بابری مسجد کی جگہ رام مندر

برسوں کی عدالتی کارروائی کے بعد بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد کی جگہ رام جنم بھومی کے حق میں فیصلہ دیا


عبد الحمید February 02, 2024
[email protected]

یہ 1992 کے آخری دن تھے جب ہندو شدت پسندوں نے بی جے پی کے دو سرکردہ اور چوٹی کے رہنماؤں ایل کے ایڈوانی اور مرلی منوہر جوشی کی قیادت میں ایودھیا میں کم از کم 5سو سال پرانی بابری مسجد پر دھاوا بول کر اسے منہدم کر دیا۔

1540میں ایک جیوذیٹ پادری جوزف نے اس وقت کے انڈیا کا ایک مشنری اور سیاح کی حیثیت میںچکر لگاتے ہوئے ایودھیا میں اس خوبصورت مسجد کا اپنی یادداشتوں میںذکر کیا ہے۔اس نے یہ بھی لکھا ہے کہ مسجد سے ذرا دور ایک اونچا پلیٹ فارم )تھڑا(ہے جہاں ہندو پوجا کے لیے یہ مان کر آتے ہیں کہ اس پلیٹ فارم کی جگہ رام پیدا ہوئے تھے۔

جوزف کے مطابق یہ دو الگ الگ لیکن ایک دوسرے سے قریب جگہیں تھیں۔تقسیم برِصغیر کے کچھ ہی عرصے کے بعد کچھ ہندوؤں نے بابری مسجد کے منبر پر رام کی مورتیاں یہ کہہ کر رکھ دی تھیں کہ یہ رام جنم بھومی ہے۔مقامی ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے نقصِ امن کا بہانہ بناتے ہوئے بابری مسجد میں مسلمانوں کو نماز کی ادائیگی سے روک دیا۔تب سے اس قدیم مسجد کو شہید کر کے رام مندر تعمیر کرنے کی تحریک چل رہی تھی۔

آخر کار 5اگست2020 کو بھارت کے وزیرِ اعظم جناب نریندر مودی نے اس مندر کا سنگِ بنیاد رکھا اور گزشتہ دنوں22جنوری 2024 بروز سوموار جناب نریندر مودی ہی نے ہزاروں پُرجوش شرکاء کی موجودگی میں رام مندر کا افتتاح کیا۔بابری مسجد کے انہدام اور اس کی جگہ مندر کی تعمیر پتہ دیتی ہے کہ ہندو اکثریت کے ملک میں مسلمان اپنے دین پر عمل کرتے ہوئے ہندوؤںکے ساتھ اکٹھے نہیں رہ سکتے۔

کسی بھی مندر کی عمارت چاہے کتنی ہی عالیشان،بڑی اور خوبصورت کیوں نہ ہو،جب تک اس کے اندر مورتی یا بت نہ رکھ دیا جائے،وہ عمارت مندر نہیں کہلا سکتی اور مندر کے اندر مورتی اس وقت تک نہیں رکھی جا سکتی جب تک مندر کی عمارت مکمل نہ ہو جائے اور اس پر جھنڈا نہ لہرا دیا جائے۔

انڈیا کی سب سے بڑی ریاست اتر پر دیش کے مشہور شہر ایودھیا میں رام مندر بن رہا ہے۔یہ ابھی مکمل نہیں ہوا۔ویدک شاستروں کے مطابق عمارت بھگوان کا شریر یعنی جسم مانا جاتا ہے۔مندر کی چوٹی بھگوان کی آنکھیں،کلس،بھگوان کا سر اور مندر کے اوپر لہراتا جھنڈا بھگوان کے بال مانے جاتے ہیں۔22جنوری کو جس مندر میں رام کی مورتی رکھ کر افتتاح ہوا،وہ ایک نامکمل مندر ہے۔اسی لیے چند انتہائی اہم ہندو مذہبی شخصیات نے اس تقریب میں شرکت نہیں کی۔

