عام انتخابات 2024ء ملک بحرانوں کا شکار انتخابات کے بعد میثاق جمہوریت و معیشت کرنا ہوگا

’’صاف اور شفاف انتخابات جمہوریت کیلئے ناگزیر‘‘ کے موضوع پر منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں تجزیہ کاروں کا اظہار خیال


’’صاف اور شفاف انتخابات جمہوریت کیلئے ناگزیر‘‘ کے موضوع پر منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ میںتجزیہ کاروں کا اظہار خیال ۔ فوٹو : محمود قریشی

8 فروری کو ملک میں عام انتخابات ہونے جارہے ہیں۔ اس وقت سیاسی درجہ حرارت عروج پر ہے۔ سیاسی جماعتیں میدان میں ہیں۔ملک کے طول و ارض میں جلسے، جلوس اور ریلیاں نکالی جا رہی ہیں۔ سیاسی جماعتیں اور امیدواران اپنا بھرپور زور لگا رہے ہیں۔

بڑی سیاسی جماعتوں کی جانب سے انتخابی منشور کا اعلان بھی کیا جا چکا ہے، بلند و بانگ دعووے کیے جا رہے ہیں۔ جلسوں میں سیاسی قائدین اور امیدواران کی جانب سے بڑے بڑے وعدے کیے جا رہے ہیں۔ ووٹرز اور سپورٹرز کا خون گرمایا جا رہا ہے ، ناراض رہنماؤں ، ووٹرز اور سپورٹرز کو منانے کا کام بھی جاری ہے۔

ایک سیاسی جماعت اپنے انتخابی نشان سے محروم ہوچکی ہے۔ اس کے امیدواران آزاد حیثیت میں مختلف انتخابی نشانات پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ انتخابی عمل پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں ۔ لیول پلیئنگ فیلڈ کا مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے۔پاکستان ایسے وقت میں انتخابات کی طرف جا رہا ہے جس میں سب سے بڑا چیلنج معاشی بحران ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ سکیورٹی، بے روزگاری، غربت سمیت بیسیوں دیگر مسائل ہیں جن کا حل آئندہ آنے والی حکومت کیلئے آسان نہ ہوگا۔ اس منظر نامے میں ''صاف اور شفاف انتخابات جمہوریت کیلئے ناگزیر'' کے موضوع پر ''ایکسپریس فورم'' میں ایک خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں سیاسی تجزیہ نگاروں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر محبوب حسین

(چیئرمین شعبہ تاریخ جامعہ پنجاب)

آزادی کے 23 برس بعد ملک میں پہلی مرتبہ انتخابات ہوئے اور عوام کو ووٹ کا حق ملا۔ یہ ایک بہت بڑا عرصہ تھا جس میں ملک کی خالق جماعت نے اپنی حیثیت کھودی۔ مسلم لیگ نے خود کو ریاست سے جوڑے رکھا اور اس طرح مسلم لیگ اور ریاست کی مخالفت میں مختلف جماعتیں ابھریں جس کی تایخ سب کے سامنے ہے۔

افسوس ہے کہ خود سیاسی جماعتوں میں جمہوری اقدار نہیں ہیں جس کی وجہ سے آج تک سیاست کو مسائل درپیش ہیں۔

آزادی سے اب تک ملکی سیاست میں اتاڑ چڑھاؤ رہا ہے۔ 2008ء کے بعد سے سیاسی جماعتوں نے ملک میں اپنی جگہ بنائی۔18 ویں ترمیم ہوئی، پارلیمنٹ کی مدت پوری ہونے لگی۔ سیاسی جماعتوں کے درمیان میثاق جمہوریت ہوا، پھر اس کی خلاف ورزی ہوئی، ایک نئی جماعت آگے آئی اور اس طرح سیاسی جماعتوں نے اپنی غلطیوں سے دوبارہ اپنی جگہ کھو دی۔

سیاسی جماعتوں کے پاس تو عوامی ایجنڈہ ہونا چاہیے تاکہ وہ ان کا اعتماد حاصل کرسکیں۔8 فروری کو ملک میں بارہویں عام انتخابات ہونے جا رہے ہیں جبکہ عوام کی اس میں دلچسپی نظر نہیں آرہی۔ عوام کا سیاسی جماعتوں سے اعتماد اٹھتا ہوا دکھائی دیتا ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ ووٹ کی عزت نہیں ہے لہٰذا سیاسی جماعتوں کیلئے اصل امتحان ووٹرز کو پولنگ بوتھ تک لانا ہے۔

سیاسی جماعتیں 'بلیم گیم' کرتی ہیں جس سے عوام تنگ آچکے ہیں۔ سیاسی نظام کی مضبوطی کیلئے ہمیں بنیادی جمہوریت کی طرف جانا چاہیے۔ ملک میں لوکل باڈیز کا نظام بنانا چاہیے جو جمہوریت کی نرسری ہے۔

یہاں سے نئی قیادت ابھرتی ہے اور جمہوریت پڑھوان چڑھتی ہے۔ ملکی آبادی کا ایک بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے مگر انہیں سیاسی کلچر میں شامل نہیں کیا گیا، ان کی شمولیت سے آگے بڑھا جائے اور ان کی فرسٹیشن کو کم کیا جائے۔ اگر انہیں آئسولیٹ یا نظر انداز کیا گیا تو وہ ملک کیلئے مسائل پیدا کر سکتے ہیں۔

وہ اپنی فرسٹیشن سوشل میڈیا پر نکالتے ہیں، گالم گلوچ ہوتی ہے جس سے ہمارا سوشل فیبرک تباہ ہو رہا ہے۔ میرے نزدیک مسائل کا حل سیاسی انداز میں ہی ہے۔ سیاسی عمل جیسا بھی ہو اس سے کچھ نہ کچھ استحکام ضرور آتا ہے۔

یہ ارتقائی عمل ہے جس سے سیکھتے ہوئے آگے بڑھنا چاہیے۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ سیاسی استحکام کے بغیر معاشی استحکام نہیں آسکتا لہٰذا سیاسی جماعتوں کو سب سے پہلے پاکستان کی پالیسی کی طرف جانا چاہیے، میثاق جمہوریت کو وسعت دینی چاہیے، اس میں سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ تمام سٹیک ہولڈرز کو شامل کرنا ہوگا۔

ڈاکٹر امجد مگسی

(ایسوسی ایٹ پروفیسرپاکستان سٹڈی سینٹر جامعہ پنجاب)

سیاسی جماعتیں سیاسی نظام کی وارث ہوتی ہیں لہٰذااگر ان میں اندرونی بحران پیدا ہوجائے تو نظام پر اس کا اثر پڑتا ہے۔ سیاسی جماعتیں منظم نہیں ہیں ان کے آپسی اختلافات سنگین ہیں۔ بحرانی کیفیت ہے اور یہ جماعتیں سیاسی نظام میں فیل نظر آتی ہیں۔ ایک کے بعد دوسرے کی باری، بس اسی کی دوڑ ہے۔

سیاسی جماعتوں کی غلطیوں کی وجہ سے آج سیاسی نظام جمود کا شکار ہے۔ایسے میں انتخابات آگے کا راستہ دکھاتے ہیں۔ میرے نزدیک الیکشن کے ذریعے ہی سیاسی ڈیڈلاک ختم ہوسکتا ہے لہٰذا سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ مسائل کا ادراک کرتے ہوئے عملی طور پر اس کے خاتمے کا حل پیش کریں۔سیاسی جماعتیں نظام کے ساتھ ساتھ عوام کو متحرک کرتی ہیں۔

انہیں یقین دلاتی ہیں کہ ان کے پاس عوامی مسائل حل کرنے کا منشور موجود ہے۔ یہ سب حالیہ انتخابات میں نظر نہیں آرہا۔ اس وقت تو سیاسی جماعتیں پوری طرح متحرک نہیں ہیں۔ ان کے پروگرامز زیر بحث نہیں ہیں۔ عوام سیاسی جماعتوں اور ان کے پروگرامز سے لا تعلق ہیں۔ ایسے میں خدشہ ہے کہ یہ جمود گہرا نہ ہوجائے۔

اسے صرف سیاسی جماعتیں ہی دور کرسکتی ہیں لہٰذا سب کو مل بیٹھ کرلائحہ عمل تیار کرنا ہوگا۔ معاشی بدحالی کا براہ راست شکار عام آدمی ہوتا ہے جس کے باعث سیاسی جماعتوں سے اس کا اعتماد اٹھ جاتا ہے۔ اس وقت سوال یہ ہے کہ عام آدمی سیاسی عمل سے الگ کیوں ہو رہا ہے؟ ایک وجہ تو یہ ہے کہ سیاستدانوں کے پاس شدت جذبات اور الزامات تو ہیں لیکن کوئی پروگرام نہیں ہے۔

اب آکر سیاسی جماعتوں نے اپنے منشور دیے ہیں،ا س سے سنجیدگی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ملک میں نوجوان ووٹرز کی تعداد نصف سے زائد ہے ۔ اعتماد کے فقدان کے باعث بیشتر نوجوان خود کو لاتعلق کر رہے ہیں۔ مقامی سطح پر بھی سیاسی جماعتیں موجود نہیں ہیں، ان کا وجود ختم ہوچکا ہے۔ اس وقت سیاسی بحران ہے جس کا حل سیاسی طریقے سے ہی ہوگا اور یہ خود سیاسی جماعتیں ہی کرسکتی ہیں۔

9 مئی کے واقعہ کے بعد ایک جماعت مسائل کا شکار ہے۔ انتخابات سے معاملات آگے بڑھتے ہیں لہٰذا یہ تمام سیاسی جماعتوں کے پاس موقع ہے کہ وہ معاملات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے آگے بڑھیں، ایک دوسرے کو برداشت کریں، رواداری کو فروغ دیں اور عوام کا اعتماد بحال کریں۔ اگر سیاسی جماعتیں آگے نہ بڑھیں اور عوام کا اعتماد بحال نہ ہوا تو پھر مسائل کون حل کر ے گا؟

سلمان عابد

(دانشور )

پاکستان میں اگر سیاسی، جمہوری اور انتخابی تاریخ کا جائزہ لیں توہر انتخاب پہلے سے مختلف اور متنازعہ رہا۔ ہر مرتبہ ہی سوالات اٹھتے رہے مگر ہم نے کبھی نہیں سیکھا۔ 70ء کے انتخابات میں مینڈیٹ تسلیم نہیں کیا گیا جس کا خمیازہ ہمیں بھگتنا پڑا۔ 2018ء اور 2024ء کے انتخابی عمل کو ایک جیسا قرار دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

میرے نزدیک دونوں کے حالات مختلف ہیں۔ اب سیاسی انجینئرنگ کے ساتھ ساتھ لیول پلیئنگ فیلڈ کی ڈیمانڈ بھی موجود ہے اور انتخابی عمل پر مختلف سوالات اٹھائے جا رہے ہیں جو اس کی حیثیت کو متنازعہ کر رہے ہیں۔ انتخابی عمل کی شفافیت چانچنے کیلئے پری پول، پولنگ کادن اور اس کے بعد حکومت سازی کے عمل کا جائزہ لیا جاتا ہے۔

ہر الیکشن ہی متنازعہ رہا ہے مگر اس مرتبہ غیر معمولی حالات نظر آرہے ہیں۔ اگرچہ ایک سیاسی جماعت کے اپنے مسائل تھے مگر اس کا انتخابی عمل سے باہر ہو جانا اور انتخابی نشان نہ ملنا ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ ایک سیاسی جماعت کو مکمل طور پر دیوار سے لگا دیا گیا ہے،ا س کے امیدواران آزاد حیثیت میں مختلف انتخابی نشانات کے ساتھ الیکشن لڑ رہے ہیں۔

9 مئی کی بنیاد پر کسی جماعت کو مکمل طور پر الیکشن سے باہر کر دینا میرے نزدیک جمہوریت کے لیے درست نہیں۔ پنجاب خصوصاََ لاہور میں کسی بھی طور آزادنہ میچ نہیں ہے، ایک جماعت کے آزاد امیدواروں کو مہم کی اجازت نہیں ہے۔ اب تو آزاد امیدواروں کے بارے میں بھی دعوے کیے جا رہے ہیں کہ یہ کس، کس جماعت میں جائیں گے۔

الیکشن کمیشن پر بہت سارے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ کبھی نئی مردم شماری اور کبھی کوئی اور بہانہ، پھر الیکشن کے انعقاد کے حوالے سے غیر یقینی اور ابہام کا ہونا غیر معمولی ہے۔ یہ پہلا الیکشن ہے جس میں عوامی دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہے۔ انتخابی ماحول کا نہ بننا خود ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ نگران حکومت سے جب الیکشن کی بات کی جائے تو جواب ملتا ہے کہ یہ الیکشن کمیشن کا کام ہے۔

نگران حکومتیں اپنے کام کے علاوہ ہر کام کر رہی ہیں۔ بھارت میں ایسا سلسلہ نہیں ہے۔ وہاں تو الیکشن کمیشن بااختیار ہے اور کبھی جمہوریت ڈی ریل نہیں ہوئی۔ ہمارے ہاں نگران حکومتوں کا سلسلہ ختم کرنا چاہیے اور الیکشن کمیشن کو مضبوط،بااختیار اور سیاست سے پاک بنانا چاہیے تاکہ ملک میں صاف و شفاف انتخابات یقینی بنائے جاسکیں۔ انتخابات میں پولیس، بیوروکریسی اور ریاستی اداروں کا بڑے پیمانی پر استعمال کیا جاتا ہے۔

ایسے میں شفاف انتخابات کیسے ممکن ہوسکتے ہیں؟ آج تک یہ طے نہیں ہوسکا کہ الیکشن آر او ز کے تحت ہونے ہیں یا عدلیہ کے ۔ ہر الیکشن سے پہلے نئی حلقہ بندیاں کر دی جاتی ہیں، علاقے تبدیل ہو جاتے ہیں جس سے ووٹ بھی دوسرے علاقوں میں منتقل ہوجاتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو مل کر صاف اور شفاف انتخابات کا لائحہ عمل بنانا ہوگا۔ اس مرتبہ الیکشن میںنوجوانوں کی صورت میں ایک بڑی تبدیلی آئی ہے۔

18 سے 35 برس کی عمر کے ووٹرز کی تعداد 46 فیصد جبکہ 18 سے40 برس عمر کے ووٹرز کی تعداد57 فیصدہے جو بہت بڑی تعداد ہے، ان کے حوالے سے کسی نے ہوم ورک نہیں کیا۔ بڑی سیاسی جماعتوں نے حال ہی میں اپنے منشور دیے ہیں۔ اب الیکشن میں انتہائی کم وقت ہے لہٰذا اس پر بڑی ڈیبیٹ ہونا ممکن نہیں۔ سیاستدانوں کی توجہ منشور پر نہیں بلکہ نان ایشوز پرہے۔ ایک دوسرے پر الزام تراشی کی سیاست کی جا رہی ہے۔

ملک میں پولرائزیشن اور عدم استحکام بڑھتا جا رہا ہے۔ ایسے میں سیاسی جماعتوں کو یہ دیکھنا ہے کہ بحرانوں سے کیسے نمٹنا ہے۔ اس وقت بڑے کرائس معیشت، سکیورٹی، گورننس اور ادارہ جاتی مسائل ہیں، ان کے حل کیلئے کسی جماعت کے پاس کوئی منصوبہ بندی نہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح کے انتخابات سے یہ مسائل حل ہوجائیں گے؟

میرے نزدیک انتخابات کے بعد محاذ آرائی میں اضافہ ہوگا۔ سیاسی جماعتوں کو سمجھنا چاہیے کہ معاشی استحکام، سیاسی استحکام سے جڑا ہے۔ہماری سیاسی جماعتیں اندرونی طور پر مسائل کا شکار ہیں۔ اگر مسلم لیگ (ن) کی حکومت بنی تو وہ مضبوط نہیں ہوگی۔

اگر کوئی جماعت دوبارہ سڑکوں پر آگئی تو بڑے مسائل پیدا ہوجائیں گے۔ سیاسی جماعتوں کو مل کر رولز آف گیم طے کرنا ہونگے کہ کس طرح شفاف ا نتخابات یقینی بنانے ہیں۔ قانون کی حکمرانی اور لیول پلیئنگ فیلڈ کیسے یقینی بنانی ہے۔ اس وقت ملک کو ایک مضبوط حکومت کی ضرورت ہے۔ خدارا!سیاسی اختلاف کو سیاسی دشمنی میں تبدیل نہ کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں