے کے اضافی ٹیکس لگائے جائیں گے۔

بلاشبہ پاکستان نے آئی ایم ایف کے اہداف پورے کیے ہیں، اسی لیے اہداف کو پورا کرنے میں سابقہ اتحادی اور موجودہ نگران حکومتوں کی کوششوں کا اعتراف کیا گیا ہے، کڑی شرائط پوری کرنے کے بعد آئی ایم ایف معاہدہ کے تحت دوسری قسط مل تو گئی ہے لیکن جو تکالیف اور مشکلات عوام نے برداشت کی ہیں وہ عوام ہی بتا سکتے ہیں کہ انھوں نے آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کو کس طرح بھگتا ہے اور دوسری قسط جاری ہونے کے بعد ان کا مزید کیا حال ہونے والا ہے؟

گیس اور بجلی کے بلوں میں کئی گنا زیادہ اضافے کے خلاف احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے لیکن حکومت ٹس سے مس نہ ہوئی۔ عوام نے مہنگائی کو اتنی مشکل سے اپنے کندھوں پر اٹھایا اور ابھی تک اٹھائے ہوئے ہیں، حالانکہ ہمارے پاس وسائل کی کمی نہیں، لیکن وہ کون لوگ ہیں جو ہمیں اپنے وسائل کے استعمال سے خوشحال دیکھنا نہیں چاہتے، اس کا سب کو پتا ہے۔

آج پاکستان بیوروکریسی، صنعت کاروں، دولت مند تاجروں اور جاگیردار اشرافیہ پر مشتمل طبقے کی گرفت میں ہے۔ پاکستان کی معیشت صرف اسی طبقے کو فائدہ پہنچاتی ہے۔ اس کا سیاسی عمل انھی کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔ اس کی جمہوریت انھی کے گھرکی باندی ہے۔ یہ ریاستی اشرافیہ نہ صرف ٹیکس دہندگان کی رقوم سے فائدہ اٹھاتی ہے۔

درحقیقت یہ اشرافیہ ایک مافیا کی طرح کام کرتی ہے۔ مثال کے طور پر ایف بی آر ایس آر اوز کے ذریعے طاقتور طبقوں کو ٹیکس کی چھوٹ دے کر دولت جمع کرنے کی سہولت فراہم کرتا ہے۔ گزشتہ 30 برسوں کے دوران 5000 بلین روپوں کی ٹیکس چھوٹ دی گئی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ فنانس بل 2023 پیش کرنے سے پہلے ایف بی آر نے خاص طور پر شوگر اور اسٹیل انڈسٹری کو فائدہ پہنچانے والے نوٹیفیکیشن جاری کیے تھے۔

اس وقت ملک میں پیاز، ٹماٹر، جلانے والی لکڑی، دالوں، بڑے گوشت، برائیلر مرغی، ایل پی جی سلنڈر اور چاول کی قیمتوں میں اضافہ جب کہ فروٹ کی قیمتوں میں ہوشربا حد تک اضافے نے مجموعی طور پر مہنگائی کے بوجھ تلے دبے عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ کردیا ہے۔

ادارہ شماریات پاکستان کی مہنگائی پر مبنی ہفتہ وار رپورٹ کے مطابق 11جنوری 2024 کو اختتام پذیر ہونے والے ہفتے کے دوران مہنگائی کی شرح گزشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں 16.44فیصد جب کہ گزشتہ ہفتہ کے مقابلے میں یہ شرح01.36 فیصد بڑھ گئی ہے۔ ملک کے 17بڑے شہروں سے 51 اشیاء کی قیمتوں کا تقابلی جائزہ لیا گیا جس میں سے 21اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ اور 8 اشیاء کی قیمتوں میں کمی جب کہ 22اشیاء کی قیمتوں میں استحکام رہا۔

آئی ایم ایف کی جانب سے بعض شعبوں پر ٹیکس عائد کرنے کے مطالبات پر حکمرانوں کی عدم توجہی کے باعث اب بالٓاخر آئی ایم ایف ان مخصوص شعبوں پر بطور خاص ٹیکس عائد کرنے کے مطالبے میں سنجیدگی کے ساتھ سختی برتنے پر مجبور ہوئی ہے جس سے اس امر کی توقع کی جا سکتی ہے کہ اب حکومت ان شعبوں پر بھی ٹیکس عائد کرنے کی طرف متوجہ ہوگی، اس کے علاوہ کوئی چارہ کار بھی باقی نہیں رہا لیکن اس کے باوجود بھی کم از کم اشرافیہ کی نمایندہ حکومت سے پھر بھی لیت و لعل کرنے ہی کی توقع ہے۔

اشرافیہ کے مختلف طبقات بھاری تنخواہوں کے علاوہ اربوں روپے ماہانہ کی مراعات اور سہولتیں مفت رہائش، مفت سفر، مفت گاڑیوں، مفت پٹرول، مفت گیس، مفت بجلی اور دیگر نہ جانے کن کن مراعات کی صورت میں وصول کرتے ہیں اور گرانی میں اضافے کے ساتھ ساتھ ان مراعات پر قومی خزانے سے اٹھنے والے اخراجات میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔

یہی نہیں ملازمت کے دوران کرپشن کی کھلی چھوٹ بھی انھیں حاصل رہتی ہے اور ملازمت سے سبکدوشی کے بعد پنشن اور دیگر مراعات کے علاوہ مختلف اعلیٰ حکومتی عہدوں پر تعیناتی کے مواقعے بھی انھیں ہی دستیاب ہوتے ہیں۔

طبقہ اشرافیہ اور اقتدار کے مزے لوٹنے والے ان سیاستدانوں کا یہ گٹھ جوڑ ہی ملک میں غربت مہنگائی، بے روز گاری اور دیگر مسائل کا ذمے دار ہے، اس سبب مفاد پرست سیاسی جماعتیں موجودہ ناگفتہ بہ صورت حال پر مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ زبردست عوامی احتجاج کے باوجود حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی اور وہ اپنے شاہانہ اخراجات میں کمی پر آمادہ ہیں، نہ بالائی طبقات کی مراعات واپس لینے کی بات سننے کو تیار ہیں۔ نگران حکومت آئے دن عوام پر مہنگائی کے بوجھ میں اضافہ کرتی چلی جا رہی ہے۔

حکومت کا یہ طرز عمل ''مرے کو مارے شاہ مدار'' کے مصداق ہے۔ عوام کے مسائل اور مشکلات سے لاتعلقی اور عوامی احتجاج کو قطعی کوئی اہمیت نہ دینے کی مثال گزشتہ دنوں محترمہ نگران وزیر خزانہ کے اس بیان کی صورت سامنے آئی کہ ہم اس لیے حکمران نہیں بنائے گئے کہ بجلی بلوں کے متاثرین کو ریلیف دیں بلکہ ہمارا کام آئی ایم ایف سے کیے گئے معاہدہ پر عمل درآمد کروانا ہے۔

مہنگائی اور مسائل کے ستائے ہوئے غریب لوگ آج بے بسی سے خود کشیاں کر رہے ہیں۔ دوسری جانب زرعی آمدنی پر ٹیکس چونکہ آئینی معاملات سے منسلک ہے، اس لیے اس بارے ضروری قانونی اصلاحات کے بعد آیندہ حکومت ہی ٹیکس عائد کرسکے گی، البتہ بطور ریاست اگر اس موقع پر ہی اس پر اتفاق ہوجائے تو آنے والی حکومت کو زیادہ دباؤکا سامنا نہیں کرنا پڑے گا اور یہ پہلا قدم اور پیشرفت ہوگی۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم کب تک آئی ایم ایف کے سہارے زندہ رہ سکتے ہیں اور پاکستان کے غریب عوام ان کا بوجھ کب تک برداشت کریں، عوام کے لیے اب زندگی کی بقاء اور بنیادی ضروریات روٹی کپڑا اور مکان مشکل سے مشکل تر ہو گیا ہے۔ پاکستان کے کئی افراد اب اپنی موٹر سائیکل اور سائیکل بیچ کر بل جمع کرتے نظر آتے ہیں کسان اور مزدور مشکل میں ہیں، ملازم پیشہ افراد اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھے ہوئے ہیں۔

ملک کے وسائل کو استعمال کرنے سے روکا جا رہا ہے، آئی ایم ایف کی دوسری قسط ملنے سے عام شہری کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا بلکہ مہنگائی اور گیس تیل کی قیمتوں میں اضافے سے عام کھانے پینے کی اشیاء بہت دور ہو گئی ہیں اور مزید دور ہو جائیں گی۔

ہمیں آئی ایم ایف سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے منصوبہ بندی کرنی ہے اور اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے اقدامات کرنے ہیں۔ پاکستانی قوم کو ایک سوچ دینی ہے اور بہتر سمت کی طرف لے کر جانا ہے ، ترقی اور خوشحالی کا یہ ہی ایک راستہ اور راز ہے ملک میں عام انتخابات کا اعلان بھی ہوچکا ہے اور نئی آنے والی منتخب حکومت کو شدید مشکلات اور آئی ایم ایف کے معاہدے کے مطابق عوام کے لیے فوری ریلیف دینا بہت مشکل ہو جائے گا۔

پاکستانیوں، خاص طور پر غریب، کمزور اور کم وسائل رکھنے والے طبقات کے مصائب میں اُس وقت تک کمی نہیں آئے گی جب تک آئینی جمہوریت کے سنہرے اصولوں، جیسا کہ مساوات، سماجی انصاف اور عدل کو آئین پاکستان کے آرٹیکل 3 کے تحت معاشرے میں رائج نہیں کردیا جاتا۔ پاکستان کا مسئلہ وسائل کی کمی نہیں بلکہ نااہل اور بدعنوان انتظامیہ اور بے حس سیاسی ٹولہ پاکستان کا اصل مسئلہ ہے۔

یہ ٹولہ عوام کو سماجی اور معاشی انصاف فراہم کرنے کا روادار نہیں۔ اس رویے کی وجہ سے معاشرے میں تناؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ ایسے واقعات تواتر سے پیش آنا شروع ہو گئے ہیں کہ عوام قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں۔ یہ خطرناک رجحان حکمران طبقے کو خواب غفلت سے جگانے کے لیے کافی ہونا چاہیے، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے اور حقیقی آزادی کا تصور مزید مبہم ہو کر رہ جائے۔

بہرحال جو بھی صورتحال ہو ہر بار عوام ہی کو زیر بار لانے کا سلسلہ اب ختم ہونا چاہیے اور حکومت کو اس پالیسی پر نظر ثانی کر کے گنجائش کے حامل شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے اور ٹیکس وصولی کو یقینی بنانے کی طرف سنجیدہ اور ٹھوس پیش رفت کی ذمے داری نبھانی چاہیے۔

پراپرٹی سیکٹر پر ٹیکس کا نفاذ کوئی ایسا سنگین اور مشکل مسئلہ نہیں حکومت کو اب ان مخصوص شعبوں کو اب مزید ٹیکس کے دائرہ کار سے باہر نہیں رکھنا چاہیے اور ٹیکس وصولی کے نظام کو بھی مزید منظم بنانے میں بھی اب تاخیر کی گنجائش نہیں، زیادہ بہتر تو یہ تھا کہ آئی ایم ایف کے دباؤ کی نوبت نہ آتی مگر اب جب کہ دباؤ بھی درپیش ہے اور اس کے بغیر کوئی اور راستہ باقی بھی نہیں بچا تو دیر آید درست آید کے مصداق اس حوالے سے مزید تاخیر وقت کا ضیاع ہوگا جس کی گنجائش نہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں