قاسم سوری اور شوکت صدیقی کے مقدمات
دونوں کیس میں سائل کا نقصان اور فائدہ مختلف ہے
سپریم کورٹ میں دو کیسز کی سماعت نے ہمارے نظام انصاف پر بہت سے سوالات پیدا کر دیے ہیں۔ سابق ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری عدالت کے ایک حکم امتناعی پر قومی اسمبلی کے ممبر رہ گئے۔ دوسرا جسٹس شوکت صدیقی کا کیس ان کے دوران ملازمت سماعت کے لیے مقرر نہ ہو سکا۔ بظاہر دیکھنے میں یہ دو ایک جیسے معاملات ہیں۔
دونوں صورتوں میں سپریم کورٹ میں کیس کی بروقت سماعت نہیں ہو سکی ہے۔ لیکن دونوں کیس میں سائل کا نقصان اور فائدہ مختلف ہے۔
قاسم سوری کے کیس میں انھیں کیس نہ لگنے کا فائدہ ہوا ہے۔ جب کہ شوکت صدیقی کے کیس میں انھیں کیس نہ لگنے کا نقصان ہوا ہے۔ حالانکہ دونوں کیسز میں سپریم کورٹ نے کام ایک ہی کیا ہے ۔ بس کیس سماعت کے لیے مقرر نہیں کیا ہے۔
میں سمجھتا ہوں پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے بعد سپریم کورٹ میں جہاں بنچ بنانے کے معاملات میں کافی حد تک شفافیت آئی ہے وہاں کیسز کو سماعت کے لیے مقرر کرنے کے نظام میں ابھی بھی شفافیت نہیں ہے۔
کونسا کیس کب سماعت کے لیے مقرر ہو گا یہ ابھی کسی کو کچھ معلوم نہیں ہوتا۔ ایسا کوئی نظام نہیں کہ سائلین کو معلوم ہو کہ ان کے کیس کی کب باری آئے گی۔باری آنے پر وہ کیس از خود لگ جائے۔ کوئی کیس کو لگنے سے روک نہ سکے اور کوئی بھی کیس کی اپنی مرضی سے تاریخ اور سماعت حاصل نہ کر سکے۔
ابھی تک ایسا کوئی خود کار شفاف نظام نہیں بن سکا ہے۔ ابھی تک ایسا کوئی نظام نہیں ہے کہ آپ کمپیوٹر میں کیس کی تفصیل ڈالیں اور آپ کو پتہ لگ جائے کہ آپ کا کیس کب لگ جائے گا اور اس کا فیصلہ کب تک ہو جائے گا۔ یہ سپریم کورٹ کی مرضی ہے کہ چاہے تو کیس نہ لگائے ، چاہے تو فوری لگا دے، چاہے تو جلدی فیصلہ کر دے اور چاہے تو کبھی فیصلہ نہ کرے۔
کیس لگ بھی جائے تو اس پرکارروائی کی کوئی یقین دہانی نہیں ہے۔ جج صاحب چاہیں تو بغیرسماعت، بغیر کوئی تاریخ ڈالے کیس ملتوی کر دیں۔ جج صاحب چاہیں تو سماعت کر لیں۔ جج صاحب چاہیں تو کیس ایک دن میں نبٹا دیں۔ جج صاحب چاہیں تو لمبی تاریخ ڈال دیں۔ جج صاحب چاہیں تو دوسرے دن کے لیے دوبارہ کیس رکھ لیں۔
جج صاحب چاہیں تو کیس سنتے ہی جائیں۔ کسی کو یقین نہیں ہوتا کہ اگر اللہ اللہ کر کے آج کیس لگ بھی گیا ہے تو کیا آج کوئی کارروائی ہو بھی جائے گی؟ کتنی کارروائی ہو جائے گی؟ اس لیے ابھی نظام انصاف میں ان گنت ایسے سوالات ہیں جن کا کسی کے پاس کوئی جواب نہیں۔ بس سب اللہ کے سہارے ہی چل رہا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ جب آپ کیس دائر کریں تو آپ کو پتہ لگ جانا چاہیے کہ آپ کے کیس کی باری کب آئے گی۔ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ بس آپ نے دائر کر دیا ہے آپ گھر جائیں ۔ جب لگے گا بتا دیںگے۔ رات کو پتہ چلتا ہے کہ صبح کیس لگ گیا ہے۔ چلیں اسلام آباد بھاگ جائیں۔ جب کیس پر نمبر لگتا ہے تو کیس کی سماعت کی باری اور تاریخ بھی ملنی چاہیے۔
یہ کونسا بڑا معاملہ ہے۔ پھر جب آپ کے کیس کی باری آجائے تو پھر کیس ملتوی نہیں ہونا چاہیے۔ چاہے روز سماعت کی جائے لیکن کیس کا فیصلہ ہو جانا چاہیے۔
پہلے کئی سال بعد باری آتی ہے پھر کئی سال کے لیے ملتوی ہوجاتا ہے۔ وکلا کو تیاری کے لیے تاریخ نہیں ملنی چاہیے۔ تیاری ہے یا نہیں۔ جب کیس سماعت کے لیے مقرر ہوگیا تو پھر اس بنیاد پر تاریخ نہیں دی جانی چاہیے کہ وکیل صاحب مصروف ہیں۔ وکیل صاحب کی تیاری نہیں ہے۔ انھیں تیاری کر کے آنا ہے۔ تیاری نہیں ہے تو گھر جائیں۔
