جمہوری اقدارکی بحالی
غیر مستحکم جمہوریت کے باعث ملک کو بیک وقت کئی خطرات لاحق ہوجاتے ہیں
اس وقت دنیا کے حالات انتہائی سنگین ہوتے جا رہے ہیں۔ اسرائیل نے جو جنگ چھیڑدی ہے، اس میں مشرق وسطیٰ جل رہا ہے۔ اس وقت ہمارے ملک کے حالات غیر تسلی بخش ہیں۔
غیر مستحکم جمہوریت کے باعث ملک کو بیک وقت کئی خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔اندرونی خلفشار اور بیرونی حالات ملک کی سالمیت کو نقصان پہنچاسکتے ہیں، سرحدوں پر حالات کشیدہ ہیں۔ ایران کے حملے کے بعد مزید خطرات منڈ لانے لگے ہیں۔ ملک کے استحکام کے لیے مضبوط جمہوریت اور واضح خارجہ پالیسی کا ہونا اشد ضروری ہے۔
پاکستان کی جغرافیائی اہمیت کے پیش نظر یہ خطہ ہمیشہ سے بیرون دنیا کے لیے پرکشش رہا ہے۔ ناقص جمہوریت کی جڑیں اکثر مختلف مسائل سے جڑی ہوتی ہیں جو مضبوط اور جامع سیاسی نظام کے قیام میں رکاوٹ بنتی ہیں۔ ایک اہم وجہ بدعنوانی کا پھیلاؤ ہے، جہاں سیاسی رہنما، عوامی فلاح و بہبود پر ذاتی فائدے کو ترجیح دیتے ہیں، جس سے اداروں پر اعتماد ختم ہوتا ہے اور جمہوری عمل کو نقصان پہنچتا ہے۔
مزید برآں، کمزور ادارے اور قانون کی حکمرانی کا فقدان ناقص جمہوریت کی وجہ بنتا ہے۔ ناکافی قانونی ڈھانچہ، غیر موثر قانون کا نفاذ اور جوڑ توڑکے لیے حساس عدالتی نظام جمہوری اصولوں میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ یہ طاقت اور وسائل کی غیر مساوی تقسیم کا باعث بنتا ہے، سماجی اور اقتصادی تفاوت کو برقرار رکھتا ہے۔
آزادی اظہار اور سیاسی مخالفت کو دبانے سے جمہوری اقدار متاثر ہوتے ہیں۔ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے کثیر جہتی نقطہ نظرکی ضرورت ہے۔ شفافیت اور احتساب کی اصلاحات کے ذریعے اداروں کو مضبوط بنانا بہت ضروری ہے، جس میں قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے کے لیے مضبوط قانونی حکمت عملی،آزاد عدلیہ اور موثر قانون نافذکرنا شامل ہے۔ شہریوں کو جمہوری عمل میں فعال طور پر حصہ لینے کے لیے بااختیار بنانے کے لیے تعلیم اور میڈیا کی خواندگی پر دھیان دینا بہت ضروری ہے۔
بدعنوانی کے خاتمے کی کوششوں میں انسداد بدعنوانی کے اقدامات کا نفاذ، دیانتداری کے کلچرکو فروغ دینا اور بدعنوان افراد کو جوابدہ ٹھہرانا شامل ہے۔ بین الاقوامی تعاون اور جمہوری اقدامات کے لیے حمایت بھی اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ اس کے علاوہ تکنیکی مدد فراہم کرنا، اچھی حکمرانی کے طریقوں کو فروغ دینا اور انسانی حقوق کی وکالت، زیادہ لچکدار جمہوری بنیاد کی تعمیر میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔
جمہوریت ایک ایسا نظام حکومت ہے، جہاں طاقت براہ راست یا منتخب نمایندوں کے ذریعے عوام کے ہاتھ میں ہوتی ہے، جس سے شہریوں کو فیصلہ سازی کے عمل میں حصہ لینے اور قوانین اور پالیسیوں کی تشکیل پر اثر انداز ہونے کے مواقعے ملتے ہیں۔ پاکستان میں حقیقی جمہوریت کی بحالی میں کئی مسائل درپیش ہیں۔ جمہوری استحکام کے لیے سیاسی، ادارہ جاتی اور سماجی جہتوں پر مشتمل کثیر جہتی نقطہ نظر بہت ضروری ہے۔
موجودہ حالات کے پیش نظرسب سے پہلے منصفانہ نمایندگی کو یقینی بنانے کے لیے انتخابی اصلاحات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ شفاف اور جوابدہ ووٹنگ کے نظام کو نافذکرنا، ابہام کو ختم کرنا اور ووٹرکو ڈرانے دھمکانے جیسے مسائل کو حل کرنا انتخابات کے لیے ضروری ہے۔
جمہوری اداروں کا مضبوط ہونا بہت ضروری ہے۔ اس میں عدلیہ کی آزادی، الیکشن کمیشن کی خود مختاری اور پارلیمنٹ کے کردارکو تقویت دینا شامل ہے۔ چیک اینڈ بیلنس کی پالیسی طاقت کے اثرکو روک سکتی ہے، جس سے زیادہ مضبوط جمہوری فریم ورک کو فروغ ملے گا۔
مزید برآں، متنوع سیاسی شرکت کی حوصلہ افزائی، اقلیتی گروہوں کے حقوق کا تحفظ اور ایسے ماحول کو فروغ دینا جہاں اختلاف رائے کو برداشت کیا جائے، ایک صحت مند جمہوری رویوںکو فروغ دیتے ہیں، جس کے لیے قانونی تحفظات اور بیداری مہم دونوں کی ضرورت ہے۔
میڈیا رائے عامہ کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتا ہے، میڈیا کی آزادی جمہوریت کے فروغ میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ صحافیوں کے حقوق کا تحفظ، ادارتی آزادی کو یقینی بنانا اور غلط معلومات کا مقابلہ کرنے سے جمہوری رویے مستحکم ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں سماجی و اقتصادی تفاوت کو دورکرنا بہت ضروری ہے۔
وسائل اور مواقع کی زیادہ منصفانہ تقسیم اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ معاشرے کے تمام طبقات جمہوری عمل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے سکیں۔ تعلیم اورآگاہی کے پروگرام شہریوں کو باخبر فیصلے کرنے کے لیے بااختیار بناسکتے ہیں۔ حکومت کو جوابدہ بنانے میں سول سوسائٹی کا اہم کردار ہوتا ہے۔
سول سوسائٹی حکومتی طاقت پر نظر رکھنے، شہریوں کے مفادات کی وکالت اور شہری مفادات و فروغ دے کر جمہوریت میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اس میں غیر سرکاری تنظیمیں،کمیونٹی گروپس اور وہ افراد شامل ہیں جو متحرک اور جوابدہ جمہوری نظام میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔
سول سوسائٹی شفافیت کو فروغ دیتی ہے، حکومتی اقدامات کی نگرانی کرتی ہے اور شہریوں اور حکمت عملی جوڑنے والوں کے درمیان مکالمے کی سہولت فراہم کرتی ہے، جس سے جمہوری معاشرے کی مجموعی فعالیت میں اضافہ ہوتا ہے، لٰہذا سول سوسائٹی کو آگے بڑھ کر جمہوری اقدارکی بحالی کے لیے اپنا کردار سچائی کے ساتھ ادا کرنا چاہیے۔
مربوط جمہوری نظام کے استحکام کی خاطر، سیاستدانوںکو اپنے رویوں میں بہتری لانے کی اشد ضرورت ہے، جس میں انھیں ایک موثر، مثبت اور فعال موقف کی تائید کے ساتھ، رواداری اور مصالحتی رویے اپنانے ہونگے۔ تنقید برائے تنقید کے بجائے منطقی اور اصلاحی تنقید کے گر سیکھنے ہونگے جو عوامی زندگی کی بہتری میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
یہ ایک طے شدہ امر ہے کہ پاکستانی سیاست میں عوام کا ذکرکم ملتا ہے، حالانکہ جمہوریت کی ساخت عوام کی زندگی کی بہتری، فلاحی رویوں اور انصاف کے ارد گرد گھومتی ہے۔ جمہوریت میں سوچ کے نئے تناظر کی تلاش جیسے شہریوں کی شمولیت، شفافیت اور ووٹنگ کے مربوط طریقے، جمہوری نظام کو بہتر بناسکتے ہیں۔
ناقص جمہوریت کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے بدعنوانی سے نمٹنے، اداروں کو مضبوط کرنے، تعلیم اور بین الاقوامی تعاون کو فروغ دینے کے لیے جامع کوششوں کی ضرورت ہے۔ ان مسائل سے نمٹ کر مزید جامع اور موثر جمہوری نظام کے لیے راہ ہموارکی جاسکتی ہے۔