’’سلیپنگ بیوٹی‘‘ قازقستان کے گاؤں میں پھیلنے والی پُراسرار بیماری

اس کا شکار فرد مسلسل کئی روز تک سوتا رہتا ہے۔


Nadeem Subhan June 03, 2014
اس کا شکار فرد مسلسل کئی روز تک سوتا رہتا ہے۔ فوٹو : فائل

لاہور: کلاچی، قازقستان کا ایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔

دوردراز علاقے میں واقع یہ گاؤں اطراف کے قصبوں سے بالکل کٹا ہوا ہے۔ مگر ان دنوں ذرائع ابلاغ میں اس کا چرچا ہورہا ہے۔ اس کی وجہ کلاچی کے باسیوں میں پھیلنے والی ایک عجیب و غریب اور پراسرار بیماری ہے جسے ماہرین نے '' سلیپنگ بیوٹی'' کا نام دیا ہے۔ اس بیماری سے متاثرہ فرد بیٹھے بٹھائے اچانک نیند میں ڈوب جاتا ہے اور مسلسل چھے چھے روز تک محوخواب رہتا ہے۔

نیند سے بیدار ہونے کے بعد وہ بالکل نارمل ہوتا ہے۔ اس عجیب وغریب بیماری نے کلاچی کی بیشتر آبادی کو لپیٹ میں لے لیا ہے۔ چلتے پھرتے اور روزمرّہ کاموں میں مصروف لوگ اچانک نیند کی وادی میں چلے جاتے ہیں۔ تشویش ناک بلکہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ڈاکٹر، ماہرین طب اور سائنس داں ابھی تک '' سلیپنگ بیوٹی'' کا سبب نہیں جان پائے۔



یہ بیماری وقفے وقفے سے کلاچی اور اطراف کے علاقوں کو نشانہ بناتی ہے۔ اس ' وبا ' کی پہلی لہر مارچ 2013ء میں آئی تھی۔ دو ماہ کے وقفے سے پھر کلاچی کے باشندے سلیپنگ بیوٹی کا شکار بنے۔ رواں برس کے آغاز پر اور پھر گذشتہ ماہ میں اس بیماری نے زور پکڑا۔ اس گاؤں میں 40 سے 60 لوگ اس بیماری میں مبتلا ہیں۔ بیماری کا شکار ہونے کے بعد بیشتر افراد کی یادداشت بھی عارضی طور پر چلی جاتی ہے۔

سلیپنگ بیوٹی کے اولین شکاروں میں سے ایک پچاس سالہ ماریا فیلک بھی ہے۔ وہ اس بارے میں بتاتی ہے،'' میں حسب معمول صبح سویرے گائے کا دودھ دوہ رہی تھی کہ اچانک مجھ پر شدید نیند طاری ہونے لگی اور میں سوگئی اور اس کے بعد مجھے کچھ یاد نہیں۔ آنکھ کھلی تو میں اسپتال میں تھی۔ نرسوں سے پتا چلا کہ میں دو دن کے بعد بیدار ہوئی ہوں۔''

ایک اور حیران کن بات یہ ہے کہ یہ بیماری صرف مقامی رہائشیوں تک محدود نہیں ہے بلکہ ان کے مہمان بھی اس کا شکار ہوجاتے ہیں۔ تیس سالہ ایلیکسی گوم کلاچی میں اپنی ساس کی خیریت دریافت کرنے کے لیے آیا ہوا تھا۔



گوم کا کہنا ہے کہ اگلے روز صبح کے وقت وہ اپنا لیپ ٹاپ کھولے بیٹھا تھا کہ اچانک ایسے محسوس ہوا جیسے کسی نے اس کے دماغ کا سوئچ آف کردیا ہے۔ پھر اسپتال ہی میں اس کی آنکھ کھلی، مگر ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ وہ تمام ضروری ٹیسٹ کرچکے ہیں اور اسے کوئی مرض لاحق نہیں ہے، وہ بالکل صحت مند ہے۔ گوم ایک روز کے بعد ہوش میں آگیا تھا، مگر کلاچی میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو ایک ایک ہفتے کے بعدنیند سے بیدار ہوئے۔

حیران کُن امر یہ بھی ہے کہ کلاچی میں بسنے والے تمام خاندان سلیپنگ بیوٹی کا نشانہ نہیں بنے۔ کچھ گھرانے ایسے ہیں جن کے اراکین ہر بار اس بیماری میں مبتلا ہوئے اور کچھ ابھی تک اسے محفوظ ہیں۔

جب 2013ء میں پہلی بار لوگوں کے اچانک نیند میں ڈوب جانے کے واقعات ہوئے تو ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ اس کی وجہ ناقص شراب تھی۔ بعد میں یہ بات واضح ہوگئی تھی کہ اچانک سو جانے والے چھے میں سے کسی بھی فرد نے شرا ب نوشی نہیں کی تھی۔ کچھ مقامی لوگوں کا خیال ہے کہ سلیپنگ بیوٹی کا سبب فضائی درجۂ حرارت میں ہونے والا اضافہ ہے، جب کہ کچھ قریب ہی واقع یورینیم کی متروک کان میں سے آنے والے پانی کو اس کی وجہ سمجھتے ہیں جو دریا میں شامل ہوکر گاؤں تک پہنچتا ہے۔



اس پراسرار بیماری کا راز جاننے کے لیے اب تک متعدد سائنس داں کلاچی اور آس پاس کے علاقے کا دورہ کرچکے ہیں۔ انھوں نے اس علاقے کی مٹی اور پانی کے 7000 ٹیسٹ کیے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اس مرض کا شکار ہونے والے افراد کے خون، بال اور ناخنوں کے نمونے حاصل کرکے ان کے بھی ٹیسٹ کیے گئے ہیں۔ سائنس دانوں نے کلاچی کے مکانات کا بھی جائزہ لیا ہے کہ آیا ان میں ریڈون گیس، بلند سطح کی تاب کاری، بھاری دھاتوں کی نمکیات، بیکٹیریا اور وائرس تو موجود نہیں۔ تاہم ان تمام تجربات سے بھی کوئی نتیجہ اخذ نہیں کیا جاسکا۔

ضلعی ہیڈکوارٹر میں واقع اسپتال کے ڈاکٹر Kabdrashit Almagambetov کا کہنا ہے کہ '' سلیپنگ بیوٹی '' کے مریض کو ہوش میں آنے کے بعد کچھ بھی یاد نہیں ہوتا۔ پھر بہ تدریج اس کی یادداشت بحال ہوتی چلی جاتی ہے۔ ڈاکٹر کبدرشت کے مطابق بدقسمتی سے تمام تر ٹیسٹ کیے جانے کے باوجود ابھی تک اس عجیب و غریب بیماری کا سبب دریافت نہیں کیا جاسکا تاہم ٹومسک پولی ٹیکنیکل یونی ورسٹی میں جیوایکولوجی کے پروفیسر Leonid Rikhvanov نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے کیے گئے تجربات کے مطابق اس بیماری کا سبب یورنیم کی کان میں سے اٹھنے والے ریڈون گیس کے بخارات ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ریڈون گیس ہی اس کی وجہ ہے تو پھر گاؤں کے تمام باشندوں کو یہ مرض لاحق ہونا چاہیے تھا، کیوں کہ سب ہی اسی فضا میں سانس لے رہے ہیں۔ قازقستان کے وزیر برائے ماحولیاتی تحفظ اور آبی وسائل نے سائنس دانوں اور محققین سے درخواست کی ہے کہ وہ اس عجیب وغریب بیماری کی وجوہ کا سراغ لگائیں اور اس کا علاج دریافت کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں