پی سی بی میں بازی کیسے پلٹ گئی

بنا بنایا گیم الٹ گیا، الیکشن کمشنر نے جھٹ سے شیڈول کا بھی اعلان کر دیا


Saleem Khaliq February 05, 2024
بنا بنایا گیم الٹ گیا، الیکشن کمشنر نے جھٹ سے شیڈول کا بھی اعلان کر دیا۔ فوٹو: پی سی بی

'' یہ میٹنگ میں پاکستان سے کون آگیا، کیا چوتھا چیئرمین پکا ہے یا اسے بھی تبدیل کر دیں گے''

بالی انڈونیشیا کا معروف سیاحتی مقام ہے، لوگ دور دور سے وہاں چھٹیاں گذارنے آتے ہیں، اس بار جے شاہ کو دور کی سوجھی، انھوں نے ایشین کرکٹ کونسل کا اجلاس ہی وہاں رکھ لیا تاکہ ارکان بھی خوش ہو جائیں اور انھیں بطور صدر مزید کام کرنے کا موقع ملتے رہے، عموما ایسی میٹنگز میں پاکستان کے نمائندے رسمی کارروائی پوری کر کے واپس چلے جاتے ہیں لیکن بالی میں قائم مقام چیئرمین شاہ خاور خاصے پراعتماد نظر آئے، انھوں نے جے شاہ کی بھی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر باتیں کیں۔

ان کے انداز سے دیگر شرکا بھی خاصے متاثر ہوئے، انہی میں سے کسی نے چوتھے چیئرمین والا طنز کیا جس پر دیگر لوگ ہنسنے لگے، اس ایک جملے نے پاکستان کرکٹ کی حقیقت بیان کر دی، شاید ہی کسی اور ملک میں کسی کرکٹ بورڈ کے اتنی جلدی جلدی سربراہ تبدیل ہوتے ہوں، پی سی بی میں ایسا ہونے کی وجہ سیاسی ہے۔

پاکستان میں وزیر اعظم بورڈ کے سرپرست اعلیٰ ہوتے ہیں، رسمی الیکشن کے بعد ان ہی کی نامزدکردہ2 شخصیات میں سے کوئی ایک چیئرمین بنتا ہے،حکومت بدل جائے تو بورڈ میں بھی تبدیلی ہوتی ہے، ماضی کے برخلاف آئی پی سی منسٹری بھی اب پی سی بی کے سامنے ڈٹ کر کھڑی ہے۔

پہلے اس کو زیادہ لفٹ نہیں کرائی جاتی تھی اور یہی کہا جاتا کہ ہم حکومت سے فنڈز نہیں لیتے اس لیے منسٹری کو جواب دہ نہیں ہیں، سال میں چند میٹنگز ہوتیں جس میں اکثر چیئرمین خود شریک بھی نہیں ہوتے، جو بھی نمائندہ جاتا چائے پی کر واپس آ جاتا، البتہ ذکا اشرف کے دور میں آئی پی سی منسٹری بہت زیادہ متحرک نظر آئی اور انھیں کوئی بڑا فیصلہ نہیں کرنے دیا گیا، تھک ہار کر وہ عہدہ چھوڑ گئے تو وزیر اعظم نے محسن نقوی کا تقرر کر دیا جو ممکنہ طور پر منگل کو چیئرمین کی ذمہ داری سنبھال لیں گے۔

ان کی نامزدگی بڑا سرپرائز ثابت ہوئی، دلچسپ بات یہ ہے کہ نوٹیفکیشن میں کوئی دورانیہ بھی درج نہیں، پی سی بی کے 90 فیصد ملازمین کو یقین تھا کہ نجم سیٹھی واپس آ رہے ہیں، وہ انتظارکرتے رہے کہ سیٹھی صاحب آئیں گے تو کھل کر کام کریں گے، انھوں نے ذکا اشرف سے بالکل تعاون نہ کیا، سست روی سے کام کا نقصان پی سی بی کو ہوا،آپ اس کا اندازہ پی ایس ایل کے معاملات سے لگا سکتے ہیں،نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کی جانب سے گورننگ بورڈ میں محسن نقوی کی شمولیت کے فیصلے پر سب حیرت سے دنگ رہ گئے۔

بنا بنایا گیم الٹ گیا، الیکشن کمشنر نے جھٹ سے شیڈول کا بھی اعلان کر دیا، عام انتخابات سے دو روز قبل پی سی بی کا نیا سربراہ آ چکا ہوگا، اس فیصلے کی ٹائمنگ بڑی اہم ہے، جہاں اتنی تاخیر ہوئی چند روز مزید انتظار کر کے نئی حکومت کا انتظار کیا جا سکتا تھا جو اپنی مرضی کا چیئرمین بناتی لیکن ایسا نہ ہوا،شاید وجہ نجم سیٹھی اور ذکا اشرف کی پرانی لڑائی سے بچنا ہو، دونوں ایک دوسرے کے سوا کسی کو بھی بورڈ کا سربراہ بنتے دیکھ سکتے ہیں۔