آج سے کوئی بارہ سو سال پہلے بھارتی شنکر اچاریہ نے 4جگہوں، جھاڑ کھنڈ، اڑیسہ، گجرات اور کرناٹک میں شنکر اچاریہ نامزد کیے۔ان چاروں مہا گُرو، مہان ہستیوں نے اس افتتاحی تقریب میں یہ کہہ کر شریک ہونے سے معذرت کر دی کہ ایودھیا میں ابھی تک نہ تو بھگوان کا سر ہے اور نہ ہی آنکھیں، یعنی مندر کی نہ تو چوٹی بنی ہے اور نہ ہی کلس۔مندر کے افتتاح کے موقع پر مودی جی نے رام کی مورتی کو ہاتھ لگایا حالانکہ وزیرِ اعظم ہونے کے باوجود وہ جاتی کے لحاظ سے مورتی کو چھو نہیں سکتے۔

چاروں شنکر اچاریوں نے کہا کہ وہ شاستروں میں صاف لکھے کی خلاف ورزی ہوتے نہیںدیکھ سکتے۔بہر حال یہ ایک شاندار افتتاح تھا۔ایودھیا شہر میں ایک میلے اور جشن کا سماں تھا اس تقریب کو ہندو مذہبی زبان میں پران پرتشتھا یعنی مندر میں بت یا مورتی رکھنا کہتے ہیں۔مورتی کو نصب کرنے کے بعد جس دیوتا کی مورتی نصب کی جائے، اس کی روح کو مورتی میں بلانے کا عمل کیا جاتا ہے۔

برسوں کی عدالتی کارروائی کے بعد بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد کی جگہ رام جنم بھومی کے حق میں فیصلہ دیا جس کے نتیجے میں یہ مندر تعمیر ہو رہا ہے۔بھارت کے ارب پتی تاجر مکیش امبانی نے ڈھیر سارا سونا مندر کے لیے دان کرتے ہوئے اسے پورے بھارت کے لیے خوشیوں کے تہوار دیوالی سے تعبیر کیا ہے۔جب کہ اتر پردیش کے سابق وزیرِ اعلیٰ اکلیش یادیو نے اس موقعے پر کہا کہ جو مورت اب تک پتھر کی تھی وہ تقدیس کا روپ دھار کر اب خدا کا روپ لے لی گی۔

سابق وزیرِ اعلیٰ اکلیش یادیو نے تقریب میں شرکت نہیں کی۔یادیو نے کہا کہ وہ اس موقعے پر تو نہیں جائیں گے لیکن مندر کی تکمیل کے بعد اپنے پورے خاندان کے ساتھ رام مندر میں پوجا پاٹ کریں گے۔اس افتتاحی تقریب کو بھارت کی اکثر ریاستوں میں ٹی وی پر براہِ راست دکھایا گیا۔رام کی بچپنے کی مورتی نصب کرنے کے بعد اسے 114گھڑوں کے پانی سے اشنان کروایا گیا۔

اس مقصد کے لیے پورے بھارت کی مقدس جگہوں/درگاہوں سے پانی لایا گیا۔ تقریب کے موقع پر چیدہ چیدہ مہمانوں کے لیے خالص گھی،پانچ میوؤں،شکر اور بیسن سے خصوصی پرشاد تیار کرکے بانٹا گیا۔مودی جی نے رام مندر کا افتتاح کرنے کے بعد وہاں موجود سادھوؤں،سنتوں سے خطاب کرتے ہوئے اس دن کو بھارت کے لیے ایک تاریخی دن قرار دیا،کہ رام سب کے ہیں اور یہ ملک کی سلامتی اوراتحاد کے ضامن ہیں۔

جن لوگوں نے رام مندر کی افتتاحی تقریب میں شرکت نہیں کی ان میں راہول گاندھی،سونیا گاندھی اور بنگال کے وزیرِ اعلیٰ بہت نمایاں تھے۔راہول گاندھی نے اپنے پیغام میں کہا کہ رام محبت اور انصاف کی علامت ہیں،وہ نفرت اور نا انصافی کے عمل میں ظاہر نہیں ہو سکتے۔

بی جے پی کے عمر رسیدہ چوٹی کے رہنماؤں ایل کے ایڈوانی اور مرلی منوہر جوشی کو یہ کہہ کر تقریب سے دور رکھا گیا کہ آپ کی عمر زیادہ ہے،آپ تشریف نہ لائیں اور گھر پر آرام کریں۔حالات کی ستم ظریفی دیکھئے کہ وہ دو افراد جو بابری مسجد منہدم کرنے میں سب سے آگے تھے ان کو تقریب سے دور رکھا گیا۔

ایسے میں ان کے دل پر کیا گزر رہی ہو گی،ہر کوئی جان سکتا ہے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے سربراہ نے یہ کہہ کر تقریب میں شرکت نہیں کی کہ مذہب کو ریاست سے الگ رکھنا چاہیے۔ان کے مطابق بھارتی وزیرِ اعظم اس میں شرکت کر کے بھارتی آئین کی کھلی خلاف ورزی کر رہے ہیں اور یہ سب وہ الیکشن میں فائدہ اُٹھانے کی خاطر کر رہے ہیں۔

بھارتی مسلمان لیڈر اسد الدین اویسی نے بھی جناب مودی کی شرکت کو سیاسی ڈھونگ اور بھارتی آئین کی خلاف ورزی کہا۔بھارتی مسلمانوں پر یہ دن بہت بھاری تھا۔اس دن مسلمان سہمے سہمے رہے۔

کئی جگہ ان پر حملے ہوئے۔ تقریب کے فوراً بعد ممبئی میں میرا روڈ کے علاقے میں انتہا پسند ہندوؤں نے مسلسل دو دن مسلمانوں کو مارا پیٹا،ان کے گھروں میں داخل ہو کر تور پھوڑ کی، جائیدادیں جلا دیں اور مسلمان خواتین سے زیادتی کی۔ پاکستان میں رہنے والوں پر کھل جانا چاہیے کہ اگر یہ مملکت خداداد پاکستان نہ حاصل ہوتی تو ہندو اکثریت ان کی مساجد کا کیا حال کرتی اور ان کی جانوں کے کس طرح درپے ہوتے۔

بھارتی حکومت نے55ممالک کے سربراہوں کو شرکت کی دعوت دی تھی لیکن ان کے سفراء اور نمایندے ہی تقریب میں شریک ہوئے۔بھارتی فلم انڈسٹری کے بہت بڑے نام امیتابھ بچن کے علاوہ، انوپم،سن دیپہودا، انبیر کپور،عالیہ بھٹ،وکی کوشل، کترینا کیف اور مادھوری ڈکشٹ نے تقریب میں حصہ لیا۔کرکٹ کی دنیا سے سچن ٹنڈولکر،ویرات کوہلی اور انیل کمبلے نمایاں تھے۔

رام مندر کی افتتاحی تقریب جناب مودی جی کے ارد گرد گھوم رہی تھی۔وہی اس کے محور تھے۔ بھارت کے سبھی شہروں اور خاص کر ایودھیا شہر میں ہر سو مودی جی کے بڑے بڑے پورٹریٹ اور تصویریں آویزاں تھیں۔رام مندر کی اس افتتاحی تقریب سے جناب نریندر مودی کو مئی میں ہونے والے عام انتخابات جیتنے میں بہت مدد ملے گی۔

اس مندر کی تعمیر اور شہرت سے بھارتی حکومت اور اتر پردیش کی صوبائی حکومت کو امید ہے کہ تھائی لینڈ، لاؤس،کمبوڈیا اور دوسرے مشرقی ممالک اور دنیا بھر میں پھیلے ہندو اس کی یاترا کے لیے آئیں گے جس سے مذہبی ٹوارزم بڑے پیمانے پر جنم لے گا اور بھارتی اکانومی کو بڑا سہارا میسر ہو گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں