الفاظ کا سفرنامہ…کر اور چر
ایک’’کر‘‘اور دوسرا ’’چر۔‘‘ ’’کر‘‘کا مطلب ہے ’’بونا‘‘ اور’’چر‘‘کا مطلب ہے چرنا۔ان دونوں الفاظ کی بنیاد ’’صوتی‘‘ہے
دنیا میں تمام انسانی سرگرمیوں کو اگر جمع کیا جائے تو اس سے دو لفظ یا دو کام بنتے ہیں۔کرنااور چلنا۔یعنی انسان کچھ بھی کرے، وہ یا تو ''کرنا''ہوتا ہے یا ''چلنا۔''اس لیے آج ہم انھی دو لفظوں یا کاموں یا انسانی روزگاروں پر بات کریں گے۔
ہمارا موضوع مذاہب یا عقائد نہیں ہے بلکہ زبانیں اور الفاظ ہیں۔ ہم اس وقت کی بات کررہے ہیں جب دنیا جنت کہلاتی تھی ۔جب زمین پر انسان کم تھے، ہر قسم کی خوراک وافر تھی ، انسانوں کو اپنا پیٹ بھرنے کے لے کوئی محنت نہیں کرنا پڑتی تھی جہاں چاہتا، جیسا چاہتا، ہاتھ بڑھا کر حاصل کرلیتا تھا، پیٹ بھر لیتا اور پھر جہاں چاہتا پڑا رہتا۔نہ خوراک کے لیے بھاگ دوڑ نہ چھین جھپٹ، نہ کوئی پریشانی نہ جنگ وجدل۔
بہشت آں جا کہ آزارے نہ باشد
کسے را کسے کارے نہ باشد
پھرکچھ ارضیاتی تبدیلیوں اور کچھ جغرافیائی عوامل کی وجہ سے خوراک کم پڑنے لگے جہاں جہاں پھلوں سے لدے ہوئے باغ تھے،ان میں سے کچھ کچھ برفستانوں اور کچھ ریگستانوں نے نگل لیے، انسان بھی مسلسل بڑھتے رہے چنانچہ کثرت آبادی اور قلت خوراک کا مسئلہ پیدا ہوا، تب انسانوں کے دو گروہ بن گئے۔
ایک غلہ خور یا سبزی خور جنھیں شاکا ہاری یا ویجی ٹیرینز کہا جاتا ہے جب کہ دوسرا گروہ گوشت خوروں کا بنا جسے ماساہاری یا نان ویج کہاجاتا ہے۔ پھر جب ارتقاء کی ایک اور منزل آئی تو سبزہ خور، زراعت کار بن گئے اور گوشت خور، مویشی پال ہوگئے۔
زراعت کار انسانی گروہوں نے ہموار میدانی علاقوں میں زراعت کرکے اپنی خوراک زمین سے حاصل کرنا شروع کی اور ساتھ مستقل رہائشی بستیاں بسانے لگے کیونکہ زراعت میں فصل کے انتظار کے لیے ایک مخصوص جگہ ٹھہرنا ضروری ہوتا ہے جب کہ مویشی پالنے والوں کو خانہ بدوش اور صحرائی بننا پڑتا ہے۔یہیں سے انسان کی زندگی میں دو لفظ انتہائی ضروری بن گئے۔
ایک''کر''اور دوسرا ''چر۔'' ''کر''کا مطلب ہے ''بونا'' اور''چر''کا مطلب ہے چرنا۔ان دونوں الفاظ کی بنیاد ''صوتی''ہے۔ زراعت کاروں نے دیکھا کہ ہل چلاتے ہوئے اور بیج بکھیرتے ہوئے کر،کر،کر کی آواز پیدا ہوتی ہے جب کہ جانور پالوں نے سنا کہ جانور جب چرتے ہوئے گھاس پر منہ مارتا ہے تو چر چر چر کی آواز پیدا ہوتی ہے۔یوں ایک گروہ کاکام''کر'' کہلایا اور دوسرے کا ''چر۔'' دونوں کے ان کاموں سے پھر آگے بے شمار الفاظ ساری زبانوں میں پھیل گئے ہیں۔کر سے کار،کرنا،کرانا جو اردو میں انسان کا سب سے بڑا فعل ہے۔بلکہ سارے افعال اس میں آجاتے ہیں۔
