کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا
بعض سچ اپنی اصل میں جھوٹ ہوتے ہیں‘ بعض قوانین اصل میں لاقانونیت کا جواز ہوتے ہیں
صاحبان اقتدار کی باڈی لینگوئج اور گفتگو اپنے اندر امور سلطنت کی ہزار رمز یں سموے ہوتی ہے۔
اقتدار کی غلام گردشوں میں گھونے پھرنے والے ان پر گہری نظر رکھتے ہیں، حکمرانوں کے پہناوے ،چلنے پھرنے، اٹھنے بیٹھنے کے انداز اور گفتگو میں بہت کچھ چھپا ہوتا ہے، جس نے اشاروں، تشبیہات و استعارات، انداز تخاطب اور چال ڈھال کی زبان کو سمجھ لیا، وہ کامیاب ٹھہرا ، جو دیکھنے اور سننے کے باوجود نہ سمجھا پایا یا کچھ اور سمجھ لیا، تو اس کا اقتدار کے امتحان میں فیل ہونا لازم ہے بلکہ عین ممکن ہے کہ تمام مضامین میں زیرو نمبر لے کر ''ڈیڈ فلاپ'' کے اعزاز سے نوازا جائے۔
میں تو کہتا ہوں ''جب ''طاقتور'' چلتا ہے،تو سب چلتے ہیں،وہ بیٹھتا ہے تو سب بیٹھ جاتے ہیں اور جب وہ بولتا ہے تو پورا سسٹم بولتا ہے''۔ سمجھداروں کے لیے اس میں بڑی نشانیاں ہیں البتہ غافلوں کی بات الگ ہے' بعض اوقات جہاندیدہ اور بلند پایہ لوگ بھی دیوار پر لکھا ہوا نہیں پڑھ پاتے حالانکہ اک جم غفیرپکار پکار کر بتا رہا ہوتا ہے، ''جناب! آپ امتحان میں فیل ہو چکے ہیں''۔
لیکن اس وقت ان کے کان بند ہوتے ہیں اور آنکھوں پر پردہ پڑجاتا ہے، ان کا دماغ اسی نکتے پر ڈٹ جاتا ہے کہ وہ فیل ہو ہی نہیں سکتے ہیں' کس میں اتنی جرأت ہے کہ وہ ہمیں فیل کردے ۔ لیکن نوٹس بورڈ پر ''فیل ہیں'' جلی حروف میں لکھا ہوتا ہے ۔اقتدار میں آنے اور جانے کی بس اتنی سے کہانی ہوتی ہے۔
آپ ہزاروں برس کی تاریخ اٹھا کر پڑھ لیں، اقتدارمیں آنے اور اقتدار سے محروم ہونے کے امتحان کے پرچے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے ، وہی سوالات، وہی جوابات اور وہی پریکٹیکل، جو سمجھ گیا وہ پہلی پوزیشن لے کر پاس اور جو نہ سمجھا وہ صفر کے ساتھ ڈیڈ فلاپ ۔جیسے افتخار محمد چوہدری اور ان کے رفقاء کار نے عبدالحمید ڈوگر کی تعیناتی و تقرر کو وائڈ ابنیشیو کر دیا تھا یعنی جس کا کبھی وجود ہی نہیں تھا۔ایسے ہی حکمران جب اقتدار سے محروم ہوتا ہے تو وہ ایک طرح سے وائڈ ابنیشیو ہی ہوجاتا ہے۔
آپ عمران خان کی مثال لے لیں' انھیں اب تک یقین نہیں آ رہا کہ وہ حکمرانی کے پیپرز میںفیل ہو چکے ہیں، دیوار سے لکھا پڑھنے کے بجائے وہ دیوار توڑنے پر آگئے ، اس کا نتیجہ وہی نکلنا تھاجو ایسے کاموں میں ہمیشہ نکلتا ہے۔اب حالت یہ ہوگئی کہ ایک ''جیلر''نے بھی بتادیا ہے کہ فیل اور پاس میں کیا فرق ہوتا ہے ، کوئی اب بھی دیوار پر لکھانہ پڑھے نہ سمجھے تو مجھ جیسا قلم مزدور یہی کہہ سکتا ہے:
اک سال گیا، اک سال نیا ہے آنے کو
وقت کا اب بھی ہوش نہیں دیوانے کو
المیہ یہ ہے، جو اقتدار سے محروم ہوا،وہ سمجھتا ہے اس کے ساتھ ظلم ہوا ہے، بھٹو صاحب بھی ایساہی سمجھتے تھے، محترمہ بے نظیر بھٹو بھی انھیں خیالات کا اظہار کیا کرتی تھیں، نواز شریف بھی یہی سوال پوچھتے ہیں، ''مجھے کیوں نکالا؟ میرا قصور کیا تھا''؟ ۔ بندہ پوچھے ، اگر تیس برس کی سیاست کے دوران یہی پتہ نہیں چلا کہ ''اقتدار سے کس نے اورکیوں نکالا'' تو مستقبل میں یہ نامعلوم کیسے معلوم کے خانے میں آئے گا۔اسے کہتے ہیں سانپ نکل گیا، اب لکیر پیٹو۔گزرے ہوئے برے وقت کا حال میں ماتم کرنا ، اپنا حال ضایع کرنے کے مترادف ہے۔
یاد رکھیں! گزرا ہوا زمانہ کبھی لوٹ کر نہیں آتا،حقیقت صرف ''حال موجود ''کی ہوتی ہے، لیڈر حال کی بات کرتے ہیں، ترقی کا مربوط پروگرام پیش کرتے ہیںاور ان کی تکمیل کا وقت بتایا جاتا ہے ، اپنی ''شیڈو کیبنٹ '' عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں، ماضی میں جو ڈھول بج چکا ہے ، اسے دوبارہ بجانے سے شور کی آلودگی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
مقتدر شخصیات نرگسیت کے مرض کا شکار ہو جاتی ہیں۔ وہ اپنے ہی عشق میں مدھوش ہوتی ہیں، وہی دیانتدار ، خود ہی امانتدار اور خود ہی ذہانت کا منبع و ماخذ بن جاتی ہیں۔ جو سوال کرے، وہ دشمن لگتا ہے، خوشامدی سچا دوست نظر آتاہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اقتدار کا امتحانی پیپر ان کے سوا کوئی دوسرا حل کرہی نہیں سکتا، ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ امتحان میں فیل ہوجاؤں۔
ممکن ہے' وہ درست سوچتے اور سمجھتے ہوں، وہ واقعی ذہین،مدبراور سچے ہوں، لیکن اصل ذہانت اور زیرکی اسٹیٹ سسٹم کی تخریبی طاقت کا ادراک ہوتی ہے۔ جب وہ سسٹم کا کنٹرول سنبھالتے ہیں تواس کی اندھی اور بے رحم طاقت کا نشہ چڑھ جاتا ہے۔ ''کچل ڈالو، مار دو، جیل میں پھینک دو'' اس کی عادت بن جاتی ہے۔ حالانکہ سسٹم کی تخریبی طاقت کا علاج کرنے کا یہی وقت ہوتا ہے لیکن کیا کریں، طاقت کا نشہ ہوش وحواس پر طاری ہوجاتا ہے،ہوش اس وقت آتا ہے جب گلشن اجڑ چکا ہوتا ہے۔
ہمارے سسٹم میں تخریبی طاقت غالب ہے ۔اس تخریبی طاقت کے لیے لائق کو فیل کرنا اور نالائق کو اعلیٰ نمبروں کے ساتھ پاس کرناکوئی مشکل کام نہیں ہے' ممکن ہے کہ عمران خان نے اقتدار کے امتحان میں اچھی پرفارمنس دی ہو ' انھیںسو میں سے سو نمبر ملنے کا یقین ہو لیکن سچائی، انصاف اور کارکردگی وہی ہے جوسسٹم کے سافٹ وئیر میں فیڈ ہے۔
اگر سسٹم کے سافٹ وئیر میں بدی کے ساتھ نیکی کا پروگرام بھی موجود ہوتا، توایک بار ''تاحیات نااہل'' ہوجانے والا دوبارہ اہل نہ ہوتا،صادق و امین قرار پانے والا جھوٹا اورکرپٹ قرار نہ پاتا'کوئی جج غلط فیصلہ نہ کرپاتا، پولیس تفتیش میں کسی بے گناہ کو گناہ کار قرار نہ دے سکتی سکتالہٰذا میرا ''سب جاننے'سننے اور پڑھنے'' والے دوستوں کو مشورہ ہے کہ اگر ہم میں سے کوئی جھوٹ بولتا ہے، ''لبھی چیز خدادی' دھیلے دی نہ پا دی'' کے نظریے کا پیروکار ہے تو سچ بولنے سے گریز کریں۔
میرے ایک بزرگ کہا کرتے تھے، ''بیٹا کبھی سچ نہ بولنا' یہ تمہارا سب سے بڑا دشمن ہے''۔ میں طنز کیا کرتا، ''بابا جی! آپ نوجوانوں کو جھوٹ بولنے کا درس دیتے ہیں' اس طرح تو معاشرہ تباہ ہو جائے گا''۔ اس پر وہ بولتے ''پتر! اولیاں دا کھادا تے سیاناں دا آکھیا' ایدھے فائدا بعد وچ پتہ لگا دا اے''۔ برسوں پہلے سمجھ نہ آنے والی بزرگ کی باتوں میں چھپی حقیقت آج سمجھ میں آ رہی ہے۔ واقعی سچ کڑوا ہوتا ہے بلکہ زہرقاتل ہوتا ہے۔
بعض سچ اپنی اصل میں جھوٹ ہوتے ہیں' بعض قوانین اصل میں لاقانونیت کا جواز ہوتے ہیں' بعض اصول بے اصولی پر استوار ہوتے ہیں' آپ کو میری یہ باتیں احمقانہ لگ رہی ہوں گی لیکن ذرا غورکریں' نواز شریف کی نااہلی قانون کے مطابق تھی، اب نااہلی ختم ہونا، یہ بھی قانون کے مطابق ہے' میں اور آپ جو مرضی کہتے رہیں' کوئی دلیل دیں' گالیاں دیں' سب بے سود ہے' اب قانونی کیا ہے؟ اور غیرقانونی کیا ہے؟ کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا۔