کیا جرمنی اسرائیل کی گائے ہے
جرمن فضائیہ کے سربراہ نے دہشت گردی سے نبردآزما اسرائیلی فوج کے لیے علامتی طور پر خون کا عطیہ دیا
سات اکتوبر کو جنوبی اسرائیل میں حماس کی مسلح کارروائی کے ردِ عمل میں نیتن یاہو حکومت کی جانب سے غزہ کی پٹی کو ایک مسخ زمینی ٹکڑے میں بدلنے کے اعلان کے ایک ہفتے بعد جرمن پارلیمان (بنڈسٹاگ) نے متفقہ طور پر قرار داد منظور کی کہ ''اسرائیل کی سلامتی جرمن ریاست کی خارجہ پالیسی کا ستون ہے۔ اسرائیل کے اندر حماس کی دہشت گرد کارروائی کے بعد جرمنی اسرائیل کو ہر ممکن دفاعی مدد فراہم کرنے کا پابند ہے اور یہ عہد اٹل ہے ''۔
چنانچہ جرمنی کے طول و عرض میں جگہ جگہ بل بورڈز اور بینرز نمودار ہو گئے جن پر درج تھا کہ جرمن پارلیمان اسرائیلی ریاست اور عوام کے شانہ بشانہ ہے۔جرمن فضائیہ کے سربراہ نے دہشت گردی سے نبردآزما اسرائیلی فوج کے لیے علامتی طور پر خون کا عطیہ دیا۔
جرمن وزیرِ خارجہ اینالینا بیربوک نے کھل کے کہا کہ جس جس کو بھی اسرائیل کے بارے میں جرمنی کے ریاستی موقف سے اختلاف ہے وہ اپنی پسند کا ملک چن سکتا ہے۔
اسرائیل کی '' معصومیت '' کے بارے میں سرکردہ اخبارات ، چینلز ، ویب سائٹس اور ریاستی بیانیہ ایک صفحے پر ہیں۔نسل کشی کی اصطلاح کا استعمال گناہِ کبیرہ ہے۔
اسرائیل کی حدود دریاِ اردن سے بحیرہ روم تک پھیلی ہوئی ہیں۔لہٰذا کسی ریلی یا سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر '' فرام ریور ٹو دی سی۔وی ڈیمانڈ ایکوالیٹی '' کا نعرہ اسرائیلیوں کی نسل کشی کی ترغیب سمجھ لیا گیا ہے اور اس ''جرم '' پر یہود دشمنی (اینٹی سمٹ ازم) کی فردِ جرم عائد ہو سکتی ہے۔ فلسطین کے تذکرے کا مطلب ہے کہ آپ دہشت گرد حماس کے حمائتی اور یہود دشمن ہیں ۔کفایہ (فلسطینی رومال ) سر پے یا گلے میں ڈال کے گھومنے کا مطلب ہے کہ آپ نہ صرف پولیس بلکہ دائیں بازو کے حامیوں کا بھی نشانہ بن سکتے ہیں۔
میڈیا میں نوے فیصد خبریں ''قابلِ اعتماد اسرائیلی ذرایع '' کے حوالے سے شایع ہوتی ہیں۔ اگر غزہ کے باشندوں کی کثیر تعداد میں ہلاکت کی خبر شایع یا نشر ہوتی بھی ہے تو کچھ یوں ہوتی ہے کہ '' دہشت گرد تنظیم حماس کی وزارتِ صحت کا دعویٰ ہے کہ جبالیہ پناہ گزین کیمپ پر اسرائیلی حملے میں ستائیس اموات ہوئی ہیں۔
اس تعداد کی آزاد ذرایع سے تصدیق نہیں ہو پائی۔ اسرائیلی فوج نے بھی اس واقعہ پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔اسرائیل نے حماس پر الزام لگایا ہے کہ وہ اقوامِ متحدہ کے تحت چلنے والے اسکولوں اور اسپتالوں میں اسلحہ جمع کرتی ہے ''۔
اسرائیل نواز جرمن ریاستی پالیسی دراصل اس قومی احساس ِ جرم سے پھوٹی ہے جس کے ڈانڈے دوسری عالمی جنگ کے دوران نازی جرمنی کے تحت قائم کنسنٹریشن کیمپوں سے جا ملتے ہیں جہاں ساٹھ لاکھ یہودیوں کو قتل کیا گیا۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جرمنوں کا یہ اجتماعی احساس ِ جرم اس قومی سوچ کو جنم دیتا کہ آیندہ اگر کہیں بھی اس طرح کی صنعتی پیمانے پر نسل کشی ہوئی تو جرمنی اس کی مخالفت و مزاحمت کرنے والے صفِ اول کے ممالک میں شامل ہو گا۔مگر اس احساس جرم کا الٹا نتیجہ نکلا۔جرمنی نے نسل کشی کے خلاف عالمی پرچارک بننے کے بجائے ایک اور نسل پرست نظریاتی (صیہونی) ریاست کی اندھی حمائیت میں ضمیر کے بوجھ سے نجات کا راستہ اپنایا۔
اسرائیل نے ''ہالوکاسٹ '' کے المیے کو اس چابک دستی سے استعمال کیا کہ جرمنی دائمی طور پر اپنے احساسِ جرم کے مداوے کے لیے غیر مشروط طور پر اسرائیلی ایجنڈہ ڈھونے کی سواری بن گیا۔یعنی یہ وہ اخلاقی قرض ہے جس کا سود اسے رہتی دنیا تک ادا کرنا ہے۔یوں اسرائیل نے جرمن احساسِ جرم کو ایک دودھ دینے والی گائے میں تبدیل کر دیا۔
انیس سو تریپن سے اب تک جرمنی اسرائیل کو دوسری عالمی جنگ کے دوران یہودی نسل کشی کے ہرجانے کے طور پر اسی ارب ڈالر کے مساوی رقم ادا کر چکا ہے۔اگرچہ جرمن قوانین کے مطابق کوئی بھی حکومت کسی بحران میں الجھی ریاست کو ہتھیار فراہم نہیں کر سکتی۔مگر اسرائیل اس قانون سے مستثنٰی ہے اور اس بارے میں اسرائیل کی ہر فرمائش پوری کی جاتی ہے۔
پانچ ماہ قبل ہی جرمنی نے اسرائیل کے ہائپر سونک میزائیل ڈیفنس پروگرام کے لیے تین اعشاریہ آٹھ بلین ڈالر کے مساوی امداد دینے کا اعلان کیا ہے۔اسرائیلی بحریہ جرمن ساختہ آبدوزیں استعمال کرتی ہے۔جرمنی بھاری ہتھیار ، فاضل پرزے اور اسلحہ سازی کی مقامی صنعت کے فروغ کے لیے معاونت و مشاورت فراہم کرتا ہے۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد سے اب تک ایک ہی جرمن چانسلر ہیلمٹ شمٹ گذرے ہیں جنھوں نے انیس سو ستر کی دہائی میں کھل کے کہا کہ فلسطینیوں کو ایک آزاد و خودمختار ریاست کی تشکیل کا حق حاصل ہے۔
انھوں نے اس وقت کے اسرائیلی وزیرِ اعظم مینہم بیگن کی جنگجویانہ و جارحانہ پالیسیوں کو عالمی امن کے لیے خطرہ قرار دیا۔ مینہم بیگن نے جوابی طعنہ دیا کہ کم ازکم جرمنوں کو اپنی نصیحت اپنے پاس ہی رکھنی چاہیے۔کیونکہ وولگا سے بحراوقیانوس کے ساحل تک چند برس پہلے جو یہودی خون بہایا گیا اس کے دھبے اب تک تازہ ہیں۔
انیس سو اکیاسی میں چانسلر شمٹ نے فلسطینی عوام کے جائز حقوق کی حمائیت کا اعادہ کرتے ہوئے سعودی عرب کو لیپرڈ ٹینک فروخت کرنے کا اعلان کیا۔
اس پر مینہم بیگن نے شدید ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ جرمنی نے یہودیوں کے ساتھ جو سلوک کیا اس کا قرض نسل در نسل چلتا رہے گا۔پوری جرمن قوم نازیوں کو سراہتی رہی اور اب وہ ان ہی کو ہتھیار دے رہے ہیں جو نازیوں کی طرح ہمارے خون کے پیاسے ہیں ۔ہیلمٹ شمٹ نے اس کے جواب میں کہا کہ جرمنی کو تا قیامت آشوٹز ( بدنامِ زمانہ نازی کنسنٹریشن کیمپ ) کا یرغمال نہیں بنایا جا سکتا۔
مگر ہیلمٹ شمٹ کے بعد آنے والی کوئی بھی جرمن حکومت اسرائیل کی ہولوکاسٹ کی یاد میں لتھڑی چھری اپنے گلے سے نہ ہٹا سکی۔ دو ہزار انیس میں جرمنی دنیا کا پہلا ملک بن گیا جس نے اسرائیل کے بائیکاٹ کی تحریک (بی ڈی ایس) کی حمائیت کو جرم قرار دے دیا۔چانسلر اینجلا مرکل نے یہ مشہور جملہ کہا کہ جرمن ریاست کا جواز اسرائیل کی حمایت سے مشروط ہے۔
سات اکتوبر کے بعد جرمن چانسلر اولاف شلز نے تل ابیب کا دورہ کرتے ہوئے کہا کہ تاریخی وجوہات ( ہولوکاسٹ ) کے سبب جرمنی کی ذمے داری ہے کہ وہ اسرائیل کے تحفظ اور بقا کے لیے ہمیشہ اس کے شانہ بشانہ کھڑا رہے۔
حال ہی میں تین سو کے لگ بھگ عالمی مصنفوں، اساتذہ ، صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے یاد دلایا کہ جرمنی اپنی اندھی اسرائیل نوازی کے سبب دراصل اسی نیو نازی انتہاسپند سوچ کی مدد کر رہا ہے کہ جس کی بیخ کنی موجودہ جرمن ریاست کا نصب العین ہے۔فلسطینیوں کے جائز حقوق کی بے ضرر حمائیت کو بھی برداشت نہ کرنا اور اس کی سزا کے طور پر یونیورسٹیوں ، میڈیا ہاؤسز ، ثقافتی اداروں اور سرکاری محکموں میں سے اس پالیسی کے مخالفین کو نکال باہر کرنا دراصل انتہا پسندی کی ہی ایک شکل ہے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)