سیاسی اصلاحات کا ایجنڈا ناگزیر ہے
سیاسی نظام کی خود مختاری اور شفافیت بنیادی مسئلہ ہے
سیاسی اور جمہوری نظام کی مضبوطی اور شفافیت کا عمل تسلسل کے ساتھ اصلاحات کے نظام سے جڑا ہوتا ہے۔ سیاسی جماعتیں اور سیاستدان وقت اور حالات کو بنیاد بنا کر نئے طور طریقے اختیار کرکے سیاسی نظام کو مضبوط بنیادیں فراہم کرتے ہیں ۔
اسی بنیاد پر سیاسی و جمہوری نظام اپنی ساکھ بھی قائم کرتا ہے اور نظام کو کامیابی سے بھی چلایا جاتا ہے ۔ لوگ ایسے نظام کے ساتھ اپنے باہمی تعلق کو مضبوط بناتے ہیں ۔لیکن ہم نے سیاسی و جمہوری نظام میں اصلاحات کو کبھی اپنی ترجیحات کا حصہ نہیں بنایا ۔یہ ہی وجہ ہے کہ جمہوری نظام کی سطح پر داخلی یا خارجی چیلنجز بدستور موجود ہیں اور ہم اپنی اصلاح کرنے کی بجائے اس میں تسلسل کے ساتھ بگاڑ پیدا کررہے ہیں۔
پاکستان کا جمہوری مستقبل جہاں سیاسی استحکام کے ساتھ جڑا ہوا ہے وہیں اسے معاشی استحکام ، منصفانہ اور شفاف انتخابی نظام کو یقینی بنانا ، اقتدار کی منتقلی کا منصفانہ نظام یا شراکت اقتدار کا مضبوط فارمولہ ادارہ جاتی مضبوطی کے ساتھ جڑا ہوا ہے ۔
یہ ہی نظام ایک طرف عام آدمی کی زندگیوں میں خوشحالی پیدا کرنے کا سبب بن سکتا ہے تو دوسری طرف ریاست اور شہریوں کے تعلقات میں توازن پیدا کرسکتا ہے ۔
یہ سب کچھ اسی صورت میں ممکن ہوسکتا ہے جب ہم اصلاحات کو اپنی سیاسی ترجیحات کا حصہ بنائیں اور ایسی ترجیحات کو حصہ بنایاجائے جو تمام طبقات کے مسائل کے حل میں کلیدی کردار ادا کرسکے ۔ اسی طرح اصلاحات کا عمل کسی بھی طور پر سیاسی تنہائی میں نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس کے لیے سیاسی و جمہوری طور طریقے اور مشاورت کی بنیاد پر ہونا چاہیے ۔
سیاسی نظام کی خود مختاری اور شفافیت بنیادی مسئلہ ہے ۔ سیاسی نظام کو تسلسل کے ساتھ چلنے دینا ، اپنے فیصلے کرنے میں آزادی،عوام کو مرضی کی بنیاد پر حکومت بنانے کا اختیار، سیاسی جماعتوں کو مضبوط کرنے کی پالیسی ہی ایک مضبوط اور مربوط سیاسی نظام کی ضامن بن سکتی ہے ۔روایتی یا پرانے خیالات پر مبنی سیاست کو چھوڑ کر جدیدیت کی بنیاد پر تبدیلیوں کا ہونا ناگزیر ہوتا ہے اور اس کو بنیاد بنا کر آگے کا راستہ تلاش کرنے میں ہی موثر سیاسی حکمت عملی پنہاں ہے ۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس )پائیڈ(ایک معروف علمی و فکری ادارہ ہے جہاں تحقیقات کی بنیاد پر اپنا مقدمہ پیش کرکے بحث کے عمل کو آگے بڑھایا جاتا ہے ۔حال ہی میں اس نے ملک میں سیاسی اصلاحات کے تناظر میں چند بنیادی نکات پیش کیے ہیں ۔
جو کافی اہمیت کے حامل بھی ہیں اور ایک بحث کا تقاضہ بھی کرتے ہیں ۔ ان کے بقول پارلیمنٹ کی مدت چار برس کی ہونی چاہیے اور وزارت عظمیٰ کے لیے دوبار کی شرط عائد ہونی چاہیے ۔اسی طرح ان کے بقول پارلیمنٹ میں خاندان کے افراد کی حد مقررکی جانی چاہیے تاکہ سیاسی جماعتیں خاندانی سیاست سے باہر نکل سکیں۔
ترقیاتی فنڈز پارلیمنٹ ایکٹ کے تحت استعمال ہونے چاہیے اور کابینہ کی تعداد 25سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے ۔سینیٹ انتخابات کو براہ راست کروانا ، مخصوص نشستوں کا خاتمہ ، نگران حکومت کے مقابلے میں آزاد الیکشن کمیشن کی تجویز بھی دی گئی ہے ۔
یقینی طور پر یہ تجاویز ایک نئی بحث کو پیدا کرنے اور اس کی بنیاد پر اسے حتمی شکل دینے میں معاون ثابت ہو سکتی ہیں۔لیکن یہاں مسئلہ محض ایک دو یا چند اصلاحات تک ممکن نہیں بلکہ بنیادی مسئلہ پورے سیاسی اور جمہوری نظام کی آئینی ، قانونی ، سیاسی ، جمہوری بنیادوں پر موجود فریم ورک میں رہتے ہوئے ایک بڑی تبدیلی سے جڑا ہوا ہے۔
ہمارا سیاسی نظام بہت سی تبدیلیاں چاہتا ہے اور اس عمل کو کسی یکطرفہ کارروائی کی بجائے ایک بڑی بحث اور اتفاق رائے کی بنیاد پر آگے بڑھنا چاہیے ۔سیاسی جماعتوں کا داخلی جمہوری نظام جن میں داخلی انتخابات کا نظام بھی شامل ہے بڑی تبدیلی چاہتا ہے ۔ داخلی انتخابات کے معاملے میں بیشتر بڑی اور چھوٹی جماعتوں میں خرابیاں موجود ہیں۔
اسی طرح ایک بڑا مسئلہ گورننس کے نظام کا ہے ۔ مرکزیت پر مبنی نظام حکومت موثر نہیں اور ہمیں عدم مرکزیت پر مبنی نظام درکار ہے اور اس کی بنیاد ایک مضبوط ، مربوط اور خود مختارمقامی حکومتوں کے نظام کے بغیر ممکن نہیں ۔ سیاسی جماعتوں نے مقامی حکومتوں کے نظام سے ہمیشہ انحراف کیا یا اسے کمزور کیا یا اس میں تعطل پیدا کیا۔
یہ ہی وجہ ہے کہ اس ملک کے بیشترمسائل میں ایک بڑا مسئلہ شفاف حکمرانی کے نظام کی عدم موجودگی ہے ۔سیاسی جماعتوں کے پاس کوئی بھی مضبوط خاکہ مقامی حکومتوں کے نظام کی صورت میں نہیں ہے۔
یہ عمل ملک میں قومی سطح پر ایک بڑی آئینی ترمیم اور آئین میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیوں یا آئینی پیکیج کا تقاضہ کرتا ہے ۔ اس عمل میں بھارت کے تجربے سے سبق سیکھنا ہوگا جہاں ان کے آئین میں مقامی حکومتوں کے نظام کو ایک مکمل باب کے طور پر پیش کیا گیا ہے اور اسی طرز کی کوشش یہاں بھی ہونی چاہیے۔
اسی طرح قومی ، صوبائی اور مقامی حکومتوں کے نظام کی سیاسی مدت ایک ہی ہونی چاہیے ۔ اس کے لیے یا تو قومی یا صوبائی اسمبلیوں کے ساتھ ہی مقامی حکومتوں کا انتخاب ہونا چاہیے یا ہر صوبائی اسمبلی پابند ہو کہ وہ اسمبلی کی مدت شروع ہونے کے 120دن کے اندر مقامی حکومتوں کے انتخابات کروانا لازمی ہواور ترقیاتی فنڈز قومی و صوبائی اسمبلیوں کی بجائے مقامی حکومتوں تک ہی محدود ہونا چاہیے۔
عورتوں، اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کو ختم کرنے کی بجائے ان میں اصلاحات کرنی چاہیے اور ان مخصوص نشستوں پر بھی براہ راست انتخابات ہونے چاہیے اور ان کے لیے حلقوں کو مختص کیا جاسکتا ہے۔