سست رفتار انتخابی مہم

یہ اس ملک کا پہلا الیکشن ہے جس میں انتخابی مہم اپنی تاریخ کی سست رفتاری کے ساتھ چل رہی ہے


Dr Mansoor Norani January 22, 2024
[email protected]

یہ اس ملک کا پہلا الیکشن ہے جس میں انتخابی مہم اپنی تاریخ کی سست رفتاری کے ساتھ چل رہی ہے۔ ابھی تک کسی بھی سیاسی جماعت کی طرف سے کوئی ایک بھی بہت بڑا جلسہ نہ ہوسکا ہے،نہ کوئی زبردست ریلی نکالی گئی۔

اس کی بہت سی وجوہات ہیں،ان میں سے ایک بڑی وجہ خان صاحب اوراُنکی جماعت کا ان الیکشنوں میں فعال نہ ہونا ہے، وہ اگر پہلے کی طرح جلسے کررہے ہوتے تو مجبوراً دیگر جماعتوں کو بھی مدمقابل آنا ہی پڑتا۔اب چونکہ میدان صاف ہے۔

لہٰذا کسی کو کیاپڑی ہے کہ اپنی توانائیاں ضایع کرتا پھرے۔خان صاحب اگر میدان میں ہوتے تو ہرشہر میں ابھی تک کئی کئی جلسے کرچکے ہوتے اوراُن جلسوں میں جو گرمی اورجوش ہوتاوہ بھی قابل دید ہی ہوتا۔دوسرے ملک کے حالات بھی اتنے اچھے اورموافق یاسازگار نہیں ہیں کہ وہ ایک لمبے عرصے کے لیے انتخابی مہم کا متحمل ہوپائیں۔

معاشی اور اقتصادی کنڈیشن بھی سیاسی جماعتوں کو اجازت نہیں دیتی کہ وہ اقتدار میں آنے کے لیے بلند بانگ دعوے کرتے پھریں۔سنجیدہ اور سمجھدار سیاسی قیادت کو معلوم ہے کہ الیکشن میں جیت کرحکومت سنبھالنا کوئی اتنا آسان اورسہل نہیں ہوگا۔

ملک کو درپیش معاشی بحران ابھی تک ٹلا نہیں ہے۔ ایسے میں جوبھی اقتدار حاصل کریگاوہ اگلے پانچ سال تک اپنی کریڈیبلٹی بچانے میں ہی لگارہے گا۔

کوئی کرشمہ یامعجزہ ہی اُسے اس امتحان میں سرخرو یاکامیاب کر پائے گا۔یہ ساری باتیں تجربے کار سیاست اچھی طرح جانتے ہیں ، شاید اسی لیے وہ خاموش بھی ہیں اورعوام کو جھوٹے وعدے کرکے بے وقوف بنانے سے بھی گریزاں ہیں۔

بلاول زرداری چونکہ سیاستدانوں کی موجودہ کھیپ میں نئے اورنووارد ہیںاس لیے وہ عوام سے وعدے اور دعوے کرنے میں مصروف ہیں۔300 یونٹس بجلی مفت اور30 لاکھ مکانوں کے وعدے سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہیں۔

سیاسی تبصرہ نگار اُن کے ساتھ انٹرویوز میں یہ سوال کرتے بھی نظر آتے ہیں کہ ایسا کون سا الٰہ دین کا چراغ ہے جسے رگڑتے ہی بلاول اس ملک کے تین کروڑ افراد کو تین سے یونٹس تک مفت بجلی فراہم کرنے لگیں گے۔

ایسے ہی گرمجوش وعدے خان صاحب نے بھی کیے تھے ۔ ایک کروڑ نوکریاں اورپچاس لاکھ گھر۔ پھر کیا ہواحالات پہلے سے بھی بدتر ہوگئے ۔نئی نوکریاں کیاملتیں ، پہلے سے موجود روزگار بھی ختم ہوکررہ گیا۔ مہنگائی کہاں سے کہاں پہنچ گئی اورعوام کاجینا محال ہوگیا۔

ہماری مشکل یہ ہے کہ عوام پرانے سیاستدانوں کی شکلوں سے بہت جلد بیزار ہوجاتے ہیں اورنئے سیاستدانوں کی چکنی چپڑی باتوں میں آکر اور اُن کی پرکشش شخصیت اوراسٹائل سے متاثر ہوکرانھیں اپنا نجات دہندہ اور مسیحا سمجھنے لگتے ہیں۔

روٹی کپڑا اور مکان کا حسین اورپرکشش نعرہ تو بلاول زرداری کے نانا نے بھی قوم کودیاتھا۔اوراسی نعرے کی بنیاد پر وہ غریبوں کے ہردلعزیزرہنما اور لیڈر بھی بن گئے لیکن ، یہ نعرے آج تک وفا نہیں ہوئے۔

بھٹو صاحب کے بعد خان صاحب آئے ، لیکن سیاست میں انھیں فوراً وہ عوامی پذیرائی نہیں ملی جوذوالفقارعلی بھٹو کے حصے میں آئی تھی۔ بھٹو صاحب نے اس ملک کے غریب لوگوں کو اپنا دلدادہ بنایاتھا جب کہ خان صاحب نے اس ملک کے آسودہ اورامیر طبقوں کے نوجوانوں کو اپنا فریفتہ بنایا۔ اُن کے اندر غریبوں کولبھانے کے لیے کوئی خصوصیت نہیں تھی۔وہ اپنی طرح کے خوشحال لوگوں کے نمایندے بنے ہوئے تھے اورآج بھی ہیں۔

