سفید پوش بھی انصاف کے منتظر ہیں
آج بھی ہمارے ملک میں سب سے زیادہ انصاف کے حصول کے لیے پریشانی مڈل کلاس یا سفید پوش طبقہ کو ہے
ہمارے ملک میں انصاف صرف طاقتوروں کو ملتا ہے اور اگر ان کو نہ ملے تو بڑی عجیب بات ہے کہ اس پر سب ہی مل کر شور مچاتے ہیں کہ انھیں انصاف کیوں نہیں مل رہا؟
جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں آج کل سابق وزیر اعظم اور وزیروں کو انصاف نہ ملنے کی دہائی دی جا رہی ہے مگر افسوس کا مقام ہے کہ ایک عام آدمی کو انصاف نہیں ملتا تو کوئی اس پر توجہ بھی نہیں دیتا نہ آواز بلند کرتا ہے۔
آج بھی ہمارے ملک میں سب سے زیادہ انصاف کے حصول کے لیے پریشانی مڈل کلاس یا سفید پوش طبقہ کو ہے۔ ایسی ہی ایک کہانی ان سفید پوشوں کی ہے جو کراچی میں 1965 سے اپنے پلاٹ پر اپنا گھر بنانے کا خواب دیکھ رہے ہیں لیکن تمام تر قانونی کارروائی پوری کر کے آج بھی وہ اپنے سیاسی حق سے محروم ہیں۔
ان سفید پوش لوگوں میں معروف شاعر اور پروفیسر سبط جعفر زیدی (جنھیں کافی عرصہ قبل قتل کر دیا گیا تھا)، شوکت حمید صدیقی، ڈاکٹر ایم ایچ ظفر، سید ظفر حسین زیدی اور ڈاکٹر پیر زادہ قاسم وغیرہ جیسے معروف لوگ بھی شامل ہیں۔ ڈاکٹر پیرزادہ قاسم نہ صرف معروف شاعر و دانشور ہیں بلکہ یہ شیخ الجامعہ کراچی بھی رہے ہیں۔
ان جیسے اورکئی سفید پوشوں نے 1965 میں ایک سوسائٹی رجسٹر کروائی اور 1978 میں حکومت سندھ کی جانب سے گلزار ہجری کراچی میں 25 ایکڑ زمین حاصل کی۔ 1985 میں زمین کا قبضہ سوسائٹی کو مل گیا اور اس کے ممبر خوش تھے کہ انھوں نے جو پلاٹ بک کروایا ہے وہ جلد ہی انھیں ملے گا اور وہ اپنے ذاتی گھر میں رہنے کے قابل ہو سکیں گے۔ یہ تنظیم بنانے والے تمام لوگ سفید پوش تھے مگر افسوس جنھوں نے 1965 میں اس سوسائٹی کا قیام عمل میں لا کر اپنے گھرکا خواب دیکھا تھا، ان کا خواب آج جنوری 2024 میں بھی پورا نہ ہو سکا۔
اس سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے ایک سفید پوش ہمارے دوست بھی ہیں اور وہ آج بھی کرائے کے ایک مکان میں رہتے ہیں۔ کچھ دنوں پہلے جب ہم نے خبر سنی کہ پاکستان خصوصاً کراچی سے تمام غیر مقامیوں اور افغانوں کو جو غیر قانونی طور پر یہاں مقیم ہیں ملک بدرکیا جا رہا ہے تو ہم خوش ہوئے کہ چلو وہ افغان اور غیر مقامی جنھوں نے کراچی کے سفید پوشوں کی مختلف زمینوں پہ قبضہ کیا ہوا ہے، ان کے چلے جانے سے یہ قبضہ ختم ہوگا اور ان سفید پوش لوگوں کو اپنی زمین مل سکے گی مگر افسوس یہ خواب بھی شرمندہ تعبیر ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔
ہمارے سفید پوش دوست کے مطابق جب انھیں پلاٹ کے کاغذات مل گئے اور لوگوں نے وہاں اپنی تعمیرات شروع کی تو انھوں نے بھی کچھ پیسے جمع کرنے شروع کیے کہ یہ بھی اپنی مکان کی تعمیر شروع کریں لیکن ابھی تعمیر شروع ہی نہیں ہوئی تھی کہ 2009 میں کچھ مسلح افراد نے یہاں پر قبضہ شروع کر دیا اور سوسائٹی کے منتظمین کو یہاں سے بھگا دیا، اس کے بعد سوسائٹی کی جانب سے سراب گوٹھ تھانے میں ایف ائی آر درج کرائی گئی مگر جیسا کہ عموماً ہوتا ہے، ایف آئی آر کے بعد کارروائی نہیں ہوئی اور ان قابضین کو وہاں سے بیدخل نہیں کیا گیا۔
اس کے بعد معاملہ عدالت میں چلا گیا اور جون 2010 میں سوسائٹی کے حق میں فیصلہ بھی آگیا مگر افسوس کہ جو قابضین تھے، جن میں افغانی اور غیرمقامی لوگ شامل تھے انھوں نے اپنا قبضہ برقرار رکھا اور پولیس سمیت کوئی بھی ادارہ ان کو وہاں سے ہٹا نہیں سکا۔
اس کے بعد 2005 میں سوسائٹی نے ڈسٹرکٹ جج ملیرکی عدالت میں درخواست دائرکی اور وہاں سے ان کی سوسائٹی کی زمین خالی کروانے کا حکم بھی دیا گیا مگر قانون نافذ کرنے والے ادارے یہ قبضہ ختم نہیں کراسکے۔ اس کے بعد 2018 اکتوبر میں سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے پولیس رینجرز اور ادارہ انسداد تجاوزات کو قبضہ مافیا سے زمین خالی کروانے کا حکم دیا گیا لیکن قبضہ پھر بھی برقرار رہا۔
قابل افسوس اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ عدالتوں کی جانب سے کے الیکٹرک، واٹر بورڈ اور سوئی گیس کے محکمہ کو سوسائٹی کی زمین پر ان غیر قانونی قابضین کے کنکشن منقطع کرنے کے احکامات بھی دیے گئے مگر یہ ادارے بھی ان کے کنکشن منقطع کرنے سے عاری رہے۔
افسوس ناک بات یہ ہے کہ صرف بجنور سوسائٹی ہی نہیں، اس سے متصل کالج ٹیچر سوسائٹی کی کئی سو ایکڑ زمین پر بھی قبضہ مافیا نے یہی کچھ کیا اور دیگر ارد گرد کی زمین پر بھی اس قسم کے معاملات ہوئے لیکن قابضین کوکوئی بھی وہاں سے بے دخل نہیں کرسکا۔ دسمبر 2023 میں ایک بار پھر اس پر سماعت ہوئی اور قبضہ خالی کروانے کے لیے ایک مرتبہ پھر مختلف ایجنسیوں کوکہا گیا مگر یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔
بالاخر ایک مرتبہ پھر ہائی کورٹ کی جانب سے بجنور سوسائٹی کی زمین پر 15 روز میں قبضہ ختم کرانے کے لیے 18 جنوری کی سماعت میں حکم دیا گیا ہے۔ اس سماعت میں ایک مرتبہ پھر سوسائٹی کی زمین پر قبضہ ختم کرانے کے لیے ڈی سی اور ایس ایس پی ایسٹ اور رینجر ونگ کمانڈر کو 15 دن میں قبضہ ختم کرانے کی ہدایت کر دی گئی ہے۔
یوں یہ منظر نامہ کس قدر خوفناک ہے کہ باہر سے آئے ہوئے لوگ اس شہر کے سفید پوشوں کے کسی ایک پلاٹ پر نہیں پوری کی پوری سوسائٹیز پر قبضہ کر لیتے ہیں اور اس قبضہ کو ختم کرانے کے لیے عدالتوں کے احکامات کے باوجود پولیس اور رینجرز بھی بالکل بے بس نظر آتی ہے، کیا ایسی بے بسی میں کسی ملک کا نظام چل سکتا ہے؟
کیا اس ملک کا مسئلہ ہے صرف سابق وزیراعظم اور وزیروں جیسے طاقتور لوگوں کو انصاف نہ ملنا ہے؟ آخر عام لوگوں کو انصاف ملنا کب شروع ہوگا؟ یہ سوسائٹی کے مختلف منتظمین (جن میں سید شاہد رضا اعزازی سیکریٹری، چیئرمین یحییٰ خالق، خورشید احمد صدیقی، فیاض الرحمٰن اورکوکب صدیقی صاحبہ اور دیگر)کی ہمت ہے کہ وہ ابھی تک حصول انصاف کے لیے ڈٹے ہوئے ہیں۔ اس ملک میں موجودہ عدلیہ خاص کر چیف جسٹس کے انصاف کا بڑا چرچہ ہے، ہماری دعا ہے کہ اس ملک کے تمام عوام کو بھی انصاف ملے۔