برصغیر کا پہلا سیاسی ’’ لوٹا‘‘ ڈاکٹرمحمدعالم
ڈاکٹر عالم کی زندگی ہمارے آج کے مفاد پرست سیاستدانوں کیلئے مرقعہ عبرت ہے
دریا کو کوزے میں بند کرنا ہو تو استعارات اور تشبیہات کا سہارا لیا جاتا ہے۔ استعارات اورتشبیہات وقت کے ساتھ ساتھ وقوع پزیرہوتی رہتی ہیں۔ سیاستدان کیلئے لوٹے کی اصطلاح بھی ایک تشبیہ ہے۔سیاستدانوں کولوٹے سے تشبیہ کیوں دی گئی اس پرابھی باقاعدہ کوئی تحقیق نہیں کی گئی تاہم اس کی درج ذیل وجوہات بیان کی جاسکتی ہیں۔
اولاََ۔۔۔۔ایک وقت تھاجب لوہے سے بنالوٹااستعمال کیاجاتاتھا۔یہ لوٹا بغیر پیندے کے ہوتاتھا،اسے جب زمین پررکھاجاتاتوکسی طرف بھی جھک سکتاتھا۔اسی طرح سیاستدان کے لئے کوئی اصول وضابطہ نہیں ہوتاوہ جب چاہے کسی بھی معقول وجہ کے کسی جماعت کو چھوڑ سکتا اوربغیر کسی اصول اورضابطے کے کسی بھی جماعت واتحادمیں شمولیت اختیار کرسکتا ہے۔
ثانیاََ۔۔۔ دوسری وجہ یہ بیان کی جاسکتی ہے کہ جیسے لوٹے کوہرشخص استعمال کرتاہے ایسے ہی سیاستدان بھی ہر وقت اورہر جگہ استعمال ہونے کے لئے تیار رہتا ہے۔
ثالثاََ۔۔۔بے نظیراورنوازشریف کے پچھلے ادوارمیں جب ہارس ٹریڈنگ نے باقاعدہ کاروبارکی شکل اختیار کی اورہماری اسمبلیاں لوٹوں کے معاملے میں خودکفیل ہوگئیں تواس وقت لوٹوں کی بہتات کی ایک توجیہ یہ کی گئی کہ جیسے لوٹاایک غلیظ عمل میں استعمال ہوتاہے ایسے ہی ہمارے سیاستدان بھی ضمیروایمان کی پروا کئے بغیرہارس ٹریڈنگ جیسے کاروبار کاحصہ ہیں۔ اس موقع پرایسے بھی ہواکہ اپوزیشن کی طرف سے اسمبلیوں میں لوٹے اچھالے گئے اورسپیکرکے ڈائس پربھی لوٹے رکھے گئے۔ تاہم حزب اقتدارنے دلبرداشتہ اور شرمندہ ہونے کی بجائے اپنے حوصلے قائم رکھے اور دلچسپ پیرائے میں جوابی وارکرتے ہوئے کہا ''ہاں ! ہم لوٹے ہیں ، ہمیں لو ٹا ہونے پر فخرہے لوٹے سے غلاظت دورکی جاتی ہے اور طہارت حاصل کی جاتی ہے۔سوہم بھی اسمبلیوں میں موجودغلاظت ا ور نجاست دورکررہے ہیں۔''
یہ درست ہے کہ لوٹے سے نجاست دورکی جاتی اورطہارت حاصل کی جاتی ہے مگراس کے لئے ضروری ہے کہ پہلے لوٹاپاک صاف ہواورخودکرپشن کی گندگی میں لتھڑاہوانہ ہو۔لوٹے سیاستدان کاسیاست کی غلاظت صاف کرنے کادعوی ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص ناک صاف کرکے منہ پرمل لے اورپھرکہے دیکھیں جناب میں نے ناک صاف کرلی ہے۔
رسول اللہؐ کاارشادگرامی ہے''جب انسان میں حیانہ رہے توپھروہ جوچاہے کرے۔''یہ حدیث الفاظ میں اگرچہ مختصرہے مگراپنے معانی ومفہوم میں بہت وسیع ہے۔سچ ہے جب انسان میں حیانہ رہے تووہ کچھ بھی کرسکتاہے۔ایسے شخص کے لئے اپنے ضمیراورایمان کاسوداکرنابہت آسان ہوتاہے جیساکہ ہمارے ملک میں ہورہاہے۔یوں لگتاہے جیسے جانورجنگلوں میں چرتے ہیں اورجہاں چاہے منہ مارتے ہیں ایسے ہی قومی ا و ر صوبائی اسمبلی کی ٹکٹوں کے حصول کے لئے میلے لگتے اوربغیرکسی ہچکچاہٹ وترددکے ٹکٹوں کے حصول کے لئے پارٹیاں تبدیل کی جاتی ہیں۔اب اصل منظراس وقت دیکھنے والاہوگاجب حکومت سازی کامرحلہ آئے گا ، وسیع ترقومی مفادکے نام پرمیلہ لگے گااوراس میں اراکین اسمبلی کی میلہ مویشیاں میں جانوروں کی طرح بولیاں لگیں گی۔
یہاں ایک دلچسپ سوال یہ کہ برصغیرکی سیاست میں پہلی دفعہ لوٹے کی اصطلاح کب استعمال کی گئی اورشخص کون تھاجس نے پہلے پہل سیاسی طورپروفاداری تبدیل کی۔لیکن اس سے پہلے مختصراََاس بات کاتذکرہ ضروری ہے کہ ہندوستان میں انتخابی عمل اوراسمبلیوں کے چناؤکاآغازکیسے اورکب ہوا۔۔۔۔؟
1857ء کے بعدجب ہندوستان برطانوی سرکارکی عملداری میں آیاتو1861ء میں امپریل لیجسلیٹو کونسلوں کاقیام عمل میں لایاگیا ، یہ سیاسی اصطلاحات کی بالکل ابتدائی شکل تھی جوبدتریج آگے بڑھتی رہی۔
1909ء میں امپریل لیجسلیٹوکونسلوں میں متعدداصطلاحات کی گئیںجن میں کونسل کے ارکان کی تعداد بڑھادی گئی۔ 1919ء میں لیجسلیٹوکونسلوں کی جگہ لیجسلیٹواسمبلیوں نے لے لی۔یہ ہندوستان کی پہلی اسمبلیاں تھیں۔ ان اسمبلیوں میں نصف تعدادگورنروں کے نامزدکردہ ارکان کی ہوتی تھی اورباقی نصف کاانتخاب منتخب ارکان کرتے تھے۔
1920ء کے انتخابات ہندوستان کے لئے ایک نیاتجربہ تھا۔ابتدامیں بالغ رائے دھی کی بجائے محدودبنیادوں پر لوگوں کو انتخاب کاحق دیا گیا۔ تحریک خلافت ، جمعیت علمائے ہنداورکانگریس نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔یہ اسمبلیاں یکم جنوری1921ء کومعرض وجودمیں آئیں۔1925میں دوسرے اور1931ء میں تیسرے انتخابات ہوئے۔1937ء میں پہلی باضابطہ صوبائی اسبمبلیاں معرض وجود میں آئیں۔ ان انتخابات میں مسلم لیگ کوئی قابل ذکرپوزیشن حاصل نہ کرسکی جبکہ کانگریس نے 11میں سے 7 صوبوں میں اکثریت حاصل کرلی۔
پنجاب میں یونینسٹ پارٹی 1920ء سے برسراقتدار چلی آرہی تھی۔1937ء کے انتخابات میں اس نے 175کے ایوان میں 88نشستیں لے کراپنی پوزیشن مضبوط کرلی۔اس کے مقابلے میں کانگریس نے پنجاب سے 18اورمسلم لیگ نے دو نشستیں حاصل کیں۔پنجاب سے مسلم لیگ کے کامیاب ہونے والے امیدوارملک برکت علی اور راجہ غضنفر علی تھے۔
راجہ غضنفر علی مسلم لیگ کے ٹکٹ پر کامیاب ہوکریونینسٹ پارٹی میں شامل ہوگئے۔ پنجاب سے مجلس اتحادملت اسلامیہ نے بھی انتخابات میں حصہ لیا۔ مجلس اتحادملت اسلامیہ نے مسجدشہیدگنج کا کارڈ کھیلا مگر ڈاکٹر محمد عالم کے سوا اس کے تمام امیدوارہارگئے جبکہ ڈاکٹر محمد عالم الیکشن جیت کر کانگریس میں شامل ہوگئے۔ گوکہ1937ء کے انتخابات میں سیاسی وفاداری تبدیل کرنے والے ڈاکٹرعالم اکیلے نہ تھے تاہم برصغیرکی سیاسی تاریخ کاپہلاباضابطہ اور مستندلوٹاہونے کاخطاب ڈاکٹرمحمدعالم کوہی ملا۔
لوٹا ہونے کے لئے انسان کابے ضمیرہوناضروری ہے اورڈاکٹرعالم میں یہ خوبی بدرجہ اتم پائی جاتی تھی۔ڈاکٹرعالم لاہورکے رہنے والے تھے۔وہ اعلی پائے کے مقرر،انتہائی کامیاب وکیل،نہایت ہی قدآوراوروجیہ انسان تھے۔وہ پکے نیشنلسٹ (قوم پرست)تھے۔
انہوں نے پنجاب مسلم نیشنلسٹ کانفرنس کی بنیادرکھی۔ اپنی تمام ترقابلیت اور اہلیت کے باوجودوہ ابن الوقت تھے۔نفع کی امیدپراپنی عزت تک گنوابیٹھتے۔ڈاکٹر محمد عالم کادماغ بہت اجلالیکن دل بہت میلاتھا۔ایک کامیاب فوجداری وکیل ہونے کی وجہ سے گفتگومیں نہایت کائیاں تھے جس سے بات کرتے اسے ایک دفعہ مسحورکرلیتے اعلی پائے کے مقررتھے لیکن جوان لوگ کے زخم کھاچکے تھے ان پران کاجادونہیں چلتاتھا،وہ ان سے دوربھاگتے تھے ''۔
ان کاپسندیدہ مشغلہ سیاسی آشیانے بدلناتھا۔وہ مولاناعبدالقادرقصوری کی کوششوں سے آل انڈیا کانگریس کی ورکنگ کمیٹی کے ممبربنے۔ تحریک خلافت میں بھی شامل رہے ، مولانامحمدعلی نے جامعہ ملیہ کی بنیادرکھی تو اس کا پہلا شیخ الجامعہ ڈاکٹرعالم کوبنایالیکن وہاں سے چھوڑدیا۔ پھر کانگریس کی مجلس عاملہ سے بھی استعفی دے دیاسال ڈیڑھ سال خاموش رہے۔مسجدشہیدگنج کی تحریک چلی تواس کے اصلاح کاروں بلکہ ہدایت کاروں میں شامل ہوگئے۔مجلس اتحادملت بنی تواس کے شریک سفرہوگئے۔
آغاشورش کاشمیری نے اپنی کتاب''بوئے گل نالہ دل دودچراغ محفل''اورپس دیورزنداں میں جابجاان کاذکرکیاہے۔وہ لکھتے ہیں ''1937ء کے انتخابات کا غلغلہ بلندہوا تو ڈاکٹرعالم مجلس اتحادملت کے پلیٹ فارم سے انتخابی میدان میں کودپڑے۔ان کے مقابلے میں سید حبیب تھے۔ سید حبیب یونینسٹ پارٹی کے امیدوار تھے۔
سر سکندر حیات یونینسٹ کے سربراہ ہونے کے باوجودچاہتے تھے کہ سید حبیب کی بجائے ڈاکٹر عالم کامیاب ہوں۔گورنرکی درپردہ حمایت بھی ڈاکٹرعالم کوحاصل تھی یہی وجہ تھی کہ ڈاکٹرعالم انتخاب جیت گئے مگرکامیاب ہوتے ہی بدل گئے۔جواہرلال نہروکوتاربھیجامیں آپ کوفی الفورملناچاہتاہوں۔جاتے وقت مجھے رفیق سفربناکرساتھ لے گئے۔ڈاکٹرعالم چونکہ ماضی میں کانگریس میں رہ چکے تھے اوران کویہ بھی معلوم تھاکہ کانگریس سے راہ فرار اختیار کرنے کی وجہ سے نہروان سے خوش نہیں ہیں۔
یہی وجہ تھی کہ لاہورسے چلتے وقت ڈاکٹر عالم کھدرپوش ہوگئے سرپروہی گاندھی ٹوپی پہلی نظرمیں دیکھنے سے مسلمان کی بجائے سیٹھ سدرشن معلوم ہوتے جواہرلال نہروسے معانقہ کیااورکہنے لگے:پنڈت موتی لال مجھے اپنا بیٹا سمجھتے تھے اس ناطے میں آپ کابھائی ہوں اورآپ بھی مجھے اپنابھائی ہی سمجھیں۔ میراذہن ہمیشہ نیشنلسٹ رہاہے لہذامیں نے کانگریس میں شامل ہونے کافیصلہ کرلیاہے۔ پنجاب کی آب وہواتمام ملک سے مختلف ہے میں اپنے معاشی حالات کی خرابی کی وجہ سے کانگریس سے نکلاتھالیکن ذہناََاورقلباََکانگریس میں ہی تھا۔''پنڈت جواہرلال کہنے لگے ''ڈاکٹرصاحب!آپ جس ٹکٹ پرمنتخب ہوئے ہیں اس سے انحراف کیسے کرسکتے ہیں یہ تواصولاََ غلط ہوگا۔ ''
ڈاکٹرصاحب نے کہا '' میں نے شہیدگنج مسجدکی تحریک میں مسلمانوں کاذہن فساد سے ہٹاکرقانون وامن کی طرف لگایاہے۔اگرمیں مسلمانوں کوشہیدگنج مسجدکی تحریک کے دوران مقدمہ بازی کے چکرمیں نہ ڈالتاتوپنجاب میں ہونے والے خونریزفسادات سے باقی ہندوستان بھی محفوظ نہ رہتا۔ '' قصہ مختصر جواہر لال نہرو ڈاکٹر عالم کی چکنی چپڑی باتوں میں آگئے ان سے ڈاکٹرگوپی چندبھارگوکے نام ایک خط لیااورہنسی خوشی لاہورروانہ ہوگئے۔ لاہور پہنچ کرکانگریس میں شمولیت کااعلان کردیااور اپنے گھر کے ڈرائینگ روم میں گاندھی ٹوپیاں لٹکا دیں۔
ڈاکٹر عالم نے کانگریس میں شمولیت اس امیدپرکی تھی کہ وہ پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈربن جائیں گے۔ لاہور آنے کے بعدجب وہ کانگریس میں شمولیت کااعلان کرچکے توکچھ دن بعد شیخ دین محمد ان کے ہاں آئے اور کہنے لگے '' ڈاکٹرصاحب ! یہ آپ نے کیاغضب کیا ابھی دوروزپہلے سکندرحیات نے آپ کووزیرتعلیم بنانے کافیصلہ کیا تھا۔'' ڈاکٹرصاحب یہ سن کرسخت پریشان ہوئے۔بہرحال ڈاکٹر صاحب نہ تواپوزیشن لیڈربن سکے اورنہ وزیرتعلیم البتہ رکھ رکھاؤکے لئے انہیں ڈپٹی اپوزیشن لیڈربنادیاگیا۔
اسمبلی کے انتخابات کے بعدجب سرسکندرکی وزارت بن گئی تواس کے ساتھ ہی آغاشورش کاشمیری مرحوم پرجنڈیالہ گوروکی ایک تقریرکے جرم میں 124 الف کامقدمہ بنادیاگیا۔آغاشورش اس سلسلے میں لکھتے ہیں ''ایک دن میں ڈاکٹرعالم کی خدمت میں حاضرہواوہ اپنے گھرمیں اپنے بھائی نظام الدین کے ساتھ ٹہل رہے تھے۔
میں نے ڈاکٹر عالم سے کہا کل عدالت میں میری پیشی ہے آپ ہی پیروی کرسکتے ہیں۔ تیوری چڑھا کر بولے ناممکن،ناممکن ،ناممکن۔مجھ پرتوجیسے بجلی گرپڑی میں سکتے میں آگیا۔یہ وہی ڈاکٹر عالم تھے جن کا الیکشن خطیبانہ حد تک میں نے لڑا اور جیتا۔ الیکشن کے دوران احرار جیسے عدیم المثال خطیبوں کا مقابلہ کیا۔
جہلم وگجرات کے جلسے سر کئے۔ راولپنڈی کا محاذ فتح کیا جلالپورجٹاں میں تلوار کازخم سہا اور ان سے پھوٹی کوڑی تک نہ لی۔ڈاکٹر عالم کا جواب سن کرآنکھوں سے آنسوآگئے لمبے لمبے ڈگ بھرتاہواباہر آگیا۔ میرے کان سن رہے تھے کہ ڈاکٹرعالم کابھائی نظام الدین کہہ رہاتھاعالم تمہیں ایساکوراجواب نہیں دیناچاہئے تھا اور ڈاکٹر صاحب بول رہے تھے ''بھائی جی پانچ سال بعدپھردیکھاجائے گا۔''
گوکہ یہ واقعہ قیام پاکستان سے پہلے کاہے لیکن عزائم وارادے ، سوچ و فکر کردار گفتار کو دیکھاجائے تومعلوم ہوتاہے جیسے آج ہی یہ واقعہ رونماہواہے۔جس طرح اس وقت اسمبلیوں میں جانے والے عوام کو بیوقوف بناتے تھے آج بھی اسی طرح بیوقوف بنانے کاسلسلہ جاری ہے۔
شورش مرحوم اپنی کتاب''بوئے گل نالہ دل دودِچراغ محفل''میں مزیدلکھتے ہیں ''ڈاکٹر عالم عجیب وغریب انسان تھے۔دماغ کے غنی اوردل کے غبی اپنے سواکسی کے وفادارنہ تھے۔
ہمیشہ حلق سے الٹی بات کرتے،سیدھی بات جانتے ہی نہ تھے۔اپنی ذات میں اتنے محصورتھے کہ اس کے سواکسی عقیدے ، کسی خیال،کسی جماعت،کسی رہنمااورکسی مسلک کے وفادارنہ تھے۔ان کاسیاسی شعورآصف علی اورڈاکٹرسیدمحمودسے کہیں بلندتھالیکن قانع اورصابرنہ تھے۔حرص نے ان کوکٹی ہوئی پتنگ بنادیا۔طمع نے ان کی زندگی کواتناکھوٹاکیاکہ آخرکچوکوں کی تاب نہ لاتے ہوئے قبل ازوقت رحلت کرگئے۔ان کاسیاسی فہم جتنا بلند اخلاص اتناہی پست تھاطوطے کی طرح آنکھیں پھیرلیتے۔قائداعظم نے یونی نیسٹ پارٹی کے جن ارکان کو بلواکرلیگ میں شامل کرناچاہاان میں ڈاکٹرعالم بھی تھے۔
قائداعظم نے ان سے کہا '' عالم۔۔۔!اسمبلی میں لیگ باقاعدہ پارلیمانی پارٹی بن گئی ہے اس میں شامل ہوجاؤ۔ ڈاکٹرصاحب نے جواباََ کہاسوچنے کے لئے وقت درکارہے۔'' قائداعظم نے فرمایا عالم! کسی پارٹی میں آنے جانے کے لئے کیاتمہیں بھی سوچنے کی ضرورت ہے۔'' ڈاکٹرعالم اصلاََسوانگ رچانے کے ماہرتھے مثلاََپیرجماعت علی شاہ کاان کے دل میں رتی بھراحترام نہ تھالیکن مسجدشہیدگنج تحریک کے دنوں ان کے سامنے اس طرح ہوتے جس طرح برہمن اپنے بت کے سامنے ہوتاہے۔یہی ذہنی عیاریاں تھیں جن کی بدولت ڈاکٹرعالم عبرت کاورق ہوکرغفرلہ ہوگئے۔
ڈاکٹرعالم کولوٹے کاخطاب کیسے ملااس بارے میں آغاشورش کاشمیری لکھتے ہیں ''اس پھبتی کے مصنف علامہ میرحسین کاشمیری تھے جوروزنامہ زمیندارکے مدیرمخابرات تھے۔علامہ میر حسین صوبائی محکمہ اطلاعات کی معرفت لاہورریڈیوکے لئے پنجابی پروگرام کی خبریں تیارکرتے تھے۔
ڈاکٹرصاحب نے کسی پھبتی سے برافروختہ ہوکرانہیں نکلوادیا۔ نتیجے میں علامہ میرحسین نے زمیندارمیں ایک خبرگھڑی جس کاعنوان تھا ''ڈاکٹر لوٹا'' اور ڈاکٹر لوٹاکی پھبتی آناََفاناََ زبان زدعام ہوگئی۔ڈاکٹرعالم جہاں جاتے ان کااستقبال لوٹوں سے کیا جاتا حتی کہ پولنگ سٹیشن پربھی لوگوں نے لوٹے لٹکادیے۔لاہورمیں مزنگ روڈ پر ان کی کوٹھی تھی منچلوں نے ایک باران کی کوٹھی پرلوٹوں کوجھنڈیوں کی طرح سجادیا۔''شورش کاشمیری نے ڈاکٹرعالم کے بارے میں اورعبرتناک واقعہ لکھاہے '' ایک رات ڈاکٹرعالم کے گھرمیں تھا۔
علی الصبح اٹھا تودیکھا ڈاکٹرعالم ایک عورت سے جھگڑرہے اور کہہ رہے تھے ''دو روپے ٹھیک ہیں بس اب بھاگ جاؤ۔'' جواب میں عورت کہہ رہی تھی ''ڈاکٹرصاحب آپ نے پچاس روپے کاوعدہ کیا تھا۔ '' ڈاکٹر صاحب عورت کے اصرارپرجھنجلاگئے انہیں ڈرتھا کسی نے دیکھ لیاتورسوائی ہوگی۔مولانا عبدالقادرقصوری برآمدے میں صبح کی نمازپڑھ رہے تھے۔ڈاکٹرصاحب نے عورت سے کہا '' ڈاکٹر صاحب تووہ سامنے مصلی پرنمازپڑھ رہے ہیں میں تو ان کامنشی ہوں۔بھاگ جاؤورنہ ڈاکٹرصاحب ہم دونوں کوقیدکروادیں گے۔ غرض وہ عورت شب کامعاوضہ دوروپے لے کرچلی گئی اور میں یہ لطیفہ سمیٹ کرگھرآگیا۔ ''
ڈاکٹرعالم کی وفات بھی مرقع عبرت ہے۔ ان کے باربارسیاسی آشیانے بدلنے کی وجہ سے لوٹے کاخطاب ان کے لئے جان لیواثابت ہوا۔لوٹے کالفظ ان کے لئے گالی اورجان لیوابیماری بن گیاوہ اسی غم میںعالم بالاکوسدھارگئے۔ بہرحال یہ بات طے ہے کہ ڈاکٹرعالم ہمارے آج کے سیاستدانوں سے پھربھی مختلف تھے جولوٹے کاطعنہ برداشت نہ کرسکے جبکہ ہمارے آج کے سیاستدانوں کو لوٹاکہاجائے توشرمندہ ہونے کی بجائے خوشی سے سینہ پہلالیتے اور فخر کرتے ہیں۔