البتہ نجم سیٹھی موجودہ صورتحال سے خوش نظر نہیں آتے،ان کے چاہنے والوں میں صف ماتم بچھی ہوئی ہے، الیکشن کمشنر شاہ خاور کی جگہ کوئی اور ہوتے تو شاید معاملہ اتنا سادہ نہ رہتا، البتہ وہ ایک ذہین وکیل ہیں، انھوں نے ہر ایک گورننگ بورڈ ممبر کا سوچ سمجھ کرانتخاب کیا اور قانونی کمی نہیں چھوڑی، اس وجہ سے معاملے کو عدالت لے جانے کی بعض کوششیں ابتدائی مرحلے میں ہی دم توڑ گئیں، محسن نقوی نے بطور نگراں وزیر اعلیٰ پنجاب بہتر انداز میں فرائض نبھائے، شاید انھیں لانے کی وجہ پی سی بی کے معاملات کو بھی ٹھیک کرنا ہی ہے۔

اب وہ آ گئے ہیں تو سپورٹ کرنا چاہیے تاکہ معاملات بہتر ہوں، بار بار تبدیلیوں سے لوگ ہمیں سیریس نہیں لیتے اور مذاق اڑاتے ہیں، ملازمین تک کام نہیں کرتے کہ یہ تو تھوڑے دن کیلیے آیا ہے اس کو کیوں کسی پروجیکٹ کا کریڈٹ لینے دیں، آپ موجودہ حالات دیکھ لیں، پی سی بی کا کیا حال ہو چکا، سیاست عروج پر ہے، پی ایس ایل کے پروڈکشن رائٹس فروخت کرنے میں بھی تنازع ہوا، اب یہ نہیں ہونا چاہیے کہ نئی حکومت آئے تو وہ محسن نقوی کو گھر بھیج کر اپنی مرضی کا چیئرمین لے آئے، اس سے مسائل جوں کے توں برقرار رہیں گے،اس وقت بہت سے امور حل طلب ہیں۔

پی ایس ایل کا کامیاب انعقاد اولین ترجیح ہونی چاہیے، کھلاڑیوں پر بھی بورڈ کا کنٹرول نہیں رہا، سینٹرل کنٹریکٹ پر جس طرح مطالبات منوائے گئے اس سے اچھی مثال سامنے نہیں آئی،ایجنٹس کا کردار حد سے زیادہ بڑھ چکا، اب لیگز این او سی کا معاملہ متنازع بن چکا، کھلاڑی ایجنٹس کمپنی کے پلیٹ فارم سے سوشل میڈیا پر ایکٹیو ہیں اور بورڈ کی اتھارٹی چیلنج ہو رہی ہے۔

کوچز کو مستقبل کا پتا نہیں، محسن نقوی کو یہ سب کچھ ٹھیک کرنا پڑے گا، انھیں سب سے پہلے اچھی ٹیم بنانا ہوگی، اگر وہ مستقل کام کرنے کے موڈ میں آئے ہیں تو سب سے پہلے من پسند چیئرمین کی واپسی کا انتظار کرنے والے بعض آفیشلز کو گھر بھیجیں ورنہ ان کے ساتھ بھی ذکا اشرف جیسا سلوک ہو سکتا ہے۔

کئی محنتی ٹاپ آفیشلز کو سائیڈ لائن کیا ہوا ہے انھیں آگے لائیں،ماضی میں مختلف الزامات کا سامنا کرنے کے باوجود بورڈ میں واپس آنے والوں کو گھر بھیجیں، ان کے نئے ''کارنامے'' ہی اس کا جواز فراہم کر دیں گے، ویسے نجم سیٹھی اور ان کے قریبی لوگ جس طرح سے خاموش بیٹھے ہیں اس سے لگتا ہے کہ وہ بھی جان چکے کہ محسن نقوی کو ہٹانا آسان نہیں ہوگا۔

دوسری بات یہ ہو سکتی ہے کہ شاید انھیں الیکشن کے بعد مسلم لیگ ن کی واپسی کا انتظار ہو، اس کے بعد نیا لائحہ عمل تیار کریں،نقوی صاحب کی بیک مضبوط ہے کیا پتا وہ ایسے سخت فیصلے بھی آسانی سے کر جائیں جو کوئی دوسرا چیئرمین کرتے ہوئے کئی بار سوچے، دیکھتے ہیں الیکشن کے بعد کیا ہوتا ہے،البتہ پاکستان کرکٹ کی بہتری کے لیے بورڈ میں استحکام ضروری ہے امید ہے تمام اسٹیک ہولڈرز بھی یہ بات ذہن میں رکھیں گے۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں