اہل فلسطین پہ ظلم وستم کرنے والی اسرائیلی افواج سزا سے کیسے بچتی ہیں
غرض اسرائیل کی سرکاری پالیسیاں تشکیل دینے میں امریکی حکمران طبقے کا اہم کردار ہوتا ہے۔
امریکا کے بانی عدل وانصاف کی اہمیت سے بخوبی آگاہ تھے۔ پہلے امریکی صدر ، جارج واشنگٹن کا قول ہے:''دنیا کی سبھی اقوام سے ہم اچھے تعلقات رکھنا چاہتے ہیں اور انصاف کی راہ اپنائیں گے۔امن اور باہمی پیار ومحبت ہماری منزل ہے۔''
اسی طرح امریکا کا ایک اور بانی و پہلا وزیر خزانہ، ایلیگزنڈر ہملٹن کہتا ہے:''میں سمجھتا ہوں کہ ایک معاشرے کی سب سے پہلی ڈیوٹی انصاف فراہم کرنا ہے۔''دیگر بانیان ِامریکا (فاؤنڈنگ فادرز)بھی اسی قسم کے خیالات رکھتے تھے۔
تاہم جدید امریکی حکمران طبقے کے قول وفعل سے عیاں ہے کہ وہ عدل ا انصاف جیسے بنیادی انسانی وصف وخوبی سے دور ہو چکا۔ اسرائیل اور حماس کی حالیہ لڑائی میں یہ نکتہ دنیا والوں کے سامنے بہت نمایاں ہو کر سامنے آیا۔
امریکی و اسرائیلی حکومتیں اور ان کا بھونپو میڈیا یہ تو تسلسل سے کہتا رہا کہ حماس نے اسرائیل پہ حملہ کر کے جارحیت کی ہے، مگر یہ کہنے سے گریز کیا کہ آخر فلسطینیوں نے یہ جارحانہ عمل کیوں اپنایا؟وجہ یہی کہ اسرائیل نے اہل فلسطین کے علاقوں پہ پچھلے کئی عشروں سے قبضہ کر رکھا ہے۔پھر اہل غزہ کی تو اسرائیلی سیکورٹی فورسز نے زبردست ناکہ بندی کر رکھی ہے۔ یہ فورسز اہل فلسطین پہ ہر ممکن ظلم وستم کرتی ہیں۔
عدل وانصاف کا تقاضا یہ ہے کہ دنیا کی اکلوتی سپرپاور ، امریکا اسرائیل کو اہل فلسطین پہ ظلم کرنے سے روکنے کے لیے ہم ممکن اقدام کرتی۔آخر یہ امریکا ہی ہے جس نے اسرائیل کے قیام میں بنیادی کردار ادا کیا۔ یہی نہیں ، امریکا کا مشہور میڈیا ادارہ،یو ایس نیوز اینڈ ورلڈ (U.S. News & World Report) جس کا مالک ایک یہودی ہے۔
خبر دیتا ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے لے کر اب تک امریکی حکومت نے اسرائیل کو 270 ارب ڈالر کی عسکری ومعاشی امداد دی ہے۔ یہ کسی بھی ملک کو ملنے والی سب سے بڑی امریکی امداد ہے۔(ملاحظہ فرمائیے، انگریزی مضمون : How Much Aid Does the U.S. Give to Israel?)
غرض اسرائیل کی سرکاری پالیسیاں تشکیل دینے میں امریکی حکمران طبقے کا اہم کردار ہوتا ہے۔مگر اس کردار میں عدل وانصاف کہیں نظر نہیں آتا جس کی تلقین امریکا کے بانی کرتے رہے۔ بلکہ عملی طور پہ امریکی حکمران طبقہ تمام اخلاقی و قانونی اصول وقانون توڑ کر اسرائیل کی ہر ممکن مدد کرتا ہے۔
اسرائیل اور اہل غزہ کی حالیہ جنگ میں یہ عنصر دوبارہ نمایاں ہو گیا جب امریکا نے اسلحے کی کثیر مقدار اسرائیل کو فراہم کی۔حتی کہ امریکی صدر نے اعلان کیا کہ (فلسطینیوں کو شہید اور انھیں تباہ وبرباد کرنے کے لیے)امریکا اسرائیل کا پشتی بان بنا رہے گا۔
دی گارڈین برطانیہ کا موقر اخبار ہے۔ اس میں شائع ہونے والی تحریریں بالعموم غیرجانب دارانہ طریقے سے عالمی معاملات اور واقعات پہ روشنی ڈالتی ہیں۔
حال ہی میں اخبار نے ایک مضمون 'Different rules': special policies keep US supplying weapons to Israel despite alleged abuses شائع کیا۔ اس میں انکشاف کیا گیا کہ امریکی حکمران طبقہ اخلاقیات و قوانین پیروں تلے روند کر ایسے اقدامات کرتا ہے جن کے ذریعے اسرائیل کی حکومت کو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے الزامات سے بچایا جا سکے۔
گویا آج امریکا کا حکمران طبقہ اسرائیلی حکمرانوں کی ڈھال بن چکا۔ اسرائیلی حکمران دنیا بھر میں جو مرضی کرتے رہیں، اہل فلسطین کے گھر گرائیں، انھیں گولیوں کا نشانہ بنائیں، غیر ممالک میں جا کر انھیں شہید کریں...انھیں کھلی چھٹی ہے کیونکہ اکلوتی سپرپاور نے ان کو اپنی پناہ میں لے رکھا ہے۔
بالی وڈ کی بولی میں امریکا ایسا ''بھائی''بن گیا ہے جس کا پالتو کتا، اسرائیل جب دل چاہے، کسی کو بھی کاٹ لے اور بھنبھوڑ ڈالے۔ گارڈین کے مضمون میں کئی انکشافات ملتے ہیں جن کا خلاصہ درج ذیل ہے۔
7 اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد سے اب تک اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں 25,000 فلسطینی، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں، ہلاک ہو چکے ۔ ہلاکتوں کی غیرمعمولی تعداد کے باعث دنیا بھر میں عوام و خواص نے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اور امریکی صدر جو بائیڈن کی مذمت کی ۔ غزہ پر اسرائیل کی "اندھا دھند" بمباری پر لگام دینے میں ناکامی پر بھی امریکی حکمران طبقے کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
گارڈین کی تحقیقات، جو امریکی محکمہ خارجہ کی نیم خفیہ دستاویزات کے جائزے اور حساس معاملات سے واقف افسران کے انٹرویوز پر مبنی ہے، یہ ظاہر کرتی ہے کہ اسرائیل کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر قانونی سزاؤں سے بچانے کے لیے گزشتہ چند برس میں خصوصی طریقہ کار استعمال کیا گیا۔ حالانکہ یوکرین سمیت امریکا کے دیگر اتحادیوں کے فوجی یونٹس کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر پابندیاں اور نتائج کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے اہلکاروں نے اسرائیل کے معاملے میں درحقیقت ایک ایسے امریکی قانون کو بھی غیر موثر بنا دیا جو اسرائیلی حکومت کو سزا دے سکتا تھا۔ یہ 1990 ء کی دہائی میں بننے والا '' لیہی قانون''(Leahy law)ہے۔
ریٹائرڈ سینیٹر پیٹرک لیہی کے نام سے منسوب ہے۔ وزارت خارجہ کے سابق حکام کہتے ہیں، ان کے محکمے نے ایسی غیر معمولی پالیسیاں وضع کی ہیں جو اسرائیلی حکومت کے لیے انتہائی عزت و احترام کو ظاہر کرتی ہیں۔ امریکا کے کسی دوسرے اتحادی کے لیے ایسے کوئی خصوصی انتظامات موجود نہیں ۔
اسرائیل میں لیہی قانون کے نفاذ کی عدم موجودگی خاص طور پہ پریشان کن ہے۔ گارڈین کو دیے گئے ایک بیان میں، ریاست ورمونٹ کے سابق سینیٹر نے کہا '' لیہی قانون کا مقصد امریکی امداد حاصل کرنے والی غیر ملکی سیکیورٹی فورسز کے ذریعے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے جرم سے امریکا کو بچانا اور مستقبل کی خلاف ورزیوںسے روکنا ہے۔لیکن اس قانون کا مسلسل اطلاق نہیں کیا گیا، اور جو کچھ ہم نے مغربی کنارے اور غزہ میں دیکھا ہے، وہ اس کی ایک واضح مثال ہے۔ کئی برسوں سے میں نے پے در پے امریکی انتظامیہ پر زور دیا کہ وہ وہاں قانون لاگو کریں، لیکن ایسا نہیں ہوا۔''
2020 ء سے اب تک جن واقعات کا جائزہ لیا گیا، ان میں فلسطینی نژاد امریکی صحافی شیرین ابو عاقلہ کا قتل شامل ہے جسے مئی 2022 ء میں اسرائیلی فورسز نے گولی مار دی تھی۔نیز 78 سالہ فلسطینی نژاد امریکی عمر اسد کی موت بھی جو جنوری 2022ء میں اسرائیلی حراست میں رہنے کے بعد انتقال کر گئے تھے۔ نیز 25 سالہ احمد عبدو کا مبینہ ماورائے عدالت قتل جسے مئی 2021ء میں صبح سویرے اسرائیلی فورسز نے اپنی گاڑی میں بیٹھے ہوئے گولی مار دی تھی۔
اسرائیلی اخبار، ہرٹز کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ کس طرح کار پر گولی چلانے کے بعد اسرائیلی فوجیوں نے عبدو کو باہر نکالا، اسے سڑک سے چند میٹر نیچے گھسیٹا، پھر اس کی خون آلود لاش سڑک پر چھوڑ کر روانہ ہوگئے۔
عبدو کی موت کے بارے میں، جس کی رپورٹوں سے پتا چلتا ہے کہ یہ غلط شناخت کا معاملہ ہو سکتا ہے، امریکی محکمہ خارجہ کی خفیہ دستاویزات میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیل نے محکمے کے اہلکاروں کی طرف سے شوٹنگ کے بارے میں سوالات کا جواب دینے سے انکار کر دیا۔
عمر الاسد کے معاملے میں اسرائیلی فوج نے گزشتہ جون میں کہا تھا کہ وہ ان فوجیوں کے خلاف مجرمانہ الزامات نہیں لا رہی جو اس کی موت میں ملوث تھے۔ ایسوسی ایٹڈ پریس نے ایک رپورٹ میں انکشاف کیا کہ اسرائیلی فوج نے کہا : اس کے فوجیوں کو قانونی چارہ جوئی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا کیونکہ ان کے اقدامات کا دل کا دورہ پڑنے سے ہونے والی اسد کی موت سے براہ راست کوئی تعلق نہیں۔
امریکی وزارت خارجہ کی دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ 2020 ء کے بعد درج بالا واقعات کا جائزہ محکمے کی طرف سے قائم کردہ ایک غیر معروف عمل کے تحت کیا گیا جسے'' اسرائیل لیہی ویٹنگ فورم'' (ILVF) کہا جاتا ہے۔اس کے ذریعے محکمہ خارجہ کے متعلقہ بیورو کے نمائندے اسرائیلی فوج کے ہاتھوں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کی رپورٹس کا جائزہ لیتے ہیں۔
لیہی قانون کے تحت امریکی حکومت ان ممالک کی افواج کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر تفتیش کرتی ہے جو امریکی امداد لیتے ہیں۔ تب امریکی محکمہ خارجہ انسانی حقوق کی کسی بھی خلاف ورزی کی رپورٹ کی جانچ پڑتال کرتا ہے۔
لیہی قانون امریکی حکومت کو ان غیر ملکی سیکورٹی فورسز کو فنڈز، مدد یا تربیت فراہم کرنے سے روک دیتا ہے جن کے بارے میں یہ "معتبر معلومات" موجود ہوں کہ فورسز نے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کی ہے۔
کم از کم تین ممالک ... اسرائیل، یوکرین اور مصر کے معاملے میں امریکا کی غیر ملکی امداد کا پیمانہ اتنا بڑا ہے کہ امریکی فوجی امداد کا پتا لگانا مشکل ہو جاتا ہے۔
اور امریکی حکمران طبقے کو بھی اکثر اس بات کا کوئی علم نہیں ہوتا کہ مخصوص امریکی ہتھیار کہاں تک پہنچتے ہیں یا وہ کیسے ہیں اور انھیں کیونکر استعمال کیا جاتا ہے۔لیکن اس عمل سے واقف امریکی وزارت خارجہ کے سابق اہلکاروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اسرائیل کو ILVF کے اندر مستعمل غیر معمولی پالیسیوں سے فائدہ ہوا ہے۔ان پالیسیوں کی تفصیلات پہلے سامنے نہیں آئی تھیں۔
''یہ کسی نے نہیں کہا لیکن سب جانتے ہیں کہ اسرائیل کے لیے قوانین مختلف ہیں۔ کوئی بھی اسے کبھی تسلیم نہیں کرے گا، لیکن یہ سچ ہے۔" محکمہ خارجہ کے ایک سابق اہلکار نے کہا۔سب سے پہلے اسرائیل کے عمل کے تحت جاری ILVF کے جائزے میں شامل تمام فریقین کو اتفاق رائے تک پہنچنا چاہیے کہ ممکنہ خلاف ورزی ہوئی ہے۔ اور پھر اس خفیہ بات چیت سے واقف تین افراد کے مطابق نائب امریکی وزیر خارجہ اس امر کی منظوری دیتا ہے۔
اصولی طور پر، ایک واحد بیورو "اسپلٹ میمو" کے ذریعے نائب امریکی وزیر خارجہ کے سامنے یہ دعوی کر سکتا ہے کہ اسرائیلی حکومت نے انسانی حقوق کی ممکنہ خلاف ورزی کی ہے۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ اس عمل میں شامل گروپوں میں بیورو آف نیر ایسٹرن افیئرز، بیورو آف ڈیموکریسی، ہیومن رائٹس اینڈ لیبر، بیورو آف پولیٹیکل ملٹری افیئرز اور یروشلم میں امریکی سفارت خانہ شامل ہیں۔
سابق حکام نے بتایا کہ لیہی قانون کے سلسلے میں دوسرے ممالک کے لیے کوئی فیصلہ کرنے کے معاملے میں تمام فریقین کے اتفاق رائے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ اور اس کے لیے سیکریٹری آف اسٹیٹ یا نائب کی طرف سے اطلاع اور منظوری کی بھی ضرورت نہیں ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کے بارے میں مشورہ کیا جانا چاہیے جن کا جائزہ لیا جا رہا ہے اور دعووں کا جواب دینے کے لیے اسرائیلی حکومت کو 90 دن کا مارجن دیا گیا ہے۔ یوں معاملات بہت زیادہ تاخیر کا شکار ہو کر پس پشت چلے جاتے ہیں۔ سابق عہدیداروں نے کہا کہ محکمہ خارجہ کے طریقہ کار کے تحت کسی دوسرے ملک کی حکومت سے مشورہ نہیں کیا جانا چاہیے۔
محکمہ خارجہ کے ایک سابق اہلکار نے کہا "آئی ایل وی ایف کے کام نہ کرنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہ عمل تاخیری میکانزم سے اس قدر گمراہ کن ہے کہ کوئی عملی اقدام رونما نہیں ہو پاتا۔ایسا مددگار سسٹم کسی دوسرے ملک کے لیے موجود نہیں ۔''امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ترجمان نے گارڈین کو بتایا کہ محکمے کی خفیہ بات چیت کی تفصیلات پر تبادلہ خیال نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن "لیہی قانون کے تحت تشخیص کے ساتھ آگے بڑھنے کے لیے ILVF کے شرکا کے درمیان اتفاق رائے کی ضرورت نہیں "۔ترجمان نے مزید کہا کہ محکمہ قانون کے مطابق تمام ممالک بشمول اسرائیل کو قابل اطلاق امداد حاصل کرنے کے معاملے میں لیہی قانون جانچ پڑتال کرتا ہے۔"
اس سوال کے جواب میں کہ اسرائیل کے ساتھ مشاورت کو لیہی قانون کی جانچ کے معاملات میں اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے معیاری عمل کا حصہ کیوں سمجھا جاتا ہے، ترجمان نے کہا کہ محکمہ صرف اسرائیل ہی نہیں معمولی طور پر لیہی جانچ کے معاملات پر تمام غیر ملکی حکومتوں سے مشورہ کرتا ہے۔
ریاست ورمونٹ کے آزاد سینیٹر، برنی سینڈرز کی قیادت میں ترقی پسند ڈیموکریٹس رہنماؤں نے امریکی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیل کے لیے امداد انسانی حقوق کی ممکنہ خلاف ورزیوں کی امریکی تحقیقات سے مشروط ہونی چاہیے۔اس ضمن میں امریکی محکمہ خارجہ کے سابق اہل کار اور امریکی حکمران طبقے کے نقاد، جوش پال کہتے ہیں:
''ہم کہہ سکتے ہیں کہ اسرائیل کو بین الاقوامی انسانی قوانین کی پابندی کرنی چاہیے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ اسے یہودی بستیوں میں توسیع نہیں کرنی چاہیے۔ لیکن جب حقیقی نتائج کی بات آتی ہے تو امریکا میں اس کے خلاف کوئی اقدام نہیں کیا جاتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس رویّے نے اسرائیل کو اعلیٰ حکومتی سطح پر یہ احساس دل دیا ہے کہ وہ غیرمعمولی استثنیٰ رکھتا ہے۔''
جوش پال یہ بھی کہتا ہے کہ لیہی قانون کو اسرائیلی فوج کے خلاف بالکل استعمال نہیں کیا گیا۔نتیجہ ہے کہ اسرائیلی فوج کے سبھی یونٹس سزا کے خوف سے ماورا ہو چکے۔ چناں چہ انھوں نے غزہ میں اہل فلسطین پہ کھل کر ظلم ڈھائے۔ وڈیوز میں اسرائیلی فوجیوں کی کارروائیاں دیکھی جا سکتی ہیں۔ان میں وہ ویڈیوز بھی شامل ہیں جن میں اسرائیلی فوجیوں کو غزہ میں نجی گھروں میں توڑ پھوڑ، شہری املاک کو تباہ ، مردوں کو برہنہ اور نسل پرستانہ زبان استعمال کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
اسرائیل کے بارے میں امریکا کا دوہرا معیار 2021 ء میں ہوا وہ معاہدہ پوری طرح افشا کرتا ہے جس پر امریکی محکمہ خارجہ کی ایک سینئر اہلکار، جیسیکا لیوس نے، جو سیاسی امور کے اسسٹنٹ سیکرٹری کے طور پر کام کرتی ہیں، اور امریکا میں اسرائیل کے سفیر مائیکل ہرزوگ نے دستخط کیے تھے۔دو صفحات پر مشتمل 2021 ء کے اس معاہدے نے میڈیا کی بہت کم توجہ حاصل کی ہے...حالانکہ اس نے لیہی قانون میں باقاعدہ تبدیلیاں کر دیں۔اہم ترین بات یہ کہ معاہدے میں یہ متنازع بیان بھی شامل کیا گیا: اسرائیل مضبوط، آزاد اور موثر قانونی نظام رکھتا ہے اور اس کا ملٹری جسٹس سسٹم بھی مضبوط ومبنی بر انصاف ہے۔''
یہ واضح رہے، امریکا نے اس وقت دوسرے ممالک کے ساتھ دو درجن سے زیادہ اسی طرح کے معاہدوں پر دستخط کر رکھے ہیں جن میں یونان، اردن، جارجیا، یوکرین اور لٹویا شامل ہیں - لیکن کسی معاہدے میں بھی دوسرے ملک کے ملٹری جسٹس سسٹم کی توثیق وتعریف کرنے والی زبان استعمال نہیں کی گئی۔گارڈین سے بات کرنے والے امریکی محکمہ خارجہ کے سابق عہدیداروں نے کہا ، وہ نہیں جانتے کہ یہ زبان امریکا و اسرائیل کے معاہدے میں کیسے شامل کی گئی۔ لیکن قیاس ہے کہ شاید اسے اسرائیل نے شامل کیا ہے۔دی گارڈین نے واشنگٹن میں اسرائیلی سفارت خانے سے اس معاملے پر تبصرہ کرنے کی درخواست کی لیکن اسے کوئی جواب نہیں ملا۔
پیٹرک لیہی کے دیرینہ سینئر مشیر، ٹم رائسر(Tim Rieser) جنہوں نے 1990ء کی دہائی میں لیہی قانون لکھنے میں مدد کی تھی، بتایا کہ یہ زبان شامل کرنے کا مقصد شاید اسرائیل کو لیہی قانون کے تحت جانچ پڑتال سے بچنے میں مدد فراہم کرنا تھا۔
کیونکہ اس زبان سے پتا چلتا ہے کہ اسرائیل کی فوج میں انصاف کا نظام انسانی حقوق کی کسی بھی مبینہ خلاف ورزی سے نمٹنے کے لیے کافی آزاد ہے۔'' لیکن میں سمجھتا ہوں کہ امریکہ اسرائیل معاہدے میں کانگریس کے ساتھ مشاورت کے بغیر متنازع زبان شامل کی گئی ۔ حقیقت میں یہ غلط عمل ہے اور غلط طور پر تجویز کرتی ہے کہ [لیہی] قانون کو لاگو کرنے کی ضرورت نہیں ۔" ریزر نے کہا۔
اسرائیل میں سرگرم انسانی حقوق کی ایک تنظیم ، B'Tselem اسرائیلی فوج کے قانونی نظام کو اکثر شدید تنقید کا نشانہ بناتی ہے۔اس تنظیم کے ترجمان ،درور صیدوت(Dror Sadot) کہتے ہیں:''اسرائیلی حکمران طبقہ فوجی قانون نافذ کرنے والے نظام کو وائٹ واش میکانزم کے طور پر استعمال کرتا ہے۔
اس کا مقصد اہل فلسطین کے علاقوں میں اسرائیلی حکومت اور فوج کے ہاتھوں انجام پائی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر کسی بھی قسم کی تنقید کو روکنا ہے۔ فوجیوں کی سزاؤں کا فیصد صفر کے قریب ہے، یہاں تک کہ انتہائی سنگین خلاف ورزی کرنے والے بھی آزاد رہتے ہیں۔''
امریکی محکمہ خارجہ کے سابق اہلکار جوش پال نے بائیڈن انتظامیہ کی اسرائیل کے لیے " اندھی حمایت" کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔وہ کہتے ہیں''میں نے طویل عرصے سے اندرونی طور پرمحکمے میں یہ استدلال دائر کر رکھا تھا کہ جب زیادتی کی بات آئے تو امریکا کو اسرائیل کے فوجی انصاف کے نظام کو ایک "ذمہ دار و فعال'' نظامِ انصاف کے طور پر نہیں ماننا چاہیے۔ "
جوش پال نے گارڈین کو بتایا ،میرے علاوہ"متعدد اہل کاروں نے محکمہ خارجہ کے اندر رہتے ہوئے کئی برس تک ان خدشات کا اظہار کیا کہ لیہی قانونی عمل "کام نہیں کر رہا اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں "بغیر احتساب" ہو رہی ہیں۔
درحقیقت کوئی بھی اسرائیلی یونٹ کبھی اس مقام تک نہیں پہنچا کہ لیہی قانون کے تحت اسے سزا دی جائے حالانکہ کئی اسرائیلی یونٹوں کے خلاف انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے معتبر الزامات موجود ہیں۔
دیگر معاملات جن کا ILVF نے جائزہ لیا، لیکن جہاں بالآخر امریکی حکام نے اتفاق رائے تک پہنچنے اور کارروائی کرنے سے انکار کر دیا، ان میں یہ شامل ہیں: سناد سالم الحربد کا قتل، ایک بدو جسے مبینہ طور پر مارچ 2022 ء میں اسرائیلی پولیس نے پیٹھ میں دو بار گولی مار دی تھی، احمد جمیل فہد کا قتل، جسے مبینہ طور پر پولیس نے گولی مار دی اور خفیہ اسرائیلی ایجنٹوں کی ایک یونٹ کے ہاتھوں خون بہنے کے لیے چھوڑ دیا گیا ،۔ صحافی گیوارا بودیری پر اسرائیلی پولیس کی حراست میں مبینہ حملہ، 2020 ء میں مشرقی یروشلم میں اسرائیلی پولیس کے ہاتھوں ایک بتیس سالہ غیر مسلح معذور شخص ایاد الحلق کا قتل، محمد حمائل نامی پندرہ سالہ لڑکے کا قتل اور سولہ سالہ فلسطینی جنا کسوانی کو گولی مار دینا۔
ٹم رائسر اور لیحی قانون کے دیگر حامیوں کے لیے الجزیرہ کی ممتاز صحافی،شیریں ابو عاقلہ کے قتل میں اسرائیل سے جواب دہی کا فقدان خاص طور پر پریشان کن ہے۔ اور یہ معاملہ کیپیٹل ہل پر سینئر ڈیموکریٹس کی جانب سے تنقید کا نشانہ بن چکا۔رائسر کہتے ہیں:''اگر امریکہ اسرائیل میں لیہی قانون کا اطلاق کرنے پر آمادہ ہوتا تو شاید اسرائیلی افواج اپنے فوجیوں کو جوابدہ ٹھہرانے کے لیے زیادہ مائل ہو جاتیں۔
اس سے شیریں ابو عاقلہ اور بہت سے دوسرے شہریوں کی ہلاکتیں روکنے میں مدد ملتی۔اگر اسرائیلی افواج اپنے مجرم فوجیوں کے خلاف ٹھوس اقدام نہ کرتیں تو انہیں امریکی امداد میں کٹوتی کا سامنا کرنا پڑتا جو امریکا اسرائیل تعلقات میں ایک حقیقی سیاہ نشان اور کانٹا بن جاتا۔"
ٹم رائسر انکشاف کرتے ہیں کہ جارج ڈبلیو بش انتظامیہ سے لے کر بائیڈن انتظامیہ تک پیٹرک لیہی اور ریاست کے یکے بعد دیگرے سیکرٹریوں کے درمیان خط کتابت کی طویل تاریخ رہی ہے جس میں اس سوال کا جواب مانگا گیا... فلسطینیوں کے قتل سے متعلق معاملات میں لیہی قانون پر عمل درآمد کیوں نہیں کیا جا رہا ہے؟
مئی 2002 ء میں تب کے سیکریٹری خارجہ، کولن پاول کو لکھے گئے خط میں، جو بش انتظامیہ میں خدمات انجام دے رہے تھے، لیہی نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ لیہی قانون کا اطلاق مشرق وسطیٰ پر نہیں کیا جا رہا ۔جنوری 2009 ء میں اس وقت کی سکریٹری کونڈولیزا رائس کو لکھے گئے خط میں لیہی نے لکھا کہ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کیا اسرائیلی فوج کے کسی ایک واقعے سے بھی "بے خبر" ہے جو لیہی قانون کو متحرک کر دے؟
فروری 2016 ء میں پیٹرک لیہی کی طرف سے اس وقت کے وزیر خارجہ جان کیری کو ایک خط میں "اسرائیل اور مصر میں سیکورٹی فورسز کی طرف سے انسانی حقوق کی ممکنہ سنگین خلاف ورزیوں کی پریشان کن رپورٹس" کا حوالہ دیا گیا، جس میں "اسرائیلی فوج اور پولیس کے ذریعے ماورائے عدالت قتل" بھی شامل ہے۔اکتوبر 2017ء میں ریکس ٹلرسن کے نام ایک خط میں، جو ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں سیکرٹری آف سٹیٹ تھے، یہ استفسار کیا گیاکہ اسرائیل میں امریکی سفارتخانہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کیا اقدامات کر رہا ہے کہ لیہی قانون اسرائیلی افواج پر لاگو کیا جائے؟
مئی 2018 ء میں پیٹرک لیہی کی جانب سے تب کے سیکریٹری آف اسٹیٹ، مائیک پومپیو کے نام لکھے خط میں غزہ سے تعلق رکھنے والے تقریباً 100 فلسطینی مظاہرین کی فائرنگ سے ہلاکتوں کے لیے لیہی قانون پر نظرثانی کا مطالبہ کیا گیا جو مارچ کے بعد مارے گئے تھے۔
اس سال لیہی نے لکھا: "اگر کسی اسرائیلی یونٹ کے بارے میں لیہی قانون کو متحرک کرنے کے لیے قابل اعتماد معلومات موجود ہیں اور حکومت اسرائیل ذمہ دار افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے موثر اقدامات نہیں کر رہی ، تو ایسی یونٹ امریکی امداد کے لیے اہل نہیں رہے گی۔"
ستمبر میں ایک اور خط میںپیٹرک لیہی نے "واضح جواب" کے لیے زور دیا، جس میں یہ بھی شامل ہے کہ آیا انتظامیہ نے کبھی فلسطینیوں کو گولی مارنے والے اسرائیلی فوج کے یونٹوں کی شناخت کی کوشش کی؟
دسمبر میں لیہی کی طرف سے بھیجے گئے ایک اور خط میں سوال ہوا کہ امریکی سفارت خانے نے کتنی بار اسرائیل کو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے ثبوت پیش کیے، اور کتنی بار ان افراد کو امریکی امداد حاصل کرنے سے روکا گیا؟لیہی کے کئی دوسرے خطوط میں اسرائیلی افواج کی طرف سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا حوالہ دیا گیا ۔ ان میں سے کوئی بھی کیس کبھی کسی اسرائیلی یونٹ کو سزا کا باعث نہیں بن سکا۔