کارکن، کاروبار، کارندہ، کرتا ہوں ،کرتا ہے ،کرتے ہیں، کرتی ہے۔کرو، نہ کرو، کیا کرایا، کاروبار ، سنسکرت میں کرم،کرلو تو یہ۔ کرتوت کارے کرتا،کرتا دھرتا کر(چنگی محصول کرایہ) کرتا اور بہت سارے افعل ہیں۔
فارسی میں کار، کارے کردن، کردد کردند،کردم کردیم کارکن،کارآمد،کار پرداز،کارندہ کردگار۔اردو میں ''کام'' کے معنی کام کے ہیں۔لیکن فارسی میں ہوس لذت، ذائقہ۔اور سنسکرت میں کام دیو،محبت اور تعلق، یونانی میں ایروز، رومن کیوپڈ کی طرح کا تیرانداز دیوتا ہے۔پشتو میں کرکیلہ (زراعت) کرنہ(بونا) کروندہ گر(کسان) کرل کری کرم کرہ۔ سب کاشت سے تعلق رکھتے ہیں۔ اردو کام، کار،کارول کڑل اوکڑہ کڑی۔ انگریزی پر اس کے اثرات کارپوریشن کار سپانڈنٹ،کری ایشن کری ایٹ۔اب ''چر''کو لیتے ہیں جانور قدم قدم چلتے ہیں۔
اس لیے چرن پیروں کو ، چر سے چرنا،چراگاہ،چارہ بلکہ شاید ''چار'' یا چارپائے بھی اسی ''چر'' سے مشتق ہیں۔ چرنی ایک لبادہ سا جو سردیوں میں جانور کو پہناتے ہیں، چارہ جمع کرنے کے کپڑے،ٹاٹ یا تپڑ کو بھی چرنی کہتے ہیں۔
آگے چل کر جب (ر) کو(ل) کردیا گیا، چرن چرنے سے چلنا ہوگیا۔ چلو، چال، چلن، چالاک، چلتے ہیں، چلتا ہوں، چلتی ہے۔چلتے چلتے۔لیکن جب جانور پالخانہ بدوش تیزی سے متمدن ہوتے گئے اور انسان نے ان دو مخصوص پیشوں ''کر'' اور ''چر'' کو چھوڑ کر اور بھی بہت سارے پیشے، ہنر اور کام اختیار کرلیے تو انسانوں کی گروہی تقسیم بھی تقریباً ختم ہوگئی اور ایک مشترک اجتماعی معاشرہ وجود میں آیا تو انسانوں کے ساتھ زبانیں بھی آپس میں قریب ہوتی گئیں۔
چنانچہ اب ہم دیکھتے ہیں کار کے ساتھ چار بھی یکجا ہوگئے اور''چارہ کار''اور چل کر جیسے الفاظ بھی بن گئے اور کسی کو یاد بھی نہیں کہ کبھی کر اور چر۔یا کار اور چارہ ایک بڑی تقسیم کا مظہر بھی تھے۔ایک ضروری بات یاد آگئی،الفاظ کے سفرنامے کے دوران یہ سوال بھی اہم ہوجاتا ہے کہ ایسے الفاظ کو ہم کس زبان کا قرار دیں گے۔
یہی کر اور چر کے الفاظ لے لیجیے کہ بنیادی طور پر ان کو ہم کس زبان سے منسوب کریں گے۔اس لیے زبانوں کے بارے میں بھی قارئین کو جانکاری دینا ضروری ہے ۔موجودہ وقت میں تو تقریباً ہر زبان والوں کا دعویٰ ہے کہ ان کی زبان قدیم ترین ہے اور یہ باقی زبانیں اس سے نکلی ہیں یعنی ان کی زبان ''اُم لاسنہ'' ہے لیکن یہ سارے دعوے بے دلیل ہیں، اس بات کا پتہ ہم موجودہ جدید علوم طبعیات، ارضیات، بشریات، آثاریات اور لسانیات کی روشنی میں لگائیں گے۔