بہکاوے کے دعوؤں کی ہے کوئی گارنٹی

عوام سے دعوؤں کا سلسلہ 1970 کے الیکشن میں روٹی کپڑے اور مکان سے شروع ہوا


Muhammad Saeed Arain February 01, 2024
[email protected]

عام انتخابات کے موقع پر سیاسی قائدین 1970 سے ہی عوام کو بہلانے کے لیے بڑے بڑے دعوے کرتے آ رہے ہیں اور ووٹروں کو خوشنما خواب دکھاتے آ رہے ہیں جو پورے ہونے جیسے ہیں نہ ان کی تکمیل ممکن ہو سکتی ہے۔

ان دعوؤں اور اعلانات پر ماضی میں عمل ہوا، نہ اب ہونے کی کوئی امید ہے مگر ان جھوٹے اعلانات کے سحر میں کھوئے ہوئے ان کے ووٹر ضرور متاثر ہو کر تالیاں بجاتے ہیں اور بعد میں بھول جاتے ہیں کہ ان سے کیا وعدے ہوئے تھے اور ان پر کہاں تک عمل ہوا؟ جھوٹے اعلانات سے متاثر ہونے والوں میں حقائق سے نابلد پڑھے لکھے لوگ ہی نہیں بلکہ سیاسی رہنما اور ماضی میں اہم عہدوں پر رہنے والے افسران بھی شامل ہیں۔

جنھیں دیکھ کر عام لوگ بھی متاثر ہوتے ہیں مگر ان سمیت کسی سے پوچھنے کی جرأت نہیں کرتے کہ اقتدار کے حصول کے لیے قوم سے جو وعدے کیے گئے تھے ان کی تعمیل کیوں نہیں ہوئی اور جو سنہری خواب دکھائے گئے تھے عوام کو ان کی تعبیر کیوں نہیں ملی۔ وعدوں اور اعلانات پر عمل نہ ہونے کے باوجود مزید اعلانات کرنے کا سلسلہ اس لیے کامیابی سے جاری ہے کہ ان پر عمل کی کوئی گارنٹی ہے نہ کہیں گرفت۔

عوام سے دعوؤں کا سلسلہ 1970 کے الیکشن میں روٹی کپڑے اور مکان سے شروع ہو کر ایک کروڑ نوکریاں دینے اور پچاس لاکھ گھر بنا کر دینے کے بعد اب عوام کو تیس لاکھ گھر بنا کر دینے اور تین سو یونٹ بجلی مفت فراہمی کے اعلانات موجودہ الیکشن میں کیے جا رہے ہیں۔ تین سو یونٹ مفت بجلی کی فراہمی کا اعلان پی پی کے چیئرمین بلاول زرداری سے قبل پی ٹی آئی کے بطن سے جنم لینے والی ایک نئی پارٹی آئی پی پی نے کیا تھا جس پر اب بلاول زرداری کی انتخابی مہم چل رہی ہے۔

اس اعلان سے متعلق جب خود بلاول بھٹو سے ایک ٹی وی انٹرویو میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ ایسا خواب تو دیکھا جا سکتا ہے نا؟ پی ٹی آئی کے بانی کی تقلید میں بلاول بھٹو تیس لاکھ گھر بنا کر دینے کا اعلان کر رہے ہیں جب کہ سندھ میں پی پی کی حکومت نے سیلاب و بارش سے متاثر ہونے والوں سے بھی ایسے ہی وعدے کیے تھے جو سالوں میں پورے نہیں ہوئے اور جن کے گھر تباہ ہوگئے تھے وہ متاثرین جھونپڑیوں اور خیموں میں سالوں سے بلاول زرداری کے اعلان پر عمل کا انتظار کر رہے ہیں اور اب سندھ کے بعد ملک بھر کے عوام کو تیس لاکھ گھر بنا کر دینے کا خواب دوبارہ دکھایا جا رہا ہے۔

گھروں کا خواب دکھانے والے کو خود نہیں پتا کہ آج غریب خالی پلاٹ خریدنے کی بھی طاقت نہیں رکھتا اس کے لیے گھر بنانا تو دور کی بات ہے تو بلاول زرداری تیس لاکھ گھر بنانے کا خواب کیوں دکھا رہے ہیں۔ ان کی سندھ حکومت میں غریبوں کو پندرہ سالوں میں مفت چھوٹا پلاٹ نہیں ملا تو تیس لاکھ گھر کیسے اور کہاں بن سکیں گے؟

وزیر خارجہ کے بعد چند ماہ بعد ہی وزیر اعظم بننے کے خواہش مند بلاول زرداری نے کہا ہے کہ مجھے چار نہیں ایک بار وزیر اعظم بننے کا موقعہ چاہیے میں ملک کی قسمت بدل دوں گا۔

پیپلز پارٹی ہی مسائل کا مقابلہ کر سکتی ہے۔ بلاول زرداری پنجاب میں ناقابل عمل دعوے تو کر رہے ہیں مگر سندھ کی 15 سالہ پی پی کی حکومت میں کیا حالت بدلی اس پر کچھ نہیں بولتے، جس پر میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ پنجاب کو پانی دینے کی بات کرنے والے پی پی چیئرمین کے خود اپنے صوبہ سندھ میں تو پانی نہیں ہے اور عوام پریشان ہیں، میاں نواز شریف ووٹ مانگنے مانسہرہ گئے جہاں انھوں نے متعدد اعلانات کیے اور موٹر وے میں مزید توسیع کا اعلان کیا۔

ان کے کھاتے میں ملک کو موٹر ویز بنانے کا ریکارڈ ضرور ہے مگر عوام حیران ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے 2017 میں ملک سے لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا جو اعلان کیا تھا وہ ان کی حکومت جانے کے بعد کیا ہوا؟ اور بجلی کہاں گئی کہ بعد میں سردیوں میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کیوں ہو رہی ہے؟

پی ٹی آئی کہتی تھی کہ شیر آٹا کھا گیا تو پی ٹی آئی حکومت کیا اپنے دور میں بجلی پی گئی تھی اور سوئی گیس کا یہ حال بھی پی ٹی آئی دور میں ہوا کہ گھروں کو گیس نہیں مل رہی اور مہنگائی کنٹرول نہیں ہو رہی۔ اتحادی حکومت کے وزیر اعظم شہباز شریف اب کہہ رہے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہی مہنگائی ختم کر سکتی ہے تو شہباز شریف میں اپنی اتحادی حکومت میں مہنگائی ختم کرنے کے بجائے بڑھائی کیوں گئی تھی؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