حیدر آباد مفادات کا مارا ہوا شہر…
پدرم سلطان بود کی کہانی آپ کو کیا سناؤں اس شہر کی تمام ’’خوبصورتیاں‘‘ اور ’’حسن‘‘ میرے سینے میں بذریعہ چشم محفوظ ہیں
ملک کے شہروں کی درجہ بندی جس طرح بھی ہو، جو شخص جس شہر میں رہتا ہے اور اسے اس شہر سے جذباتی لگاؤ ہے۔ وہ شہر اس کے لیے اول نمبر ہی رہتا ہے۔ یہ پاکستانی نہیں بین الاقوامی تصور ہے۔ میں بھی ایک شہر میں رہتا ہوں جو پہلے پاکستان کا تیسرا اس کے بعد، نمبر بدلتا ہے کیونکہ اس شہر کے ساتھ انصاف نہیں ہوا۔ چھوٹے شہر ترقی کر کے اگلے نمبروں پر چلے گئے اور یہ بڑا شہر ان ''وجوہات'' کی بنا پر جن پر میں گفتگو نہیں کرنا چاہتا اپنے نمبر کھوتا چلا گیا۔ آج نہ جانے کون سے نمبر پر ہے اس کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ میں نے گورنمنٹ ہائی اسکول سوسائٹی حیدرآباد سے میٹرک پاس کیا سندھ یونیورسٹی نے میٹرک کا سرٹیفکیٹ دیا۔
اس وقت اس اسکول کے سامنے ایک خوبصورت گول باغیچہ تھا جس میں ہری بھری گھاس اور پھول پودے تھے۔ اس وقت یہ بات 50 سے 59 تک کے سالوں کی ہے۔ حیدر آباد کی سڑکوں پر صبح میونسپل کمیٹی کے سقے پانی ڈالتے اور خاکروب انھیں دھویا کرتے تھے۔ یہ میری زندگی کی داستان کا ایک حصہ ہے۔ نالیاں بہت تنگ تھیں مگر روزانہ یہی سقے اور خاکروب ان کو نہایت تندہی سے صاف کرتے تھے اور صرافہ بازار شاہی بازار حیدر آباد میں دکانوں کے نیچے یہ نالیاں سرعت کے ساتھ بہتی تھیں۔ وہ باغیچہ جس کا ذکر میں نے ابھی کیا سب سے پہلے اس کو نظر لگی۔ کسی بد ذوق نے وہاں ''گول بلڈنگ'' کا فیصلہ کیا اور نتیجہ یہ ہوا کہ اس خوبصورت جگہ ایک بدصورت عمارت راستہ روک کر کھڑی ہو گئی۔ آج بھی کھڑی ہے۔
ٹھنڈی سڑک پر اب درخت نظر آنے کے آثار ہو گئے ہیں اور ایک بار پھر شاید وہ ٹھنڈی سڑک بن جائے جس کے دو رویہ ''گولر'' کے درخت تھے جن کی چھاؤں میں آدھا حیدر آباد دوپہر گزارتا تھا۔ یونیورسٹی کی رونقیں تو جام شورو یونیورسٹی منتقل ہونے کے بعد ہی ماند پڑ گئی تھیں اور اب تک بحال نہیں ہو سکیں۔ بات صرف شہر کی خوبصورتی کی ہے اور اس میں ''لوگ'' بھی خوبصورتی کا ایک حصہ ہوتے ہیں۔ وہ خوبصورتی اب غائب ہو گئی۔ ایک عرصے سے یہ عمارت اپنے ان خوبصورت لوگوں کا انتظار کر رہی ہے۔ شاہراہیں جو بہت قاعدے اور قانون کے تحت تھیں اب ''بیوہ کی مانگ'' کی طرح بکھر چکی ہیں۔ اس کا نام لاہور ہوتا تو شاید یہ بھی ترقی کر جاتا۔ اس کے بھی مسائل حل ہو جاتے پر یہ تو محض ایک جملہ معترضہ ہے۔
اس کی شکایت تو ہم اپنے لوگوں سے کریں گے بھلا وزیر اعلیٰ پنجاب تو یہاں کے مسائل حل نہیں کریں گے۔ شہر کا حال لکھوں تو صفحات درکار ہیں اور اتنے صفحات تو اس اخبار کے پاس بھی نہیں ہوں گے جہاں آپ مجھے پڑھ رہے ہیں۔ شہر کے ساتھ یہ سلوک تو شہر کے ذمے داروں نے کیا ہے۔ ایک زمانہ ایسا آیا جب سندھ کی دوسری بڑی سیاسی پارٹی کے میئر کراچی حیدر آباد میں رہے تو حیدر آباد کے حصے میں بھی کچھ پارک، دو فلائی اوور آ گئے۔ ڈرینج سسٹم بہتر ہو گیا اور وہ بھی پچاس سال کے بعد۔ اور اس کے بعد پھر وہی خاموشی۔ اور اس بار خاموشی بہت ہولناک ہے۔ بے حسی اور بے رحمی کا دور دورہ ہے۔ سڑکیں ''موئن جو دڑو'' کی سڑکیں لگ رہی ہیں، شاید وہاں اچھی ہوں گی زندہ لوگوں کا شہر۔ مردہ پرستی کا احوال سنا رہا ہے۔
پدرم سلطان بود کی کہانی آپ کو کیا سناؤں اس شہر کی تمام ''خوبصورتیاں'' اور ''حسن'' میرے سینے میں بذریعہ چشم محفوظ ہیں۔ میں خود اس شہر کی تاریخ کا ایک چشم دید گواہ ہوں۔ مگر ایف آئی آر کس کے خلاف لکھواؤں۔ سب میرے ہیں، سب ایک گھر کے ''بھائی'' ہیں۔ کسی کی طرف ایک انگلی اٹھاؤں تو تین انگلیاں خود میری طرف اٹھ جاتی ہیں۔ بہت افسوس ہوتا ہے۔ پاکستان میں سیاست کا مطلب ''کچھ'' کا آرام ''باقی'' کی ''مصیبت'' لگتا ہے اور اس میں کم یا زیادہ سارے ہی لوگ ساتھ ساتھ نظر آتے ہیں چاہے تعلق کسی جماعت سے ہو۔ انصاف کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا جا سکتا۔ سچ بولنا پڑے گا۔ ہر قیمت پر اور سچ کی قیمت میں جانتا ہوں۔
بھولے بادشاہ ہمارے وزیر اعلیٰ صاحب نے شکوہ کیا ہے کہ 11 ترقیاتی منصوبے سندھ کے وفاق نے اگلے بجٹ میں سے نکال دیے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ سندھ اسلام آباد کے لیے سندھ سے پانی کی کٹوتی چاہتا ہے اور دوسرے مطالبوں کے علاوہ ۔۔۔۔کیا کہوں کوٹری کے پل کے نیچے دریا سسکیاں لے رہا ہے۔ اور اسلام آباد کو سندھ سے پانی چاہیے یہاں تک تو شاہ صاحب نے ٹھیک کہا کہ آپ پیاسوں سے پانی مانگ رہے ہیں۔ مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں احتجاج کے باوجود شاہ صاحب کہتے ہیں کہ ہماری بات نہیں سنی گئی۔ سندھ کے عوام وفاق سے ناراض ہیں۔
بلوچستان کے بعد پہلی بار یہ لفظ کسی دوسرے صوبے کے لیے سنا ہے میں نے اپنی پوری زندگی میں۔ اور وہ ہے سندھ۔ مگر شاہ صاحب ایک سوال آپ سے کرتے ہیں حیدر آباد کی گئی گزری خوبصورتی کے صدقے کہ آپ پھر اس اجلاس میں شریک کیوں رہے۔ واک آؤٹ کرتے تو آپ کے صوبے کے عوام آپ کی بات کو مزید توجہ دیتے اور آپ کو عوامی طاقت عوامی مسائل کے حل کے لیے مل جاتی ہر چند کہ آپ کو اس کی ضرورت نہیں ہے ۔ آپ تو پہلے ہی بہت طاقتور صوبائی مینڈیٹ کے مالک ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا ہے کہ آیندہ سندھ کے دورے پر سندھ کی بات سنوں گا۔ کمال ہے ہمارے مرنے جینے کی باتیں وہ ''موقعہ وصال'' پر سنیں گے۔
''خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک'' بجٹ آچکا۔ کہانی ختم اب اگلے بجٹ میں دیکھیں گے۔ بڑے بھولے بادشاہ سید قائم علی شاہ صاحب۔ مگر یہ بات اس طرح نہیں ہے ایک اور شاہ صاحب مسلسل حکومت کے ہاتھ مضبوط کر رہے ہیں سکھر والے کہ آپ حکومت کریں ہم آپ کے ساتھ ہیں ہم آپ کو گرنے نہیں دیں گے۔ شاید وہ یہ کہنا چاہتے ہیں میری ناقص رائے میں جس پر میں پیشگی معذرت خواہ ہوں کہ
''آپ نے ہمیں نہیں گرنے دیا''۔۔۔۔
''ہم آپ کو نہیں گرنے دیں گے''۔۔۔۔۔
''ہم ایک دوسرے کا سہارا بنیں گے''