انتخابات کا کھیل

پاکستان کے انتخابی کلچرل اور عوامی توقعات میں تضاد کی کہانی


تحریم قاضی February 04, 2024
پاکستان کے انتخابی کلچرل اور عوامی توقعات میں تضاد کی کہانی ۔ فوٹو : فائل

ملک خدادار میں عام انتخابات اس وقت سر پر ہیں ۔ ہر جانب گہما گہمی ہے۔ کوئی کاغذات مسترد ہونے پر افسردہ ہے تو کوئی پہچان چھن جانے پر۔ کسی کو لیول پلنگ کے بجائے ''پلینگ'' فیلڈ مل جانے نے مسرور کر رکھا ہے۔ کوئی اپنی ''بل'' سے باہر نکل کر شکار کو بے قرار ہے اور کوئی بیساکھیوں سے جڑ کر سہارا پانے کو ہلکان ہو رہا ہے۔

گو حشر کا سا سماں ہے جہاں نفسا نفسی کا عالم ہو۔ہر کوئی اپنی لٹیا ڈوبنے سے بچانا چاہتا ہے پر ملک کا کیا،،، ارے یہ الیکشن تو ملک کے مستقبل اور عوام کے آنے والے کل کو بہتر بنانے کے لئے ہونے جارہے ہیں نا؟ کیا واقعی یہ مقصد انتخابات کے عمل کو متاثر کرتا ہے؟ ایسے بہت سے سوالات قارئین کے ذہنوں میں جنم لیتے ہیں ۔ چلیں آج کچھ تلخ و شیریں حقائق پر روشنی ڈالتے ہیںا ور جانتے ہیںکہ آخر انتخابات کیوں کرائے جاتے ہیں۔

الیکشن کا یہ تصور صدیوں پرانا ہے جس میںایک طے شدہ نظام میں ووٹ کے ذریعے کسی کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ اس کی جڑیں جمہوریت کے تصور میں ہیں۔ یوں تو اقبال نے کہہ رکھا ہے کہ

جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے

مگر یہاں عوام کی رائے کو جانچنے کا معیار ووٹ ہے۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر ایک ملک میں انتخابات کی ضرورت کیونکر محسوس ہوتی ہے۔کسی ملک کے نظام حکومت کو چلانے کے لئے کسی سربراہ کی ضرورت ہوتی ہے اور جمہوری معاشروں میں یہ سربراہ چننے کا حق عوام کو دیا جاتا ہے ۔

عوام اپنے ووٹ سے یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ انھیں کس لیڈر کو چننا ہے۔جہوریت میں عمومی طورپر دو طرح کے نظام حکومت رائج ہیں پارلیمانی اور صدراتی۔ پالیمانی نظام میں عوام کے منتخب نمائندے اپنے سربراہ حکومت کا انتخاب کرتے ہیں جبکہ صدارتی نظام میں عوام کے پاس یہ حق بلاواسطہ ہوتا ہے۔

پاکستان میں اس وقت پارلیمانی نظام ِ حکومت رائج ہے اور پالیمنٹ ایوان بالا (سینٹ)اور ایوان زیریں(قومی اسمبلی) پر مشتمل ہے۔معزز ایوانوں میں بیٹھے نمائندوں کا اصل مقصد عوامی مشکلات اور مسائل کو بڑے کینوس پر اجاگر کر نا اور ملک و قوم کے بہتر مستقبل کے لئے قانون سازی کر نا ہے۔ اس قانون پر عمل درآمد کرانا انتظامیہ اور عدلیہ کی ذمہ داری ہے۔ ملک کی حفاظت اور سرحدوں کے رکھوالی پاکستان کی فوج کے ذمہ ہے۔

تو واپس آتے ہیں کہ ملک میں ہونے والے عام انتخابات کیا ہیں اور کیوں ہونے جا رہے ہیں۔عام انتخابات سے مراد ایسے انتخابات ہیں جن میں پورے ملک کی تمام نشتوں پر نئے انتخابات کرائے جاتے ہیں اور ارکان نئے سرے سے منتخب ہوتے ہیں ۔ عام انتخابات کے نتیجے میں ایوان تک پہنچنے والے ارکان کی اولین ذمہ داری ملک کو قوم کے بہتر مستقبل کے لئے قانون سازی اور پالیسی سازی کرنا ہوتی ہے۔ لیکن یہاں الٹی گنگا بہتی ہے۔

انتخابات کے موقع پر سیاستدان عوام میں گھل مل جاتے ہیںاور وہ عوام کا ہر مسئلہ حل کروانے کو تیار نظر آتے ہیں۔ کیا کریں ووٹوں سے جیت کی اشتہا ہی ایسی ہے کہ وہ کچھ بھی کرنے پر آمادہ ہونے کا ڈھونگ رچانے میں مضائقہ نہیں سمجھتے۔ امیدوار عوام کی محرومیوںا ور ذہنی افلاس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انھیں جذباتی طور پر بلیک میل کرتے ہیں۔

یہاں تک کے لوگ ایک گلی محلے کی سڑک کے لئے اپنے قیمتی ووٹ کو بیچ دیتے ہیں جیسے وہ سیاسی شخص اپنی جیب سے دیئے پیسوں سے بنوا کر ان پر احسان کرتا ہے۔ اور پھر اگلے انتخابات تک وہ بھولے عوام کو اپنی جھلک تک نہیں دکھلاتا۔ شہری سطح کے مسائل کو حل کرانے کا ایک منظم نظام آئین و قانون کی رو سے موجود ہے۔ گلی محلے کے مسائل بلدیات کے ادارے کے ذمہ ہیں۔

بلدیاتی ادارے حکومتی سیاسی نظام کا سب سے اہم حصہ ہیں جو مقامی مسائل کو حل کرنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔بلدیاتی اداروںکو جمہوریت کی نرسری کہا جاتا ہے۔بلدیاتی انتخابات میں منتخب ہونے والی قیادت ہی مقامی مسائل کو بہتر انداز میں سمجھنے اورحل کرنے کی استطاعت رکھتی ہے۔ بلدیاتی انتخابات سے مراد وہ الیکشن ہیں جو لوکل گورنمٹ کی سطح پر کروائے جاتے ہیں۔

بلدیاتی نمائندگان علاقائی سیاسی گروہوں اور سیاسی پارٹیز سے تعلق رکھنے والے نمائندے ہوتے ہیں۔ گو کہ اس انتظامی ڈھانچے میں تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں لیکن موجودہ نظام کے تناظر میں دیکھا جائے تو تحصیل لیول پر میونسپل کمینٹی،ضلع میں مونسپل کارپوریشن اور ڈویژن میں معاملات کو دیکھنے کے لئے میئر کا انتخاب کیا جاتا ہے۔

اس انتخاب کا مقصد نچلی سطح پر عوامی مسائل کو حل کرنا ہوتا ہے ۔ جیسے کے گلی محلوں کی سڑکوں کی تعمیر و مرمت، علاقے میں صفائی ستھرائی کایقینی بنانا، صحت کی سہولیات کی فراہمی اور مقامی مسائل کا حل وغیرہ شامل ہے ۔ ہماری تاریخ میں ہمیشہ جہموری ادوار میں بلدیاتی انتخابات کو نظر انداز کیا گیا ہے جس کی وجہ شاید جمہوری حکومتوں کا خود اپنی ناقص کارکردگی سے غیر مطمئن ہونا ہے۔بلدیاتی انتخابات عموماً غیر جمہوری حکومت کے دور میں ہوئے اور اختیارت کی تقسیم منصفانہ نہ ہوسکی۔

جمہوری حکومتوں نے بھی بلدیاتی اداروں کو شفاف اور خودمختار نہیں ہونے دیا جس کا نتیجہ آج یہ نکلتا ہے کہ ایم این اے اور ایم پی اے بھی سڑک بنوانے کے لالچ دے کر ووٹ مانگنے نکل پڑتے ہیں۔ جمہوری ممالک کی تاریخ اور طرزِ عمل پر نگاہ دوڑائیں تو معلوم پڑتا ہے کہ وہاں شہریوں کے مسائل کومقامی سطح پر حل کرنے کو لوکل گورننس سسٹم موجود ہے جو ہر لمحہ متحرک رہتا ہے۔اور جب بھی بڑی جمہورتوں میں عام انتخابات ہوتے ہیں تو وہاں کا منشور عوامی فلاح و بہبود ملکی ترقی و خوشحالی اور خارجہ پالیسیاں ہوتی ہیں۔

عوام ملک کے ساتھ مخلص لیڈرز کا انتخاب کرتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں انتخاب کے وقت عوام ایک پلیٹ بریانی پر بک جاتے ہیں۔ عوام میں غربت و افلاس اس قدر بڑھ چکی ہے کہ وہ ووٹ جیسی قیمتی امانت میں خیانت کر تے ہیں۔

سادہ لوح عوام نے کبھی اس بات پر نگاہ نہیں دوڑائی کے وہ سیاست دان جو الیکشن مہم میں کسی نامور شخص کی بھینس کے مر جانے پر بھی افسوس کرنے پہنچ جاتے ہیں وہ باقی کے پانچ سال ان کے سلام کا جواب بھی دینے کو آمادہ نہیں ہوتے۔ افسوسناک پہلو تو یہ بھی ہے کہ گاؤں دیہاتوں اور کئی حد تک شہروں میں بھی برادری سسٹم کی جڑیں اتنی مضبوط ہیں کہ وہ ذاتی مفادات کی بنا پر قومی مفاد کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ اور جہاں بھی مفادات کی سیاست ہو گی وہاں عوامی فلاح و بہبود ممکن نہیں۔ ایم این اے ایم پی اے کا کام ملک کے بہتر مستقبل اور عوام کی تعلیم، صحت، صنعت و تجارت اور فلاح وبہبود کے لئے پالیسیاں بنانا اور انھیں منظور کرانا ہے۔

ملک کوغربت و افلاس کی چکی میں پسنے سے بچانے کے لئے ہر ممکن کوشش کرنا ہے۔ لیکن افسوسناک پہلو یہ ہے کہ سیاست دانوں کی اکثریت ملکی مفاد کو نقصان پہنچاتے ہوئے اپنے ذاتی اثاثہ جات کو بڑھانے پر دھیان دیتے ہیں۔اس بار ووٹ دینے سے قبل اچھی طرح سوچیں اور خود سے سوال کریں کہ اس الیکشن کے لئے میرا قیمتی ووٹ کیا بدلاؤ لا سکتا ہے۔ کیا یہ ووٹ ایسے امیدوار کو دینا ہے جو پہلے بھی امیدووں پر پانی پھیر چکا ہے ، مستقبل کو شاندار بنانے کے دعوے کر چکا ہے۔

یہ بھی سوچیں کہ جس امیدوار کو آپ پہلے ووٹ دے چکے ہیں کیا وہ ملک میں شفاف نظام کو رائج کرنے کامیاب ہوا؟ کیاملک کو صحیح معنوں میں ترقی کے دھارے میں لا سکا؟ کیا ملک کی معیشت اور ساکھ کو بین الاقوامی سطح پر بہتر کر پایا؟ کیا اس کے دورِ حکومت میں آپ پر ملک کا جتنا قرضہ ہے وہ کم ہوا یا بڑھ گیا؟ کیا وہ آپ اور آپ کے خاندان کو اس ملک میں ایک محفوظ ماحول دینے میں کامیاب رہا؟ کیا تعلیمی ترقی اور خوشحالی کے وعدوںاور منصوبوں پر شفافیت سے عمل ہوا؟ یہ اور اس جیسے کئی اور سوالوں کے جواب آپ کو اپنے ووٹ کی قدروقیمت سے آگاہ کریں گے۔ کیونکہ انتخاب آپ کا حق ہے! ووٹ قوم کی امانت ہے! روزحشر آپ کو حساب دینا ہوگا کہ امانت میں خیانت نہیں ہوئی!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں