پلٹ آؤ اپنے رب کی طرف پہلا حصہ
مادی چیزوں کی خواہش نے انسان کی شخصیت کو مسخ کردیا ہے، وجود کی خوبصورتی اور روح کی سرشاری ملیامیٹ ہوگئی ہے
آج ہم نے جس راستے کو اختیار کیا ہے اور جس چلن کو اپنا لیا ہے ان طور طریقوں، رسموں و رواجوں، دولت کی ہوس، اقتدار کی طلب اور جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لیے بے قصور لوگوں پر ظلم و تشدد کی فضا ہموار کر دی گئی ہے۔
مادی چیزوں کی خواہش نے انسان کی شخصیت کو مسخ کردیا ہے، وجود کی خوبصورتی اور روح کی سرشاری ملیامیٹ ہوگئی ہے۔ اب انسان ناانصافیوں اور جنگ و جدل کے نتیجے میں بے مقصد خوفزدہ رہنے لگا ہے۔ ہر روز ظلم کی نئی داستان رقم کی جاتی ہے، چور، ڈاکو، لٹیرے ہر موڑ اور ہر گام پر شرفا کی عزت پر ہاتھ ڈالتے اور مال و اسباب کے لیے قتل و غارت کرتے ہوئے ہرگز خوفزدہ نظر نہیں آتے ہیں۔
ہمارا وہ جاہ و حشم جوکہ اسلام نے ایمان کی بدولت عطا کیا تھا اور دنیا کے بے شمار خطوں میں اذان کی صدائیں فضاؤں میں گونجا کرتی تھیں اور اللہ کی عظمت و وحدانیت کا پرچار کرتی تھیں لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا اسلامی قوانین اور تعلیمات کی نفی کھلے بندوں ہونے لگی اور مظلوم عوام پر ایسے لوگوں کو مسلط کردیا گیا جو خود کفران نعمت کرنے کے ساتھ ساتھ یہود و نصاریٰ کے دوست بن گئے، اللہ کے احکامات کو بھول گئے اور کچھ نے تبدیلیاں کرنی شروع کردیں اور ذاتی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے عیش و عشرت میں گم ہوگئے انھیں رعایا کی قطعی فکر نہیں خود سونے کا نوالہ کھانے کے متمنی اور مفلس خودکشی کرنے پر مجبور،کل رات کا ہی واقعہ ہے کہ ایک مقروض اور فاقہ کش شخص نے اپنے بیوی بچوں کو مار کر خودکشی کر لی۔
اس طرح کے واقعات آئے دن جنم لیتے ہیں ان مجبور و بے کس لوگوں کا خون انھی لوگوں کی گردنوں پر ہوگا جن لوگوں نے ان کا جینا حرام کیا تھا، ان سے ان کے حصے کا رزق چھین کر انھیں قبروں میں دھکیل دیا تھا، آج ہر جگہ زندہ لاشیں اپنے اجسام کو گھسیٹنے پر مجبور کر دی گئی ہیں۔یہی وہ لوگ ہیں جو اپنی موت کو اور تعلیمی تقاضوں کو بھول بیٹھے ہیں۔
اس بات کو یاد رکھیں موت برحق ہے اور اس دن وہ مال و زر جو انھوں نے اپنے ہی بھائیوں کے خون کے عوض جمع کیا تھا، ہرگز کام نہیں آئے گا، اس سے پہلے موت واقع ہو جائے اور حشر برپا ہو اس دن گناہ گاروں کو جہنم کی آگ میں ڈال دیا جائے گا، کوئی پرسان حال نہیں ہوگا اس دن قاضی اور حکمران جھوٹ نہیں بول سکیں گے اپنے پسندیدہ لوگوں کو ہرگز نہیں بچا سکیں گے، اس دن تو سب سے بڑا حاکم ہمارا رب ہوگا، تو پھر اپنی عاقبت کی فکر کرکے لوٹ آؤ اللہ سبحان وتعالیٰ کی طرف، جو ہمارا خالق ہے، مالک ہے، یکتا ہے اس جیسا کوئی قدرت والا نہیں، وہ رب العالمین ہے، اس نے موقع دیا ہے توبہ کا۔ تو پھر انتظار کس بات کا ہے؟
اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو، یہ وہ واحد رسی ہے جس کے پکڑنے میں فلاح ہے، بہشت کا حسین منظر ہے، لوٹ آؤ ایمان کی طرف، قرآن کی طرف لوٹ آؤ۔ رسول کریم ﷺ کی سنتوں کی طرف، یہی عمل دین و دنیا میں رسوائی سے بچا سکتا ہے۔ ورنہ یہود و نصاریٰ کی دوستی عذاب الٰہی اور دولت کے حصول کے سوا کچھ نہیں ہے، قرآن کی تعلیمات سے ناواقف اور خوف خدا سے خالی دل اس بنجر زمین کی مانند ہے جس میں نہ بیج اگتے ہیں اور نہ پھل پھول اپنی بہار دکھاتے ہیں بلکہ یہ وہ زمین ہے جہاں سانپ، بچھوؤں کا مسکن ہے۔
اگر اپنے آپ کو بچانا ہے تو حرام مال، سود اور جھوٹ و فریب سے چھینی ہوئی دولت، حقدار کو لوٹا دو۔ قبضہ کی ہوئی عمارتوں کو مسمار کر دو، ہے اتنی طاقت؟ محض اپنے رب کی رضا کے لیے۔اہل ایمان کا دل نرم ہوتا ہے، سخت نہیں، وہ اپنے مسلمان بھائی کی تکلیف پر تڑپ جاتا ہے اور اس کا ہر لحاظ سے معالج اور خیر خواہ بننے کی کوشش کرتا ہے لیکن سخت دل لوگ اللہ کی پکڑ سے بچ نہیں سکیں گے۔ آج فلسطین میں قیامت بپا ہے۔
بمباری، جدید آلات کا استعمال اور مسلمانوں کی مسخ شدہ لاشیں اس خونی اور جابرانہ منظر نے اہل ایمان کے دل ہلا دیے ہیں، غیر مسلم بھی اس غیر انسانی رویے، سفاکی اور درندگی کو دیکھتے ہوئے ہولناک جنگ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے لیکن مسلم ممالک جن کی تعداد پچپن کے قریب ہے، سب خاموش ہیں۔ آپس کی لڑائیاں اور اقتدار کے بھوکوں اور ان کے چاہنے والوں کو جہاد پر کیوں نہیں بھیجتے؟
ڈاکوؤں، چوروں اور ظالموں کے ساتھ ان لوگوں کو بھی محاذ جنگ پر روانہ کریں ، وہ ایمان کی لذت کے مزے لوٹنے اور مجاہد کی حیثیت سے جانا چاہتے ہیں اور اپنے نہتے فلسطینی بھائیوں کو بچانا اپنا اسلامی فرض سمجھتے ہیں۔ اللہ کے حکم کی تعمیل کرنا چاہتے ہیں، ہر مظلوم ملک پاکستان کی طرف نظریں اٹھاتا ہے کہ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے۔ کم ازکم ظالم اور سفاک اسرائیل کی تباہی کے لیے بیانات ہی جاری کردیں، وہ ڈر جائیں گے چونکہ ایمان کی طاقت سے محروم اور دجال کی آمد کے منتظر ہیں۔
قیامت قریب ہے تمام چھوٹی نشانیاں پوری ہو چکی ہیں بس اب چند بڑی نشانیوں کا ظہور ہونا باقی ہے۔ ہم سب غزہ کے شہیدوں بے بس بھوکے، پیاسے، بیمار، زخمی مجاہدین کو نظرانداز کرکے اسی طرح معمول کیمطابق زندگیاں بسر کر رہے ہیں، زندگی کا ہر شوق اور ارمان پورا کیا جا رہا ہے، کھیل، تماشے ہو رہے ہیں، جیسے کہ فلسطین میں ہونیوالے یہودیوں کے قہر سے پہلے یہ مسلمان اور کلمہ گو ہیں۔ یقینی بات ہے جب مسلمان حق کے راستے سے دور ہو کر مغرب کی رنگینیوں میں گم ہو جاتے ہیں پھر ان کی وقعت اور رعب و دبدبہ ختم ہو جاتا ہے۔
عام تاثر یہ ہے کہ امریکا سب سے زیادہ دولت مند ملک ہے اس کے پاس دولت کے ذخائر ہیں جو کبھی ختم نہیں ہوں گے۔ دولت تو فرعون اور نمرود کے پاس بھی تھی، سب مٹی میں مل کر خاک ہوگئی، خدائی کا دعویٰ کرنے والے نیست و نابود ہوگئے۔ ان کا بھی یہی انجام ہوگا امریکا کی دولت دراصل یہودیوں کی ہے جس کے ذریعے وہ اپنی خدائی قائم رکھے ہوئے ہیں۔ ''سوئٹزرلینڈ'' بینک میں دولت کے پجاریوں کی دولت امریکا کی مالی امداد کے لیے ہر وقت جمع رہتی ہے۔
یہ یہودی لابی اپنے منصوبے کے لیے ہر دم سرگرم رہتی ہے۔ یہود کے پاس ذہن کو تابع کرنیوالی ٹیکنالوجی موجود ہے جس کے ذریعے انسانوں کے ذہنوں کو غلام بنانے میں بے حد مددگار ثابت ہوسکتی ہے، یہ سارے کام دجال کو لانے کے لیے کیے جا رہے ہیں اور دجال کا دوسرا نام دنیا میں تباہی، قتل و غارت گری ہے، اس کا سب سے بڑا ہتھیار ''ایم کے الٹرا'' ہے۔ 1977 میں سی آئی اے کے ڈائریکٹر سیلن فیلڈ نے اس بات کا اعتراف کیا تھا۔ (جاری ہے۔)