تعلیمی نظام میں تبدیلی لائی جائے

آج کے ترقی یافتہ دور میں تعلیم کی افادیت و اہمیت سے کسی صورت انکار نہیں کیا جا سکتا


Editorial January 23, 2024
آج کے ترقی یافتہ دور میں تعلیم کی افادیت و اہمیت سے کسی صورت انکار نہیں کیا جا سکتا۔ فوٹو: فائل

وفاقی وزارت تعلیم کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان میں دو کروڑ باسٹھ لاکھ بچے اسکول جانے سے محروم ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ انتالیس فی صد بچے مختلف وجوہات کی بنا پر اسکول نہیں جا رہے جب کہ سب سے زیادہ بلوچستان میں 65 فی صد بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔

انٹر کی سطح پر دیکھا جائے تو ساٹھ فی صد نوجوان تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہیں جب کہ میٹرک، مڈل اور پرائمری سطح پر چوالیس فی صد، تیس فی صد اور چھتیس فی صد بچے اسکول نہیں جا رہے ہیں۔

آج ہم اگر دنیا کے ترقی یافتہ ممالک سے اپنے وطن کا موازنہ کریں تو پسماندگی اور ملکی ترقی میں رکاوٹ کی سب سے بڑی وجہ ناخواندگی اور بنیادی تعلیم و تربیت کی کمی ہے جس میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ایک توجہ طلب امر ہے۔

اقتصادی منصوبہ بندی کے ماہرین کے مطابق پاکستان پڑھائی سے محروم کروڑوں بچوں کے لیے حصول تعلیم کو یقینی بنانے میں مسلسل ناکامی کے باعث مستقبل قریب میں لازمی طور پر ایسے حالات کا شکار ہو جائے گا، جو کئی طرح کے بحرانوں کو جنم دیں گے۔ ان میں سے شدید ترین بحرانوں کا سامنا معیشت اور روزگار کو ہو گا۔

والدین کی بڑی تعداد ایسی ہے جو آج بھی تعلیمی اہمیت و افادیت کی آگاہی سے محروم ہونے کے ساتھ ساتھ غربت کا شکار ہے اور اس میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔

غربت کی وجہ سے والدین اپنے بچوںکے تعلیمی اخراجات اٹھانے کے قابل نہیں ہیں۔گھریلو تنگدستی کی وجہ سے ایسے والدین اپنے کمسن بچوں کو محنت مزدوری میں لگا دیتے ہیں، جس عمر میں اُن کی منزل اسکول، کتابیں، بستے اور اپنے ہم جولیوں سے کھیل کود ہوتی ہے۔

اُسی عمر میں وہ بچے اپنی زندگی خود جینے کے بجائے دوسروں کے حساب سے جینے لگتے ہیں۔ اس سے ان کے احساسات، خواہشات، سماجی آزادی، ذہنی و جسمانی شعور سب بکھر جاتا ہے۔

پاکستان میں کسی بھی حکومت نے تعلیم پر توجہ نہیں دی، محکمہ تعلیم موجود ہے، وزارت تعلیم موجود ہے،اساتذہ موجود ہیں،ہر گریڈ کا ملازم موجود ہے، قومی خزانے سے کروڑوں روپے ماہانہ تنخواہیں اور مراعات دی جارہی ہیں لیکن تعلیم موجود نہیں ہے۔

سرکاری اسکولز کی عمارتیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں،پلے گراونڈز میں دھول اڑتی ہے،واش رو مز غلاظت سے بھرپور ہیں،پینے کے پانی کا مناسب بندوست نہیں ہے۔

یہ سرکاری پرائمری اور ہائی اسکولز کا حال ہے، سرکاری اسکولز کا تعلیمی نصاب فرسودہ اور غیرسائنسی بنیادوںپر استوار ہے کیونکہ نصاب تیار کرنے والے ماہرین کا مائنڈ سیٹ ایسا ہی ہے۔

سرکاری اسکولوں میں پڑھائے جانے والے نصاب تعلیم کی ساخت، بنیاد اور طریقہ نفاذ اور اثرات پر طائرانہ نظر ڈالتے ہی اس کی سطحیت اور قلیل فہمی عیاں ہوجاتی ہے۔ نصاب تعلیم میں سائنس اور عقائد کو آپس میں لڑانے کی کوشش کی گئی ہے۔

خالصتاً سائنسی مضامین میں غیر سائنسی تاویلات ڈالنے کی پالیسی علمی توازن برقرار نہیں رکھتی بلکہ اس توازن میں بگاڑ پیدا کر سکتی ہے۔ اس لیے نظام تعلیم ہی نہیں بلکہ نصاب تعلیمی میں غیرمعمولی تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے۔

وقت آگیا ہے کہ پرائمری سے لے کر یونیورسٹی تک یکساں نصاب تعلیم لاگو کیا جائے، سرکاری اور نجی دونوں قسم کے تعلیمی اداروں میں ایک ہی نصاب پڑھانے کی قانونی پابندی ہونی چاہیے۔

یکساں تعلیمی نظام اور نصاب کا فائدہ یہ ہے کہ نجی اسکولوں میں پڑھنے والا امیر کا بچہ اور سرکاری اسکولز میں پڑھنے والا غریب کا بچہ ایک جیسی کتاب پڑھے گا۔ مہنگے نجی اسکولز کی انتظامیہ اور مالکان طلباء کو پڑھائی کااچھاماحول دیتے ہیں۔

ان اسکولز کے کلاس رومزمیں طلبہ کی تعداد زیادہ نہیں رکھی جاتی، سیٹنگ ارینجمنٹ بہترین ہوتا ہے، واش رومز صاف ستھرے ہوتے ہیں، گرمی میں پنکھے اور اے سی کی سہولت ہوتی ہے جب کہ ٹھنڈے پانی کی سہولت میسر ہوتی ہے، کینٹنز کا معیار اچھا ہوتا ہے جب کہ سرکاری اسکولز میں یہ سہولیات موجود نہیں ہیں،مگر یکساں نصاب اس طبقاتی تفاوت کو کم کرسکتا ہے ۔

آج ہمارے ملک کے طبقاتی معاشرے میں کم سے کم چھ طبقاتی نظامِ تعلیم رائج ہیں۔ گاؤں دیہات میں کسی پیڑ کے سائے یا کسی کچی کوٹھری کے فرش پر ٹاٹ یا چٹائی پر بیٹھے معصوم بچے ہیں جن کے ہاتھوں میں لکڑی کی تختیاں اور قلم دوات ہیں،کہیں اسکول کی عمارت ہی ناپید ہوتی ہے۔

کہیں اساتذہ کی کمی ہے، نجی شعبے میں ایسے اسکولز کی تعداد زیادہ ہے جو چار پانچ مرلے کے گھروں میں قائم ہیں، یہاں اساتذہ غیر تربیت یافتہ ہیں، جنھیں چند ہزار روپے ماہانہ تنخواہ دی جاتی ہے۔ وہ غریب لوگ جو اپنے بچوں کو اپنے تیئن تعلیم یافتہ بنانا چاہتے ہیں، وہ سرکاری اسکولوں کی جگہ اپنے بچوں کو یہاں بھیج کر مطمئن ہوجاتے ہیں۔

امیر تاجروں، اعلیٰ سرکاری افسروں اور زمینداروں کے بچوں کے لیے مہنگے اسکولز ہیں۔ یہاں کا نظام تعلیم اور نصاب تعلیم ترقی یافتہ مغربی ملکوں سے مستعار لیا گیا ہے۔ کچھ اسکول تو اتنے مقبول ہوتے ہیں کہ ان میں داخلہ حاصل کرنا معاشرتی فخر کی علامت ہوتا ہے۔

ڈپلومیٹس اور اعلیٰ ترین سرکاری عہدیداران کے بچے بھی یہاں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ یہاں کی دنیا ہی الگ ہے۔ یہاں صرف وہ ہی بچے پڑھتے ہیں، جن کے والدین ان کی اعلیٰ تعلیم، آسٹریلیا، امریکا، کینیڈا یا برطانیہ میں کرانا چاہتے ہیں۔

طبقاتی نظامِ تعلیم کی سب سے بڑی نحوست یہ ہے کہ یہ معاشرے میں اجتماعیت کے بجائے انفرادیت کو فروغ دیتی ہے، طبقاتی تعلیمی نظام سے فارغ شدہ نوجوان صرف اپنی ذاتی بہتری اور ترقی کے لیے ہی کوشاں ہوتے ہیں، ان میں معاشرتی اجتماعیت کا فقدان ہوتا ہے۔

دیسی کلچر ان کے لیے پسماندگی کی علامت بن جاتا ہے۔ انٹر اور میٹرک تعلیمی بورڈز کی کتب اور نصاب کا جائزہ لیں تو پچھلے کئی سالوں سے نجی اسکولوں اور کالجوں کی ہی ٹاپ پوزیشنز آرہی ہیں اور ان اداروں کا کاروبار مزید چمکتا ہے۔ تقریباً ہر دوسرے شہر میں دو تین ہی نجی اسکول و کالج ہیں جن کی ہر سال باری باری بورڈز میں پوزیشن آتی ہے۔

اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ایک غریب طالب علم اپنی تمام تر محنت کے باوجود بھی اس بوسیدہ معیار کی تعلیم تک رسائی حاصل نہیں کر سکتا کیونکہ اس کے لیے اسے نجی اسکول یا کالج میں داخلے کی ضرورت ہوگی جس کی فیس وہ افورڈ نہیں کر سکتا۔

اس سے واضح ہوتا ہے کہ تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے والا معیاری تعلیمی نظام محض امیر طبقے کی اولادوں کے لیے ہے جو کہ غریبوں سے لوٹی ہوئی دولت سے اپنی تجوریاں بھر کے اپنے بچوں کے لیے معیاری تعلیم سمیت زندگی کی ہر آسائش خرید سکتے ہیں۔ دوسری طرف ایک غریب طالبعلم کے لیے غیر معیاری تعلیمی نظام میں بھی آگے بڑھنا ممکن نہیں رہا۔

وطن عزیز میں دینی و عصری تعلیم سے تعلق رکھنے والے حضرات کے مابین بہت زیادہ دوریاں پائی جاتی ہیں۔ دینی تعلیم حاصل کرنے والے عصری تعلیم سے منسلک افراد کو سیکولر و ملحد سمجھتے ہیں اور عصری تعلیم یافتہ طبقہ دینی طبقے کو قدامت پسند سمجھتا ہے۔

یہ دوریاں و غلط فہمیاں بھی معاشرے کے لیے ناسور ہیں، جنھیں مٹانا بے حد ضروری ہے۔ نئے تعلیمی نظام کا تجربہ کیا جائے اور دینی و عصری تعلیم ایک ہی ادارے میں دی جائے۔ اس طرح دونوں طبقات ایک دوسرے کے قریب ہوجائیں گے اور ان کی ایک دوسرے کے بارے میں غلط فہمیاں بھی مٹ جائیں گی۔

ہمارے موجودہ نظام تعلیم کا واحد مقصد ڈگری اور بعد ازاں نوکری کا حصول ہے۔ امتحانی نظام تعلیم جو برصغیر میں انگریزوں کے وقت رائج تھا،آج بھی وہی چل رہا ہے۔ یہ نظام طلباء کی ذہانت پرکھنے اور ان کی صلاحیتیں اجاگر کرنے کے بجائے انھیں رٹو طوطے بننے پہ مجبور کرتا ہے۔

اگر اب بھی حکمرانوں کو ہوش نہ آیا تو انھوں نے تعلیمی نظام میں اصلاحات نہ کیں تو عین ممکن ہے کہ 2050 میں پاکستان میں ناخواندہ افراد کی تعداد13کروڑ تک جا پہنچے۔ قابل ذکر بات تو یہ ہے کہ جس ملک کی تقریباً نصف آبادی اَن پڑھ یعنی اخبار تک نہ پڑھ سکے وہ اپنے آپ کو ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں کیونکر شامل کرسکے گا۔

آئین پاکستان حکومت ِوقت کو اس بات کا پابند بناتا ہے کہ ہر بچے کو تعلیم کے یکساں مواقع فراہم کیے جائیں۔ آج کے ترقی یافتہ دور میں تعلیم کی افادیت و اہمیت سے کسی صورت انکار نہیں کیا جا سکتا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی اداروں کی ترجیحات کے مطابق تعلیمی سرگرمیوں کو فروغ دینے بالخصوص تمام بچوں کو ان کا تعلیمی حق دلوانے کو یقینی بنانے کے لیے حکومت کو کم از کم تعلیمی پالیسیوں کو تسلسل دلوانا چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں