برادری انجمنوں کا المیہ…
ان برادری تنظیموں کی کارکردگی اس لیے افسوسناک ہے کہ ان پر نااہل اور غیر سنجیدہ اشرافیہ قابض ہے
کہنے کو تو کراچی ایک معاشی شہر ہے، لیکن یہ اپنے آپ میں ایک تہذیب بھی پنہاں رکھتا ہے، کہا جاتا ہے کہ جب دلّی اجڑی تھی، تو لکھنؤ بسا تھا اور جب پورا ہندوستان اجڑا توکراچی شہر بسا۔ پھر جب اس ملک کے قیام کے وقت یہ اپنی شان دار اُٹھان کے ساتھ نمایاں ہوا، تو اس کے دامن میں ایک نیا تمدن اپنا رنگ پکڑنے لگا، جس میں اپنے اصلی خمیر اور جڑوں کی خوش بو بہ درجہ اتم موجود رہی۔
اس کی ایک مثال کراچی میں موجود بے شمار ادارے اور علاقے ہیں، جوکراچی کو اس کی اُس عظمت سے جوڑے ہوئے ہیں، جو اب اس کے وجود کا ان مٹ حصہ اور لازمی جزو بن چکی ہے۔ اسی کا ایک اظہار یہاں موجود مختلف برادریوں کی انجمنیں اور تنظیمیں بھی ہیں، جو اپنی اپنی برادری کی فلاح و بہبود کے لیے متحرک ہیں۔
اگرچہ گاؤں گوٹھوں میں برادریوں کا کردار کچھ جابرانہ رہتا ہے، لیکن شہروں میں ظاہر ہے، یہ سلسلہ اس طرح سخت گیر نہیں، تاہم ان کی سماجی اہمیت یہ ہے کہ یہ 'سماجی ضبط' اور 'سماجی تربیت' کے لیے یہ نہایت موثر اورکارگر ثابت ہوتی ہیں۔ ہمارے شہر میں بہت سی 'برادری انجمنوں' کی کارکردگی مثالی ہے، جب کہ کچھ کی کارکردگی اوسط، جب کہ زیادہ تر کا حال سماج اور نظام کی طرح ابتر دکھائی دیتا ہے۔
ان انجمنوں میں ذمے داران کا باقاعدہ چناؤ ہوتا ہے، لیکن جیسے عام انتخابات میں بااثر افراد اور شخصیات اپنا غلبہ قائم رکھتی ہیں، ایسے ہی مختلف طریقوں سے برادری انجمنوں کا اقتدار حاصل کیا جاتا ہے اور پھر اس عہدے اور مرتبے کو اپنی باقی عمرکے شغل،کاروباری مفادات اور شہرت کے حصول کے سوا کچھ نہیں سمجھا جاتا۔ پھر چونکہ یہ انجمن انکم ٹیکس سے بھی مستثنیٰ ہوتی ہیں، اس لیے اس میں مبینہ طور پر ہیرا پھیری کے معاملات بھی سامنے آتے ہیں۔
خود ہمارے مشاہدے میں ایسے لوگ ہیں کہ جو خلقِ خدا کے واسطے کوئی اہلیت نہیں رکھتے، لیکن اپنی برادری انجمن کے انتخابات میں بہت بڑے خیر خواہ بن کر سامنے آ جاتے ہیں، اگر یہ ساری 'برادری انجمنیں' صحیح معنوں میں فعال ہوں، تو اپنی برادری کی فلاح و بہبود اور مسائل حل کرنے کا کام بہت زبردست طریقے سے کر سکتی ہیں، جس سے نہ صرف ان کا اصل مقصد حاصل ہوگا، بلکہ مجموعی سماجی بہتری کو بھی راہ مل سکے گی۔
جیسے ہمارے عام سیاست دان اپنے عوام کے مسائل اور ان کی بدترین سماجی حالت سے ناواقف ہوتے ہیں، بالکل ایسے ہی برادری تنظیموں کے ناخداؤں کی کیفیت بھی ہوتی ہے۔ انھیں سرے سے یہ اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ ان کی برادری کی سفید پوشی کا بھرم رکھنے کے لیے کتنے ہی مخیر حضرات ذمے داری سمجھ کر انجمنوں کو عطیات دیتے ہیں، لیکن شاید یہ تو یہ چاہتے ہی نہیں کہ ان کی برادری میں طبقاتی فرق ختم ہو اور لوگ خود کفیل ہو سکیں۔
برادری انجمنوں کی بنیاد اس بات پر رکھی گئی ہوتی ہے کہ وہ برادری کے دکھ سکھ کے ساجھے دار بنیں، ان کی بنیادی ضروریات، رہائش، عائلی مسائل، سماجی کٹھنائیوں سمیت زندگی کے تمام اہم امور کی معاونت، نگہ بانی اور راہ نمائی کریں گی، لیکن صاحب، کہاں کی فلاح اور کاہے کی خدمت۔ آپ ان ذمے داران اور ان عہدوں کے امیدواران سے پوچھیے کہ اب تک کیا اہداف حاصل کیے اور مستقبل میں کیا کرنا ہے؟ تو یقین جانیے الفاظ کی جگالی کے سوا کچھ نہ ملے گا۔
فلاح و بہبود کے نام پر چند ایک اسکول، کالج، اسپتال، مساجد، مدارس اور قبرستان۔ اور ان کی مجموعی صورت حال بھی قابل ذکر نہیں ہوتی۔ برادری کے مستحق افراد کے لیے مختص رہائشی منصوبوں کو انھی کی آشیرباد سے بلڈر نگل لیتے ہیں۔ عام افراد برادری کے لیے کوئی کام ہوتا ہے اور نہ ان سے کوئی باقاعدہ رابطہ۔
جیسے ہی 'سالانہ چناؤ' ہوتا ہے، ویسے ہی یہ برادری کی ان روایتی گلی محلوں میں جا پہنچتے ہیں، جہاں کا نام تک سن کر ان کی تیوریوں پر بل پڑ جاتے ہیں، جنھیں یہ خود سے کم تر سمجھتے ہیں، جن خاندانوں میں اپنے بچوں کے رشتے کرنے کا تصور نہیں کر سکتے اور انھی سے ووٹوں کی بھیک مانگتے ہیں، جیسے ہی انتخابات ختم، ویسے ہی ایک سال تک کوئی نہیں پلٹتا۔
حالات کا ستایا غریب روز مرتا ہے، برادری میں طبقاتی اور رہائشی انتشار عروج پر ہے، اور یہ 'ناخدا' چین کی بنسری بجاتے ہیں۔ اگرچہ برادری انجمنوں کی جانب سے مستحق خاندانوں کی مالی اعانت بھی کی جاتی ہے، جو ایسے لوگوں کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں، لیکن یہ عطیات، صدقات، زکوٰۃ اور قربانی کی کھالیں ہی تو ایسی انجمنوں کا مقصد نہیں۔
یہ معزز ارکان اپنے لوگوں کے مسائل کا ذرا سا بھی ادراک ہی نہیں رکھتے، ان سے دو منٹ بات کر کے دیکھیے اور پوچھیے کہ ذرا آپ برادری کے بنیادی مسائل اور ان کا حل تو بتائیے؟ ان کی سماجی ترقی اور فلاح وبہبود کے لیے کیا منصوبہ ہے؟ سب سے بڑھ کر آپ مختلف ذمے داریوں پر رہتے ہوئے اور اس کے علاوہ کتنی بار عام افراد برادری کے مسائل پر سر جوڑ کے بیٹھے؟ کتنی بار خاص برادری کے حق کی خاطر اختلاف کیا؟ کتنی مرتبہ کسی عوامی مسئلے پر پلٹ کر اپنے لوگوں کی خبر گیری کی؟
یقیناً وہ ان سوالوں پر بغلیں جھانکتے ہوئے نظر آئیں گے، کیوں کہ سماجی خدمت کے لیے ان کی بنیادی تربیت موجود ہی نہیں ہے۔ ان کے برادری میں بڑھتی ہوئی طلاقیں، آئے روز ٹوٹتے ہوئے گھر، خاندانی اختلافات اور سنگین سماجی مسائل سے لے کر مایوس نوجوانوں کی خودکُشیاں انھیں کبھی پریشان نہیں کرتیں۔ معاشی اونچ نیچ ختم کرنے کے لیے ان کی کوئی سوچ بچار نہیں۔
برادری کے تشخص، رکھ رکھاؤ اور تمدن کے تحفظ کی الف، ب سے بھی یہ نابلد ہیں۔ انھوں نے بوڑھی ہوتی ہوئی بن بیاہی لڑکیوں کے لیے کبھی کچھ نہیں سوچا۔ نوجوانوں کے تعلیمی اور معاشی مسائل کے حل کے لیے ان کے پاس کوئی دور اندیشی نہیں... کیوں کہ ''تیری داستاں کوئی اور ہے، مرا واقعہ کوئی اور ہے۔''
ان برادری تنظیموں کی کارکردگی اس لیے افسوسناک ہے کہ ان پر نااہل اور غیر سنجیدہ اشرافیہ قابض ہے۔ یہ پیٹ بھرے لوگ اپنے ہی غریب اور متوسط طبقے کے لوگوں کو حقارت سے ٹھکراتے ہیں۔ یہ کیا جانیں کہ ان کے بزرگوں نے جو 'انجمن' بنائی تھی، وہ ان کی نمود ونمائش اور ریٹائرمنٹ کے بعد وقت گزاری یا عالم نوجوانی میں 'تفریح' اور 'مستی' کے واسطے ہر گز نہ تھی۔
یہ ان کے اپنے لوگوں کی بڑی امید بننی چاہیے تھی، جو انھیں اس بات کی ضمانت دیتی کہ زمانے کی منہ زور ہوا میں اگر وہ کہیں لڑکھڑائیں گے، تو ان کی انجمن انھیں تھام لے گی۔ انھیں کوئی گھریلو، سماجی مسئلہ یا معاشی تنگی ہوگی، تو 'برادری تنظیم' ان کے ساتھ کھڑی ہوگی۔
ان کی خوشی میں یہ 'بڑے' ان کے محلوں کی پتلی گلیوں میں بہ خوشی آئیں گے، صاحبِ ثروت بزرگ ان کی بیٹیوں کے سر پر ہاتھ رکھیں گے، لوگوں میں اتحاد ویگانگت پیدا کر کے نہ صرف اپنی برادری کی خدمت کا حقیقی معنوں میں حق ادا کریں گے، بلکہ پورے سماج میں ایک مثبت سوچ اور مثبت تبدیلی کی ایک قابل تقلید مثال بھی قائم کریں گے۔