الیکشن اور ما بعد

نئی حکومت کے لیے یہ ایک بڑا چیلنج ہوگا کہ تمام وفاقی اکائیوں کے درمیان ہم آہنگی اور اعتماد کے رشتے کو بحال کرے


خالد محمود رسول February 03, 2024

فیض احمد فیض کو گلہ تھااور شاید بجا بھی تھا ؛

نہ گل کھلے ہیں نہ ان سے ملے نہ مئے پی ہے

عجیب رنگ میں اب کے بہار گزری ہے

جنوں میں جتنی بھی گزری بکار گزری ہے

اگرچہ دل پہ خرابی ہزار گزری ہے

فیض احمد فیض کا گلہ ذاتی اور قلبی واردات تھی۔ جب کہ ہمارا حال یہ کہ انتخابات کی تاریخ طے ہونے اور بظاہر انتظامات کے باوجود ملک بھر میں یقین کی ہار بے یقینی کی دھند میں اترنے کے راستے ڈھونڈ رہی ہے۔

ملک کے دو صوبوں میں حالیہ ہفتوں کے دوران دہشت گردی کی متعدد وارداتیں ہوئیں۔ کئی انتخابی امیدوار اور معصوم شہری اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ مختلف سیاسی جماعتوں نے بار بار اپنے تحفظات کا اظہار بھی کیا۔سینیٹ میں قرارداد کے ذریعے اور جے یو آئی نے واشگاف انداز میں خراب موسم اور دہشت گردی کی بنا پر انتخابات کو موخر کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔

الیکشن کمیشن نے دو روز قبل ایک اعلیٰ سطح کا اجلاس منعقد کیا جس میں کے پی کے اور بلوچستان کے آئی جیز کو بالخصوص مدعو کیا۔اس پس منظر میں الیکشن کے التواء کی خبریں پوری شدت سے گردش کرنے لگیں۔ احباب میں سے کچھ ایک دوسرے سے تفنن طبع کی خاطر یا کافی لوگ مکمل سنجیدگی سے یہ سوال کرتے پائے گئے کہ الیکشن ہوں گے بھی یا نہیں!

دوسری جانب سیاسی میدان میں انتخابی گہما گہمی بالاخر ہفتے ڈیڑھ سے جلسوں کی حد تک زور پکڑ رہی ہے۔ میدان میں موجود دونوں مین اسٹریم پارٹیز یعنی نون لیگ اور پیپلز پارٹی نے جلسوں کی رونق لگائی ہے۔ منشور بھی پیش کر دیے گئے ہیں۔ تاہم جلسوں میں منشور سے کہیں زیادہ حسب معمول ایک دوسرے پر تنقید پر زور ہے۔

منشور کا ذکر صرف وعدہ افزائی کی حد تک ہے ورنہ جلسوں کی تقاریر کا تمام تر محور ایک دوسرے پر دشنام طرازی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری مصر ہیں کہ چوتھی بار وزیراعظم بننے کے امیدوار کے بجائے ایک نوجوان امیدوار منتخب کیا جائے۔ نون لیگ کے جلسوں میں تمام لیڈرشپ کا رخ اس ایک پارٹی کی طرف ہے جس کے پاس نہ نشان موجود ہے اور نہ ہی وہ بطور پارٹی انتخاب میں ہے۔ اس کے امیدوار آزاد حیثیت میں الیکشن لڑ رہے ہیں۔

اس جماعت کے بانی اس ہفتے دو مقدمات میں بھاری سزا پا چکے لیکن اس کے باوجود نون لیگ کی تمام لیڈرشپ کا روئے سخن اسی ایک شخص اور ایک جماعت کی طرف ہے۔دو دن قبل الیکشن کمیشن کے اعلیٰ سطح کے اجلاس کے بعد حتمی اعلان یہی ہے کہ انتخابات ہر صورت اپنے وقت پر منعقد ہوں گے۔

وقت کی قلت، خراب موسم کے پیش نظر دور دراز علاقوں میں فضائی سہولتوں کے ذریعے انتخابی سامان پہنچایا جائے گا۔کور کمانڈرز کانفرنس کی جانب سے اعلامیہ بڑا واضح تھا کہ امن و امان کی صورتحال کے لیے تمام تر ریاستی انتظامات طے ہیں۔ یوں بظاہر یقین کا موسم اترنے کے اسباب بن رہے ہیں۔

الیکشن کے نتائج کیا ہوں گے؟ اس پر بحث و تمحیص زور شور سے جاری ہے۔ ایک سوال کے جواب میں الیکشن کمیشن نے یہ بھی واضح کیا کہ آزاد امیدوار اپنا وزیراعظم منتخب کر سکتے ہیں اگر ایوان میں انھیں عددی اکثریت حاصل ہو۔ جس طرح بے یقینی اب تک چھائی رہی ہے اس کے پیش نظر انتخابات کی کریڈیبلٹی کے بارے میں سوالات اپنی جگہ ہیں۔

2018میں عین الیکشن کی شام آر ٹی ایس بیٹھ جانے کی وجہ سے انتخابات کے نتائج کے بارے میں شبہات آج تک تعاقب کر رہے ہیں۔ 2024 کے انتخابات میں ووٹرز کا ٹرن آؤٹ جو بھی ہو، نتائج کی ورکنگ بالکل شفاف ہونی چاہیے تاکہ ان انتخابات کی کریڈیبلٹی قائم ہو سکے۔ انتخابی نتائج کی کریڈیبلٹی سیاسی نظام اور ان انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آنے والی حکومت کے لیے بھی بہت ضروری ہے۔

انتخابات کے بعد حکومت کے نین نقش کیا ہوں گے؟ اس پر جتنی زبانیں اتنے بول ، جتنی خواہشیں اتنے ہی خواہشوں کے گھوڑے، تاہم جس سیاسی ماحول میں انتخابات ہو رہے ہیں کوئی ایک بھی سیاسی پارٹی شاید ہی سادہ اکثریت حاصل کر پائے۔ اگر مخلوط حکومت بنی تو ملک کو درپیش معاشی ،انتظامی اور سیاسی چیلنجز کو نمٹنا آسان نہیں ہوگا۔ گلگت بلتستان میں پچھلے تین ہفتوں سے گندم کی قیمت بڑھائے جانے پر دھرنا دیا جا رہا تھا۔

مقامی حکومت نے بالآخر مظاہرین کے مطالبے کے آگے سر تسلیم خم کیا اور دھرنا مظاہرین منتشر ہوئے۔ مین اسٹریم اور سوشل میڈیا الیکشن کی ہاہا کار میں اتنا مصروف رہا کہ یہ اہم خبر کم ہی جگہ اور توجہ پا سکی۔

اسی طرح بلوچستان میں امن عامہ کے مسائل تشویش ناک حد تک بڑھے ہیں۔ حالیہ دنوں میں ایران اور پاکستان کے درمیان سرحدی تناؤ نے معاملات کو مزید الجھایا۔ وہ تو شکر ہے کہ دونوں ممالک نے تدبر اور تحمل سے معاملات کو بروقت سنبھال لیا۔ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا مسئلہ اپنی جگہ توجہ طلب اور حل طلب ہے۔

نئی حکومت کے لیے یہ ایک بڑا چیلنج ہوگا کہ تمام وفاقی اکائیوں کے درمیان ہم آہنگی اور اعتماد کے رشتے کو بحال کرے۔ ماضی کی طرح چند علاقائی سیاسی کرداروں سے معاملات طے کرنے اور انھیں انتظامی اور مالیاتی مفادات پہنچا کر اصل عوامی مسائل اور غم و غصہ ختم ہونے کے نہیں۔نئی حکومت کو دوسرا بڑا چیلنج معاشی میدان میں ہوگا۔

گزشتہ دو سال سے پاکستان کی معاشی کیفیت دگرگوں اور بے یقینی کا شکار ہے۔ شرح مبادلہ بار بار کمزور ہونے کے بعد پچھلے کئی ماہ سے منظم طریقے سے کنٹرول کی جا رہی ہے۔

برآمدات میں معمولی سا اضافہ ہوا ہے، تجارتی خسارہ تمام سرکاری کوششوں کے بعد بمشکل کنٹرول کیا جا رہا ہے تاکہ آئی ایم ایف کا اگلا ریویو کامیاب ہو سکے۔ نئی حکومت کے سامنے سب سے پہلا معاشی چیلنج آئی ایم ایف کے ساتھ ایک نئے پروگرام کا حصول ہوگا۔ اس پروگرام کی شرائط حسب معمول آسان نہیں ہوں گی۔ آئی ایم ایف کے ساتھ ان سخت شرائط کے ساتھ حکومت کا دوسرا بڑا چیلنج صنعتی جمود کو توڑنا اور روزگار کے مواقع پیدا کرنا ہے۔

اب تک کا سیاسی نظام رئیل اسٹیٹ اور سرکاری سرپرستی کی صورت میں معیشت کو چلانے پر استوار رہا ہے، جس کے نتیجے میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب بہت کم رہا جب کہ بجٹ خسارہ ہمیشہ بڑھتا رہا۔اس لیے ماضی کے سرپرستانہ سیاسی طور اطوار اور شاہانہ انداز میں سیاسی حلیفوں کو نوازنے، نوکریاں بانٹنے اور دکھاوے کے انفرااسٹرکچر پروجیکٹ کی عیاشی اب ممکن نہیں ہوگی۔

ملکی معیشت کو نئی ڈگر پر ڈالنے کے سوا چارہ کار نہیں لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کے عالی دماغوں کے پاس ماضی کے آزمودہ نسخوں کے علاوہ نئے نسخے موجود نہیں ، اور نہ ہی اپنے طریق بدلنے کی ان کے ہاں کوئی مجبوری یا خواہش ہے۔ ایسی صورت میں معیشت لشٹم پشٹم اگر پرانی ڈگر پر چلتی رہی تو وقت گزارا تو ضرور ہوگا لیکن معیشت اور گورننس میں کسی انقلابی تبدیلی کی توقع عبث ہے۔

اب تجزیے اور اندیشے رہے ایک طرف، انتخاب کا میدان بھی سامنے ہے اور انتخابی گھوڑے بھی... دیکھیے اور اپنا ووٹ ضرور ڈالیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں