منہاج اور معراج دو بے مثال بھائی پہلا حصہ
ملک کا آئین توڑنے والے، غداری کرنے والے اور جمہوریت کے باغی ہم پر حکمران بن کر راج کرتے رہے
ہم ایک ایسے دور میں زندہ ہیں جب صحافت اور سیاست ایک مشکل دور سے گزر رہی ہے۔ ڈیجیٹل انقلاب، سماجی رابطوں کے نت نئے ذرایع نے صحافت کے طور طریقوں کو تبدیل کر دیا ہے۔
اب یہ معلوم کرنا دشوار ہے کہ انٹرنیٹ کے ذریعے آنے والی خبر کی صداقت کیا ہے۔ اسی طرح سیاست کے انداز بھی بدل گئے ہیں۔ سیاسی کلچر پر عدم برداشت کا رویہ پوری طرح حاوی آچکا ہے۔ عام انتخابات بہت قریب ہیں۔ ملک میں انتخابی مہم جاری ہے لیکن حریف جماعتیں اور سیاسی مخالفین ایک دوسرے سے ہاتھ تو دورکی بات، نظریں تک ملانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ایسے دور میں جب 15 جنوری کی تاریخ آئی تو مجھے منہاج برنا اور ان کے چھوٹے بھائی معراج محمد خان بے اختیار یاد آگئے۔
صحافت اور سیاست کے یہ دوکردار ان تمام نوجوانوں کے لیے مشعل راہ ہوسکتے ہیں جنھیں سیاست سے دلچسپی ہے یا وہ صحافت کا پیشہ اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ برنا صاحب ان لوگوں میں سے تھے جن کی ذات آمروں کے خلاف پاکستانی صحافت کی شاندار جدوجہد سے عبارت ہے، وہ ہمارے درمیان سے اٹھا لیے گئے، جانا تو سب ہی کو ہے لیکن اہم بات یہ ہے کہ کون کس دھج سے زندہ رہا۔ اس زاویے سے دیکھیے تو منہاج برنا اس شان سے جیے کہ بڑے بڑوں کو رشک آئے۔
وہ قائم گنج کے پٹھان تھے، پٹھانوں کوگھوڑے کی پشت اور تلوار کے دستے کے سوا کسی اور چیز سے بھلا کیا علاقہ۔ لیکن ہندوستان جنت نشان میں جانے کیا جادو ہے کہ یہاں اپنی کمر کھولنے والے لشکر غوریوں کے ہوں یا تغلقوں اور تیموریوں کے ، سب ہی یہاں کے موسموں اور ریت رواجوں سے سرشار ہوکر شعر کہتے ہیں لیکن سپہ گری کی نسلوں پرانی روایات کو بھی فراموش نہیں کرتے۔
منہاج برنا ہوں یا ان کے چھوٹے بھائی معراج محمد خان ہوں، ان لوگوں نے آنے بہانے شعر بھی کہے لیکن سپہ گری کی روایت سے کنارہ نہیں کیا۔ والد طبیب تھے، مریضوں کے لیے نسخے لکھتے تھے۔ منہاج برنا نے پسے ہوئے طبقات کے لیے انقلاب کا نسخۂ شفا تحریرکیا۔ ان کے ایک بھائی دکھی پریم نگری کے نام سے فلمی گیت لکھتے رہے۔
منہاج برنا اخبار نگری میں بغاوت کے دیپ جلاتے رہے۔ شعر وسخن سے ان کی یاد اللہ تھی لیکن اپنے اس شوق کو انھوں نے آزادیٔ صحافت کے لیے لڑی جانے والی طویل جنگ پر قربان کردیا۔ ان کی شاعری کا قصہ ان کے قریبی لوگوں کے علم میں تھا لیکن اگر کبھی کسی محفل میں انھیں ان کا کوئی بھولا بسرا شعر یاد دلا دے تو وہ شرما جاتے اور '' ارے میاں چھوڑو ہٹائو بھی'' کہہ کر گفتگو کی ریل کا کانٹا بدل دیتے اور بات کسی اور طرف نکل جاتی تھی۔
کبھی کبھی ان کے کچھ اشعار چھپتے بھی رہے لیکن آزادیٔ صحافت اور ملک میں جمہوریت کی بحالی کے لیے ان کی جدوجہد اس قدر پرہنگام تھی کہ لوگوں کی توجہ اسی پر مرتکز رہی۔ 1977میں اقتدار پر غاصبانہ قبضے کے بعد جب صحافت اور صحافیوں کے خلاف ضیاء الحق کی نادرگردی روزافزوں ہوئی تو برنا صاحب نے ایک شہر آشوب '' چوتھے ستون کا مرثیہ'' کے نام سے لکھا۔
'' مرثیہ چوتھے ستون کا '' سنسرشپ کے موضوع پر 1981میں تحریرکیا گیا تھا جب جنرل ضیاء الحق کے مارشل لائی دور میں ہر نوع کی مطبوعات پر کڑی سنسرشپ نافذ تھی اورکوئی تحریر سنسر افسر کی منظوری کے بغیر شایع نہیں کی جاسکتی تھی۔ سنسر افسر جن الفاظ یا فقروں کو قابل اعتراض سمجھتا تھا انھیں حذف کر دیا جاتا تھا۔
بعض اوقات مضحکہ خیز صورت بھی پیدا ہو جاتی تھی مثلاً ایک مرتبہ ایک اخبار '' صداقت'' نے جو اس دور میں بہت مقبول تھا (اور جس کے مدیر و مالک رانا بشیر صاحب ہوا کرتے تھے جو قوم پرست ہونے کی وجہ سے برطانوی دور میں پابندِ سلاسل بھی ہوئے تھے) بڑی سرخی میں ''جھوٹے پر خدا کی لعنت'' لکھ دی تھی جسے سنسر افسر نے قابل اعتراض قرار دے کر قلم زد کرنے پر زور دیا۔ جب پوچھا گیا کہ اس میں ایسی کون سی قابلِ اعتراض بات ہے، یہ تو محض ایک قول ہے تو اس نے جواب میں کہا کہ '' اس کا اشارہ جناب صدرکی جانب معلوم ہوتا ہے اس لیے اسے شایع نہیں کیا جاسکتا۔''
منہاج برنا پاکستان کے بے باک صحافی، اہم دانشور، شعلہ نوا مقرر اور صحافتی تنظیموں کے آتش بہ جاں ٹریڈ یونین رہنما تھے۔ وہ ہمارے سماج کے ایسے منفرد شخص تھے جس کے آئینہ دل پرکبھی بے ضمیری کا غبار نہیں آیا۔ ان کی عمر آزادیٔ تحریرکی شیریں کے لیے بے ستوں تراشتے گزری اور یہ کار فرہاد انھوں نے آخر تک کیا۔
وہ بارہا جیل گئے، صوبہ بدر ہوئے، بھوک ہڑتال کے مرحلوں سے گزرے ، بیروزگار ہوئے، ذہنی، جسمانی اور نفسیاتی دبائو برداشت کیا لیکن کسی آمر کے سامنے ان کا سر خم نہ ہوا۔ کسی سرکار، کسی دربار سے انھوں نے سمجھوتہ نہ کیا۔ ہر دور میں حرفِ حق کہا اور اس کی قیمت ادا کی۔
ان کے اشعار میں غم دوراں اور غم جاناں اس طرح بہم پیوست ہیں کہ ایک کو دوسرے سے جدا کرنا ذرا مشکل ہو جاتا ہے۔ ان کے تذکرۂ شب ہجراں میں بتِ طناز اور اس کے گیسوئے مشک بو سے جدائی ایک نیا رنگ اختیار کرتی ہے اور وہ اپنے غم خانے پر خوں رنگ پرچم دیکھتے ہیں۔ ان کی غزلوں میں اگر کہیں رمِ غزال کا ذکر آیا ہے تو یادِ جاناں کے اس عالم میں بھی ان کے تنِ خستہ سے انقلاب کی دلآویز خوشبو پھوٹتی ہے۔
وہ شخص جسے درِ زنداں کو چھونے سے لمسِ جاناں کا سرور محسوس ہو، یہ اسی کے لیے ممکن تھا کہ وہ '' مرثیہ چوتھے ستون کا، بھوک ہڑتال سے معلوم ہوا، ہم کو قیدی کیوں کہتے ہو، کتابیں شہر کی سب مر رہی ہیں اور '' نظریۂ ضرورت'' جیسی نظمیں لکھے۔
ان کی نظم '' سرسری سماعت کی عدالت '' پڑھتے ہوئے مئی 1979 کے وہ دن یاد آتے ہیں جب لاہورکے شاہی قلعے میں 4 صحافیوں کوکوڑے لگے تھے۔ ان کوڑوں کی پھنکار برنا صاحب کے اشعار میں سنائی دیتی ہے۔ جب عدالت کی کرسی پر بیٹھا ہوا افسر بہ انداز تحقیر پوچھتا ہے :
'' تم مزدور اور ہاری ہو؟ /کیا تم سب بھی صحافی ہو؟ /تم تو سارے پاپی ہو! /ملک کے سارے باغی ہو! /بارہ مہینے دس کوڑے''
ملک کا آئین توڑنے والے، غداری کرنے والے اور جمہوریت کے باغی ہم پر حکمران بن کر راج کرتے رہے۔ ان دو ادوار میں انھوں نے لکھا کہ ''لے گیا لوٹ کے خود اپنا ہی لشکر ہم کو'' اور یہ کہ ''جناب آپ کے نرغے میں ملک ہے'' انھوں نے ''ریفرنڈم'' کے نام سے دو ایسی نظمیں لکھیں جو دو جرنیلوں کے شرمناک ریفرنڈم کا نقشہ کھینچتی ہیں اور یہ بھی انھوں نے لکھا کہ ہائے وہ لشکر جفا جس نے اپنے ہاتھوں سے ملک بھی توڑا۔
صحافت کا گلا گھونٹنے کے لیے جنرل ایوب خان نے پریس اینڈ پبلی کیشنزکا سیاہ قانون نافذ کیا تو منہاج برنا، نثار عثمانی اور دوسرے متعدد صحافی اس کالے قانون کے خلاف سینہ سپر ہوئے اور 25 برس کی جدوجہد کے بعد 1988میں اسے منسوخ کرانے میں کامیاب ہوئے۔ (جاری ہے)