الفاظ کا سفر نامہ لک لاک لکش
پودے یا درست بونے کو بھی لک کہتے ہیں شاید گنتی کا لکھ یا لاکھ بھی اس سے مشتق ہے
علم اشتقاق یااشتقاق للغیہ۔وہ علم ہے جس میں الفاظ کی اصل معلوم کی جاتی ہے انگریزی میں اسے آئیٹمالوجی (Etymology)کہاجاتا ہے اس کے بھی وہی معنی ہیں یعنی الفاظ کے اجزائے ترکیبی کو لے کر یہ پتہ لگانا کہ ایک لفظ کس زبان کا ہے اور وہ کس کس زبان میں جاکر کن کن معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔
انگریزی میں اس علم کی ابتدا میکس مولر نے کی تھی اس کے بعد بہت سارے علماء نے اس موضوع پر کتابیں لکھیں اور انسائیکلوپیڈیا مرتب کیے۔اردو میں اس کی ابتدا مولانا حسین آزاد کی کتاب''سخندان فارس'' میں ہوئی پھر مولانا سلیمان ندوی نے عربی میں ایک کتاب لکھی''الدیل فی لد والدخیل''۔جس کا اردو ترجمہ بھی ہوا ہے لیکن اس میں عربی الفاظ کا تذکرہ ہے۔
کچھ عرصہ پہلے مشہور صحافی اے آر خالد نے اس موضوع پر کالموں کا ایک سلسلہ انگریزی اخبارات میں لکھا تھا۔ان کالموں کا مجموعہ مرتب بھی ہوا تھا لیکن شائع نہ ہوسکا البتہ اس کا اردو ترجمہ جو''شیراج راج'' شائع ہوا ہے کتاب کا نام ہے۔''لفظوں کی کہانی لفظوں کی زبانی''۔میرا ارادہ بھی ایک عرصے سے اس موضوع پر لکھنے کا رہاہے۔
اس لیے آج یہ سلسلہ ''الفاظ کا سفرنامہ''شروع کررہا ہوں اور پہلا لفظ جو میں نے اس غرض کے لیے چنا ہے۔وہ''لک'' (luck) ہے جو انگریزی میں قسمت کے لیے استعمال ہوتا ہے۔جس سے پھر ''گڈ لک'' اور بیڈ لک کے علاوہ لک لیکمے جیسے الفاظ بنتے ہیں ۔ سنسکرت میں اس لفظ سے ''لکش'' کا لفظ بنتا ہے جس کے معنی ہیں۔
مقصد،منزل، نصب العین، ہدف اور ٹارگٹ ہیں۔اور اسی سے مشہور ہندی دیوی''لکشمی''کا نام بھی ہے جو دولت،خوش نصیبی اور خوشحالی کی دیوی ہے۔لیکن اس لفظ کی اصل بنیاد مشہور بنگالی ماہر لسانیات سنتی کمار چیئر جی کے مطابق آسٹرک یا قبل دراوڑی زبانوں کی ہے۔یہ آسٹرک لوگ دراوڑوں سے بھی پہلے ہند میں موجود تھے اور انھیں ہم پہلے زراعت کار یا زراعت کی ابتدا کرنے والے خاکی آدم کہہ سکتے ہیں۔
یہ زراعت کرتے تھے اور چھوٹی چھوٹی بستیوں میں رہتے تھے ان کے بعد آنے والے درواڑ زراعت کے علاوہ اور پیشے بھی کرنے لگے تھے اور بڑے بڑے شہر بساتے تھے جن میں موئن جوڈارو، ہڑپہ،رحمان ڈیری(ڈی آئی خان) مہر گڑھ (بلوچستان)اور کالی بنگن(راجستھان) کے آثار شامل ہیں۔ابتدائی زراعت کار آسٹرک لوگوں نے زراعت کی ابتدا لکڑی کے ایک نوکدار آلے سے کی تھی، جو پنسل یا لکڑی کی''کیل'' جسیے ہوتا تھا۔
اس سے زمین میں لکیریں بنائی جاتی تھیں اور پھر اس میں تخم ریزی کی جاتی تھی نام اس آلے کا جو''ہل''کا پیشرو تھا۔لیک یا لک(lek) تھا۔یہ بتانا مشکل ہے کہ لکڑی کا نام اس ''لیک'' یا لک سے نکلا ہے یا اس لک یا لیک سے لکڑی کا لفظ ماخوذ ہے لیکن بہرحال یہ لفظ''لک'' ہی وہ ابتدائی لفظ ہے جس سے بعد میں بہت ساری زبانوں کے بہت سارے الفاظ مشتق ہیں۔
اس سے لکیریں کھینچی جاتی تھیں اس لیے ''لکیر'' کا لفظ بھی اسی مادے سے بنا ہے بعد میں جب آریائی دور چلا تو ان زبانوں میں ''ل''کی جگہ ''ر'' نے لی اور لیکھا کے ساتھ''ریکھا'' کا لفظ بھی مروج ہوا ریکھا ریکھائیں، ہاتھوں کی لکیروں کوبھی کہتے ہیں
اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں بسالے مجھ کو
میں تمہارا ہوں نصیب اپنا بنالے مجھ کو
چونکہ لکڑی کا وہ''لک'' رزق کا وسیلہ تھا اس لیے آہستہ آہستہ قسمت اور نصیب کے معنی بھی اس میں شامل ہوتے گئے۔ہاتھ کی ریکھائیں بھی قسمت سے وابستہ ہوگئیں اور ان لکیروں یا ریکھاؤں سے ایک لفظیاتی علم پامسٹری بھی نکلا۔پشتو میں یہ لفظ اب بھی ان ہی معنوں میں کثیرالاستعمال ہے۔
زراعت کو ''کرکیلہ''کہتے ہیں ''کر''کا مطلب ہے ''بونا'' لکیروں میں بونا یا تخم ریزی کے لیے لکیریں کھینچنا۔ ''ہل'' کے ساروں کو بھی''کیل'' کہتے ہیں اس کیل یا کیلہ سے پھر کلے(گاوں بستی) کے الفاظ بھی وابستہ ہوگئے، پشتو میں بستی کو کلے کہاجاتا ہے پھر اس سے کلچر،کلتور کے الفاظ نکلے۔انگریزی میں بھی کلچر، ایگری کلچر،ہارٹی کلچر،ٹشو کلچر کے الفاظ یہی لفظ کل، کلے سے بنے ہیں۔''لکھنا'' جو دراصل ''ریکھا'' کی ایک شکل بھی چونکہ لکیروں یا سطور پر مشتمل ہوتی ہے اس لیے تحریر کو بھی لکھنا یا لکھا ہوا کہا جاتا ہے۔پشتو میں ''لک'' کے معنی سیدھے کھڑے ہونے کو بھی کہتے ہیں اس لیے سیدھی کھڑی ہوئی چیز کو بھی''لک'' کہتے ہیں۔
پودے یا درست بونے کو بھی لک کہتے ہیں شاید گنتی کا لکھ یا لاکھ بھی اس سے مشتق ہے۔سیدھا کھڑا ہوا یا راونڈ فگر۔ مطلب کسی بھی ایستادہ سیدھی اور کھڑی ہوئی چیز کو ''لک'' کہتے ہیں۔میرے سامنے لک مت ہو۔اس نے میری طرف انگلیاں''لک'' کی ہیں۔ تقدیر اور قسمت بھی مستقل لکھی ہوئی چیز سمجھی جاتی ہے جس میں کوئی کمی بیشی ممکن نہیں ہوتی انگریزی لاک (تالا) بھی یہی مفہوم رکھتا ہے۔
کسی بھی چیز کو تالا لگانا یا لاک کرنا جیسے تقدیر میں ترمیم نہیں ہوتی۔مطلب یہ موجودہ کئی زبانوں میں یہ قبل دراوڑی لفظ جاری و ساری ہے۔لیکن کمال کی بات یہ ہے کہ یہ قبل دراوڑی لوگ جنھوں نے انسان کو زراعت،مدنیت اور تہذیب وثقافت دی ہے۔ آج ہند میں اچھوت ناپاک اور جانوروں سے بھی کم حیثیت کے مالک ہیں عام طور پر اچھوتوں کو ایک سمجھا جاتا ہے لیکن ان میں بھی پھر دو طبقے بنائے گئے ہیں۔
ان سے قبل دراوڑی آسٹرک لوگوں کو نہ شدھ،نمشدہ پانشاد کہا جاتا ہے نہ شدھ کے معنی ہیں جو کبھی ''شدھ'' یا پاک نہیں ہوسکتے کیونکہ یہ بیچارے زراعت کے سوا اور کچھ بھی نہیں جانتے تھے لیکن بعد میں آنے والے دراوڑوں نے اور بھی کئی پیشے اور ہنر یعنی کمائی کے ذریعے سیکھ لیے تھے۔
اس لیے ان کو ''شدھر'' (شودر) کانام دیا گیا معنی ہیں جو پاک ہوسکتے ہیں یا ہوگئے تھے۔اور ان کا سب سے بڑا قصور یہ تھا کہ جنگ جو اور خونریز نہیں تھے آپ موئن جو ڈارو، ہڑپہ، رحمان ڈھیر اور مہر گڑھ وغیرہ کے آثار میں دیکھ سکتے ہیں کہ زندگی سے متعلق سب کچھ یہاں تک کہ بچوں کے کھلونے اور آرٹ کے نمونے بھی پائے گئے ہیں لیکن ''ہتھیار'' یا اسلحہ کہیں بھی نہیں ملا ہے۔
اس لیے ''آریا''کے غلط العام نام آنے والے جنگ جو اور خونریز کشتریوں نے انھیں آسانی سے مغلوب کرکے سب کچھ چھین لیا یہاں تک کہ ان کی انسانیت بھی۔ایک اچھوت شاعر کی ایک نظم ہے
میں ناپاک ہوں اچھوت ہوں گندہ ہوں
لیکن میری کمائی ناپاک نہیں
میری عورتیں ناپاک نہیں