قاسم سوری کے کیس میں ایک اور اہم بات ایسی ہوئی جس نے بہت سے سوالات پیدا کیے ہیں۔ سپریم کورٹ نے دوران سماعت قاسم سوری کی جانب سے ملک کا آئین توڑنے کے حوالے سے سوال کیا۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی فوجداری مقدمات پربہت توجہ تھی۔ وہ فوجداری مقدمات کے ماہر تھے۔
میں ان کے دور میں ہونے والے جیوڈیشل ایکٹوازم کا کوئی بہت حامی نہیں ہوں بلکہ میں اسے عدلیہ کا ایک سیاہ باب سمجھتا ہوں۔ لیکن انھوں نے فوجداری مقدمات کی سماعت کے دوران جعلی بوگس اور جھوٹی گواہیوں پر بہت بات بھی کی اور فیصلے بھی دیے۔
لیکن ان کا موقف بھی یہی تھا کہ جب عدالت میں یہ ثابت ہو جائے کہ گواہ نے جھوٹی اور بوگس گواہی دی ہے تو اس کے خلاف جھوٹی گواہی کا مقدمہ الگ سے چلایا جائے۔ میں نے تب بھی عرض کی تھی کہ جب عدالت یہ قرار دے رہی ہے کہ گواہی جھوٹی تھی تو ساتھ سزا کیوں نہیں دے رہی۔
یہ کیوں کہا جا رہا ہے کہ جس کے خلاف جھوٹی گواہی دی گئی ہے وہ الگ سے دوبارہ مقدمہ دائر کرے اور جھوٹی گواہی دینے والے کو سزا دلوائے۔ کون دوبارہ مقدمہ کرے، سالوں دھکے کھائے۔ وہ بری ہو کر اللہ کا شکر نہ ادا کرے اور گھر نہ جائے اور ہم نے دیکھا کہ جھوٹی گواہی پر کوئی مقدمہ نہیں ہوا۔ لوگ مقدمہ بازی سے جان چھڑاتے ہیں۔ اس سے دور رہنا چاہتے ہیں۔
عدالت نے حصول انصاف کو آسان بنانا ہے۔ اس کو مشکل سے مشکل بنانا دراصل انصاف کی نفی ہے۔ قاسم سوری کی بھی مثال یہی ہے ۔
جب سپریم کورٹ نے یہ قرار دے دیا تھا کہ قاسم سوری نے تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ روک کر آئین توڑا ہے۔ جب یہ قرار دے دیا گیا تھا کہ ملک کا آئین ٹوٹ گیا ہے تو ساتھ ہی سزا کیوں نہیں دی گئی۔ اسے نا مکمل انصاف کہتے ہیں۔
جب آپ اس نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں کہ یہ غلط ہے تو ساتھ غلطی کی سزا کیوں نہیں دیتے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ جب کوئی مجھ پر جھوٹا مقدمہ درج کرواتا ہے۔ میں عدالت میں انصاف کے لیے جاتا ہوں۔ ایک لمبی قانونی لڑائی کے بعد یہ طے ہوجاتا ہے کہ مجھ پر درج مقدمہ جھوٹا ہے۔ مجھے با عزت بری کر دیا جاتا ہے۔
میرے خلاف مقدمہ خارج کر دیا جاتا ہے۔ لیکن جھوٹا مقدمہ درج کروانے والے کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔ بلکہ مجھے کہا جاتا ہے کہ اگر میں اس کے خلاف چاہتا ہوں تو الگ مقدمہ دائر کردوں۔ پھر ایک لمبی لڑائی شروع کر دوں۔ اس لیے یہ صر ف قاسم سوری کے کیس میں نہیں، عدلیہ کا عمومی رویہ ایسا ہی ہے۔
شوکت صدیقی کا کیس بروقت نہ لگا کر انھیں ریٹائر کر دیا گیا۔ آج ان کا گزارا وقت واپس نہیں آسکتا۔ انھوں نے جس جنر ل فیض پر الزام لگایا تھا وہ بھی اپنی نوکری پوری کر کے ریٹائر ہو گئے۔ اب ان کے خلاف کارروائی بھی بے معنی ہے۔اسی لیے کہتے ہیں کہ انصاف میں تاخیر دراصل انصاف سے انکار ہے۔ قاسم سوری کے مقابلے میں لشکر رئیسانی نے کیس کیا تھا کہ وہ الیکشن جیتے ہیں۔
ہائی کورٹ تک یہ طے ہو گیا کہ قاسم سوری ہارے ہیں، پھر سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف حکم امتناعی جاری کر دیا اور وہ حکم امتناعی قومی اسمبلی کی مدت تک چلتا رہا۔ آج قاسم سوری خود کہہ رہے ہیں کہ انھیں اب مزید اس حکم امتناعی کی ضرورت نہیں۔ لشکر رئیسانی جیت کر بھی ہمارے نظام انصاف کی وجہ سے ہارگئے۔
قاسم سوری ہار کر بھی جیت گئے۔ یہی ہمارے نظام انصاف کی اصل تصویر ہے۔ لیکن ہم اس تصویر کو ٹھیک کرنے کے لیے تیار نہیں۔ یہی بات زیادہ افسوسناک ہے۔آج ان مقدمات کا کچھ بھی فیصلہ ہو جائے انصاف نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ دیر ہو گئی ہے۔ قاسم سوری کو ہارا ہوا قرار بھی دے دیں تو کوئی معنی نہیں۔ شوکت صدیقی کو بحال بھی کر دیں تو کوئی معنی نہیں۔