وہ اگر اتنے ہی پرکشش اورحقیقی سیاستدان ہوتے تو پندرہ سالوں تک سیاست میں پیچھے نہ رہتے، 1996 سے لے کر 2011 تک انھیں لوگوں نے دو سیٹوں سے زیادہ کبھی نہیں نوازا۔ یہ تو کارنامہ اُن قوتوں کو جاتا ہے جنھوں نے انھیں اتنا مقبول لیڈر بناکرلاکھڑا کردیا۔اُن کے اپنے اندر اگر کوئی ایسی خوبی ہوتی تو وہ کب کے مقبول اورمشہورسیاستداں بن چکے ہوتے۔ سب سے بڑھ کر ان کے اندر فیصلے کرنے کی قائدانہ صلاحیتوں کا واضح فقدان نظر آتا ہے۔

ریاست مدینہ بنانے کا نعرہ بھی انھوں نے اس قوم کی اسلامی وارفتگی اورمحبت کو دیکھ کرایک اسلامی ٹچ کے طور پر لگایا تھا۔ وہ اپنے جلسوں میں جس طرح کی رونقیں لگایاکرتے تھے اُن سے اُن کے اس اسلامی ٹچ کاپول کھل کر واضح طور پرعیاں ہو جاتاہے۔انھوں نے یہ نعرہ صرف مذہبی طبقے کو اپنا گرویدہ بنانے کے لیے لگایا تھا۔

اُن کی دیگر صلاحیتوں کا اندازہ اس ملک کے سب سے بڑے صوبے کی حکومت ایک ایسے شخص کے سپرد کرنے سے ہوجاتاہے جسے سیاست کی الف ب بھی معلوم نہ تھی۔ مگر وہ اُسے وسیم اکرم پلس کہہ کر پکاراکرتے تھے۔وہ نہ صرف اپنے اس فیصلے پرچار برس تک ڈٹے رہے بلکہ اس فیصلے کو اپنا سب سے اچھا فیصلہ بھی قرار دیتے رہے۔پھرملک کی ترقی اور خوشحالی کے اُن کے بڑے بڑے پروجیکٹس کو دیکھا جائے تو ہمیں شیلٹر ہومز اورلنگر خانوں اورانڈوں ، مرغیوں ، بھینسوں اور کٹوں کے منصوبوں کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس دور میں وہ مرغیوں اورانڈوں سے قوم کی قسمت بدلنا چاہتے تھے۔اسی طرح بلاول بھٹو زرداری بھی آج ہواؤں میں باتیں کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

300 یونٹس مفت بجلی وہ کس طرح دے پائیں گے ، اس کا اُن کے پاس کوئی ٹھوس جواب بھی نہیں ہے۔کبھی وہ کوئلے کی بجلی کی بات کرتے ہیں تو کبھی سولر اورکبھی ونڈٹربائین کے ذریعے انقلاب لانے کی باتیں کرتے ہیں۔جس پارٹی نے اٹھارویں ترمیم کے بعد بھی اپنے ایک صوبے سندھ کی حالت نہیں بدلی وہ بھلا سارے ملک میں کیسے معاشی انقلاب برپا کر پائے گی۔یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب پارٹی کی کسی رہنما کے پاس بھی نہیں ہے۔

شاید اسی لیے مخالف یہ کہہ رہے ہیں کہ بلاول عوام سے یہ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ ہم لاہور کو کراچی بناکردکھائیں گے۔ انھوں نے یا اُنکی پارٹی نے سندھ کے باسیوں کی حالت بدل دی ہوتی تو آج انھیں یہ دعویٰ کرنے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں ہوتی۔

اس وقت سوائے پاکستان پیپلزپارٹی کے تمام سیاسی پارٹیاں ہلکی پھلکی سیاسی مہم چلارہی ہیں، مسلم لیگ نون بھی سوچ میں ہے کہ اس بار بھی اگر ملک کو آگے لے جانے کی بھاری ذمے داری اس کے کاندھوں پرڈال دی گئی تو ایسے مشکل ترین مالی اور اقتصادی حالات میں وہ کس طرح سرخرو ہوپائے گی۔

اسی لیے وہ ابھی تک منشور بھی بنا نہیں پائی ہے۔ وہ بلند بانگ دعوے بھی نہیں کرسکتی ہے کہ اُسے پتا ہے کہ ایسا کرنا اس کے بس کی بات نہیں ہے۔

اس نے کبھی انتخابات میں ایسے جھوٹے دعوے نہیں کیے جنھیں پوراکرنا اس کے بس میں نہ ہو۔ سولہ ماہ کی اتحادی حکومت میں اسے جن مشکلات کا سامنا اُٹھانا پڑا تھا ان کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ بہت پھونک پھونک کرقدم بڑھا رہی ہے۔ وہ صرف اپنے پرانے ترقیاتی منصوبوں کے بل بوتے پر عوام سے ووٹ مانگ رہی ہے،ورنہ اس کے پاس قوم سے وعدے کرنے کے لیے فی الحال کچھ بھی نہیں ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