امریکی تارکین وطن…اور پاکستانی
نیو یارک شہر کے اہم علاقے مین ھیٹن میں اب بھی بعض لوگ سٹرکوں پر پھینکی ہوئی غذا اٹھا کر اپنا پیٹ بھرتے نظر آتے ہیں
گزشتہ چند دہائیوں سے امریکا نے عالمی منظر نامے میں جو مقام حاصل کیا ہے وہ دنیا بھر کے دانشوروں اور ماہرین سیاسیات کے لیے تحقیق طلب ہے۔
ایک طبقہ فکرامریکا کو مسلسل تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے تو دوسرا مکتبہ فکر امریکا سے اس قدر مرغوب ہو چکا ہے کہ وہ اس کے گن ہی گائے چلا جا رہا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ امریکا نے یہ پوزیشن کیسے حاصل کی۔
امریکا کی ترقی کا راز کسی کی نظر میں سائنس اور ٹیکنالوجی میں مہارت ہے تو کسی کی نظر میں وہاں کا مضبوط معاشی نظام ہے۔ کوئی اس کا کریڈٹ امریکا کے سیاسی نظام اور جمہوری رویوں کو دیتا ہے تو کوئی اسے امریکی فوجی طاقت کا مرہون منت قرار دیتا ہے ۔
اس حوالے سے میں نے جو مشاہدہ کیا اور لوگوں سے تبادلہ خیال ہوا اس کے مطابق امریکا کی ترقی اور دنیا پر حاوی ہونے کا راز دو عوامل میں پوشیدہ ہے۔ ایک تارکین وطن اور دوسرا وہاں کا تعلیمی نظام، اگر ہم امریکا کی دو سو سالہ تاریخ کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ امریکا کو LAND OF IMMIGRANTSیعنی تارکین وطن کی سرزمین کہا جاتا ہے۔
یہ بات ایک تاریخی حقیقت ہے کہ دنیا بھر سے لوگ نقل مکانی کر کے امریکا میں آباد ہوئے اور انھوں نے اس خطے کی ترقی کے لیے اپنی صلاحیتوں کو استعمال کیا۔امریکا کے تعلیمی نظام کے مقاصد اور اس کی بنیادوں پر آگے چل کر بات ہو گی۔ اس وقت تارکین وطن کے حوالے سے بات کرنی ہے تو امریکی امیگریشن کی جانب سے جاری کیے جانے والے سروے کے مطابق یورپ، افریقہ اور ایشیا سے کروڑوں افراد امیگریشن یا سیاسی پناہ حاصل کرنے کے لیے امریکا آئے اور پھر یہاں ہی کے ہو رہے۔اس وقت امریکا کی آبادی 33کروڑ سے زائد ہے۔
یاد رہے کہ پاکستان کی آبادی اس وقت تقریبا ساڑھے 24 کروڑ ہے۔ اس تقابل سے باآسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں بڑھتی ہوئی آبادی کس قدر مسائل کا باعث بن رہی ہے جب کہ دوسری طرف امریکا اپنی آبادی کے تناسب میں توازن رکھے ہوئے ہے۔
پاکستان کی آبادی ڈھائی فیصد سالانہ کے حساب سے بڑھ رہی ہے،جب کہ امریکا کی آبادی ایک فیصد سالانہ کے حساب سے بڑھ رہی ہے۔دوسری طرف امریکا میں تارکین وطن کی کل تعداد 17کروڑ سے زائد ہے اور اس تعداد میں ہر سال ڈیڑھ کروڑ کا اضافہ ہو رہا ہے۔
امریکا میں رجسٹرڈ پاکستانی تارکین وطن کی تعداد ساڑھے پانچ لاکھ سے زائد ہے جب کہ غیر رجسٹرڈ شدہ تارکین وطن کو ملا کر پاکستانیوں کی تعداد 10 لاکھ سے بھی زائد تصور کی جاتی ہے۔ پاکستانیوں کی زیادہ تعداد نیویارک واشنگٹن، ہوسٹن، شگاگو، ڈیلس، لاس اینجلس، سان فرانسسکو، بالٹی مور، فلاڈیلفیا اور ایٹلانٹا میں مقیم ہیں۔
اتنی بڑی آبادی، مختلف النسل اور علاقے کے لوگوں کو محض کسی قانون کے نفاذ یا انتظامی حکم کے ذریعے نہ تو حب الوطن بنایا جا سکتا ہے اور نہ ہی ان کی صلاحیتوں کو تعمیر وطن کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ حب الوطنی اور تعمیر وطن کے جذبے کو انسان کی شخصیت اور رویوں میں سمویا جاتا ہے اور یہ کام ماں کی گود (تربیت) کر سکتی ہے یا پھر اساتذہ (تعلیمی نظام)۔
امریکا میں قیام کے دوران میں جن پاکستانی تارکین وطن سے ملا میں نے اکثر ان کو امریکا کا مطیع پایا۔ پاکستانی تارکین وطن کا اگر مسئلہ ہے تو صرف یہ کہ وہ اپنے جوان بچوں کی شادیوں کے لیے مشکلات کا شکار ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی ترجیحی مشکل اور کوئی نہیں۔ اسلامی روایات اور پاکستانی کلچر کے مطابق انھیں رشتوں کے حصول میں دقت ہے باقی کسی اور معاملے میں انھیں شکایت نہیں۔
ان لوگوں کا کہنا ہے کہ ہم جتنی محنت کرتے ہیں اس تناسب سے ہمیں معاوضہ حاصل ہوتا ہے اور ہمارے لیے ترقی کے مساوی مواقع موجود ہیں۔
امریکا کے دورے میں بھی کئی ممتاز پاکستانیوں سے ملاقات ہوئی۔اٹلانٹا میں ایک پاکستانی شاہد ملک سے بھی ملاقات ہوئی ۔انھوں نے اپنی محنت کی بدولت مثالی ترقی کی ہے ۔ شاہد ملک کا تعلق پاکستان کے ضلع جھنگ سے ہے۔ انھوں نے دس سال پہلے اٹلانٹا میں ٹیکسی چلانا شروع کی ۔ان کی نیک نیتی کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان کے کام میں برکت دی ۔ اس وقت ان کی کمپنی کا شمار ریاست جارجیا کی چند بڑی سیاحتی ٹرانسپورٹ کمپنیوں میں ہوتا ہے۔
AROUND TOWNکے نام سے چلنے والی ان کی سیاحتی کمپنی کی کئی بسیں اور ٹورسٹ ویگنیں ریاست میں رواں دواں نظر آتی ہیں۔ بڑی تعداد میں امریکی او ر پاکستانی اس کمپنی میں ملازمت کر رہے ہیں۔ اٹلانٹا ائر پورٹ پر بھی AROUND TOWNکے دفاتر اور سروس موجود ہے۔تمام تر ترقی کے با وجود امریکا میں 12 فیصد لوگ اب بھی غربت کی لکیرPOVERTY LINEسے نیچے کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔
نیو یارک شہر کے اہم علاقے مین ھیٹن میں اب بھی بعض لوگ سٹرکوں پر پھینکی ہوئی غذا اٹھا کر اپنا پیٹ بھرتے نظر آتے ہیں۔لاس اینجلس شہر کے ایک مخصوص علاقے میں بھی میں نے ایسی آبادی دیکھی ہے جہاں لوگ کراچی کی کچی آبادیوں کی طرح زندگی بسر کرتے نظر آئے۔