الیکشن اور معاشی پہیہ
معیشت کی رگوں میں کھربوں روپے بہ شکل اخراجات داخل ہو چکے ہوں گے
17 ہزار 816 امیدوار میدان میں اتر چکے ہیں، میدان کی سج دھج بتا رہی ہے کہ 8 فروری کو اچھا خاصا مقابلہ دیکھنے کو ملے گا۔
کئی جماعتوں کے ساتھ آزاد امیدواروں کی اکثریت انتخابی میدان میں اپنی زور آزمائی کے لیے انتظار کی گھڑیاں اب گن رہے ہیں اور یہ اکثریت 65 فی صد کا حجم گھیر کر 11 ہزار کی تعداد کے ساتھ جم کر کھڑی ہے۔
یہ تقریباً 18 ہزار امیدوار ہوں گے۔ ان کے لیے بہت سے دفاتر کھولے جا چکے ہیں، کرایوں پر دکانوں مکانوں میں ڈیرے انتخابی دفاتر حاصل کرکے ان میں کرسی، میز، شامیانے، کاغذ، پین کے علاوہ کھانے کے اوقات میں دیگوں، روٹیوں بھری ٹوکریوں، طرح طرح کے کھانوں، بریانی، قورمہ، پلاؤ، نان، تافتان، چائے وغیرہ سے ووٹروں، سپورٹروں، حمایت کرنے والوں، امیدوار کے حق میں تقریر کرنے والے مقررین کی خاطر تواضح خوب کی جا رہی ہے۔
مقررین سے یاد آیا۔ 1985 کا انتخاب جوکہ غیر جماعتی بنیاد پر ہوا تھا لہٰذا وہاں بھی کہیں جماعت کے بغیر اور کہیں ان کی حمایت (مخفی) کے ساتھ امیدوار اپنے حق میں تقاریر کے لیے مقررین کو اپنی کارنر میٹنگز، جلسے جلوس، ریلیوں میں مدعو کر رہے تھے۔
ایسی ہی ایک کارنر میٹنگ یا چھوٹے پیمانے پر جلسے میں راقم بھی موجود تھا، مقررین کا تانتا بندھا ہوا تھا۔ لہٰذا مذکورہ امیدوار جسے اپنے بارے میں یقین تھا کہ وہ رکن اسمبلی بن کر وزیر بھی مقرر ہو جائے گا اس امیدوار کے حق میں مقررین زمین و آسمان کے قلابے ملا رہے تھے کہ ایک مقرر نے اپنی دھواں دھار تقریر میں بیان کیا کہ ہمارے امیدوار اگر قرون وسطیٰ میں ہوتے تو اس وقت کے میر جعفر ہوتے اور اس پر خوب تالیاں بجائی گئیں۔
پھر مزید فرمایا کہ اس وقت کے میر صادق ہوتے۔ بھرپور تالیاں، چٹائی گراؤنڈ تالیوں اور امیدوار کے حق میں نعروں سے گونج رہا تھا۔ چند اقلیتی افراد جو کہ تالیاں نہیں بجا رہے تھے اکثریت انھیں گھور کر دیکھ رہی تھی۔ وہ شاید انھیں جمہوریت دشمن سمجھ رہے تھے کیوں کہ جمہوریت کا مطلب اکثریت کا فیصلہ ہوتا ہے۔
بہرحال اس جمہوریت کے نتیجے میں اگر معیشت کی کوئی کل سیدھی ہوتی ہے تو کیا کہنے۔ کیونکہ ہماری معیشت کی خود کوئی کل ہی سیدھی نہیں ہے لیکن 8فروری تک معیشت کے لیے، غریبوں کے لیے، لوگوں کی آمدن بہ طور دفاتر کے کرایوں کی مد میں آمدنی، ڈیکوریشن والوں کی چاندی، پکوان والوں کی پانچوں انگلیاں گھی میں۔ امیدواروں کے لیے نعرہ لگانے والوں سے لیے چائے پانی۔
ان کے لیے کام کرنے والے مزدوروں کی خوب دیہاڑی، ڈھول باجے والوں کی شہنائی، بہت سے افراد بچے بوڑھے جوان اور کہیں بچیاں اور خواتین تک جو غریب غربا ہیں وہ عام دنوں میں غذائی قلت کا شکار رہتے تھے اب انھیں خوب مفتا توڑنے کا موقعہ مل رہا ہے اور معیشت بھی شاداں و فرحاں ہے کہ بند تجوریوں کے منہ کھولے جا رہے ہیں۔
الیکشن کمیشن کی طرف سے اخراجات کی حد مقرر ہے۔ اگر تمام امیدوار اس حد کے اندر رہتے ہوئے بھی اخراجات کرتے ہیں تو بھی معیشت کے محور میں اربوں روپے شامل ہو کر معاشی پہیے کو مثبت انداز میں گھما رہی ہے۔ نظر آرہا ہے، خوب چھوٹے بڑے بینر لگ رہے ہیں، بڑی بڑی سڑکیں، شاہراہیں امیدواروں کے تعارف سے سجائی جا رہی ہیں۔
چھوٹے بڑے بینرز میں امیدواروں کی تصاویر، نام، ان کا انتخابی نشان، لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کر رہا ہے، جب گلستان جوہر بلاک دس کے انتخابی حلقے کا جائزہ لے رہا تھا تو دیکھا کہ ایک امیدوار جس کا انتخابی نشان مور ہے، ہر چھوٹی بڑی گلی میں مور کے نشان کے بینر کو آویزاں کر دیا گیا تھا۔ جسے بچے جوان بوڑھے بڑی دلچسپی سے دیکھ رہے تھے۔
بعض نشان بہت پھیکے انداز میں اور بعض بڑے ہی نمایاں طریقے سے بینرز پر نمایاں تھے۔ اسی طرح پینافلیکس والوں کا کاروبار پرنٹنگ پریس والوں کا کاروبار، بجلی والوں کا کاروبار، پانی فراہم کرنے کی خاطر کہیں کہیں ٹینکروں کو بھی منہ مانگے دام دیے جا رہے ہیں۔
اس طرح کی معاشی سرگرمیوں سے ہر الیکشن کے نتیجے میں جیتنے والوں کو تو خوب فائدہ ہوتا ہے لیکن معیشت اور عوام کا بھی بھلا ہو ہی جاتا ہے۔ اس مرتبہ عوام کی اکثریت کا یہ سوال اور امید کہ معیشت میں بہتری آئے گی، کاروبار، روزگار بڑھے گا، انتخابات کے نتیجے میں معاشی استحکام آئے گا۔
اب ذرا ملاحظہ فرمائیں 18 ہزار امیدوار جن کے لیے لاکھوں دفاتر پھر ان کے کرایوں کی مد میں مالکان کی آمدن، جیساکہ اوپر بتایا گیا کہ مزدور، باورچی، الیکٹریشن، ڈیکوریشن والے پھر دیگ پکوانے کے لیے آٹا، چاول، چینی، گھی، مسالہ جات، گوشت، مرغی اور بہت سی اشیا کی خریداری پر خوب اخراجات ہوں گے جس کا فائدہ کہیں کریانے والے کو کہیں گوشت والے قصائی کو، کہیں نائی کو جو امیدوار کے بال کاٹ کر اسے جتنا سنوارے گا اتنا ہی انعام پائے گا۔
اب انتخابات کا کیا نتیجہ برآمد ہوگا اس کے بارے میں بھی بہت سے لوگ تشویش میں مبتلا ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ آزاد امیدوار زیادہ تعداد میں جیت کر آئیں، کیوں کہ اس سے قبل آزاد امیدوار نہایت ہی قلیل تعداد میں جیت کر آتے تھے۔
1985 کے انتخابات غیر جماعتی انتخابات تو ہوئے لیکن جب قومی اسمبلی کے اسپیکر کا انتخاب ہونے لگا تو اس وقت کی حکومت جس شخص کی حامی تھی اس کے بجائے فخر امام کو اسپیکر قومی اسمبلی چن لیا گیا تھا۔ اب 8 فروری کے بعد چند روز میں تمام صورت حال واضح ہو جائے گی۔ جو بھی نتیجہ ہو اصل نتیجہ یہ ہونا چاہیے کہ معاشی استحکام پیدا ہو جائے۔
لوگوں کا کاروبار چلنے لگے، مزدوروں کو روزگار ملنے لگے، مہنگائی کو لگام ڈالا جانے لگے، آئی ایم ایف کو بھی ایسا محسوس ہونے لگے کہ اب اپنی شرائط مسلط نہیں کر سکتے ایسی حکومت آئے جو آئی ایم ایف کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرے۔ نئی حکومت اخراجات کو کم سے کم کرنے کا عملی اقدام اٹھائے۔
یہ بات تو وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ الیکشن تک اور اس کے بعد چند دنوں تک یعنی جب تک جیتنے والوں کا جشن جاری رہے گا ان کے ڈیرے کھانے پینے کی محفلوں سے آباد رہیں گے۔ تب تک معیشت کی رگوں میں کھربوں روپے بہ شکل اخراجات داخل ہو چکے ہوں گے جس کے مثبت اثرات اس طرح ظاہر ہوں گے کہ معاشی پہیہ قدرے حرکت میں آجائے گا اور اللہ تعالیٰ اس حرکت میں برکت ڈالے۔( آمین)