انتخابات اور انتخابی منشور کی سیاست
ہمارے جیسے ملکوں میں انتخابی منشور ایک انتظامی نوعیت یا الیکشن کمیشن کی انتظامی ضرورت بن کر رہ گیا ہے
پاکستان کی جمہوری اورانتخابی سیاست کا المیہ اس کا غیر اہم مسائل میں الجھنا ہے، انتخابی سیاست میں ہمیں سنجیدہ سیاسی، انتظامی، سماجی، قانونی، سیکیورٹی اور معیشت سے جڑے معاملات اور عام آدمی کے مسائل کی جھلکیاں کم دیکھنے کو ملتی ہیں۔
عمومی طور پر ہماری انتخابی سیاست الزام تراشیوں، کردار کشی، سیاسی و مذہبی فتوؤں اور لعن طعن، جذباتیت یا خوش نما نعروں تک محدود ہوتی ہے ۔ملک کو جو بڑے بڑے سنگین نوعیت کے چیلنجز کا سامنا ہے۔
ان سے نمٹنے کی حکمت عملی یا عملی منصوبہ بندی کا خاکہ دیکھنے کو نہیں ملتا ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ ہماری انتخابی سیاست جب حکومت سازی اور اس کے نتیجے میں حکمرانی کے نظام کا حصہ بنتی ہے تو لوگوں کو نہ صرف مایوسی بلکہ ان کے مسائل میں مزید بگاڑ دیکھنے کو ملتا ہے۔
8فروری کے انتخابات کے تناظر میں ایک بڑی بحث سیاسی جماعتوں کے انتخابی منشور پر ہو رہی ہے ۔ سیاسی جماعتوں کے منشور بھی ہمیں انتخابی مہم کے آخری دنوں میں دیکھنے کو ملے ہیں ۔
پاکستان کی تجربہ کار سیاسی جماعتیں اور ان کے داخلی نظام کی کمزوریوں کے باعث یا ان کی عدم ترجیحات کی وجہ سے یہ منشور نہ تو وقت پر پیش ہوسکے نہ کسی بڑی بحث کا حصہ بن سکے اور تاخیر کا یہ عمل ظاہر کرتا ہے کہ سیاسی سطح پر سیاسی جماعتوں کی ترجیحات میں منشور تیار کرنے اور پیش کرنے کی ترجیحات کہاں کھڑی ہیں۔
پاکستان کی چار بڑی جماعتوں کو دیکھیں تو ان میں پیپلزپارٹی کے انتخابی منشور کا بڑا نعرہ '' چنو نئی سوچ کو '' مسلم لیگ ن کا نعرہ ''پاکستان کو نواز دو'' پی ٹی آئی کا نعرہ '' ایک قوم، یکساں قانون، سب برابر'' اورجماعت اسلامی کا نعرہ ''پاکستان کو اسلامی، جمہوری، خوشحالی اور ترقی یافتہ ریاست بنانا'' شامل ہے ۔عمومی طور پر سیاسی منشور کی عکاسی سیاسی جماعتوں کی ترجیحات، سوچ، فکر اور خواب سمیت عملی منصوبوں کی تکمیل کی جھلک ہوتی ہے ۔
ان منشور کی بنیاد پر یہ سمجھنا اور تجزیہ کرنا آسان ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کی ترجیحات میں درست عکاسی ہے اور کیا جو بھی ہمارے زمینی حقایق ہیں اور جو خواب ہمیں دکھائے جا رہے ہیں ان میں کوئی عملی چیز کی مطابقت موجود ہے۔
سیاسی جماعتوں کے یہ منشور عملی طور پر سیاسی جماعتوں کی جوابدہی سے بھی جڑے ہوتے ہیں اور انتخابی مہم کے مباحث میں ان منشور کا تجزیہ یا ان کا پوسٹ مارٹم کیا جاتا ہے۔لیکن یہ سب کچھ وہاں ہوتا ہے جہاں جمہوری سیاست مضبوط اور سیاسی جماعتیں مضبوط جڑیں رکھتی ہوں اور جہاں سول سوسائٹی سمیت میڈیا یا اہل دانش متحرک ہوں اور سوالات اٹھاتے ہوں۔
ہمارے جیسے ملکوں میں انتخابی منشور ایک انتظامی نوعیت یا الیکشن کمیشن کی انتظامی ضرورت بن کر رہ گیا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے داخلی نظام، ارکان اسمبلی سمیت ان کے بڑے بڑے راہنما ان منشور کو خود نہ جانتے ہیں اور نہ پیش کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
بہرحال سیاسی جماعتوں کی سطح پر تعلیم، صحت، معیشت، بجلی یا انرجی سیکٹر، داخلی یا خارجہ پالیسی، آئینی و قانونی اصلاحات،انفارمیشن ٹیکنالوجی، تجارت، کاروبار، مقامی حکومتوں، ماحولیاتی پالیسی، سیاحت، سماجی تحفظ، کرپشن، کھیل سمیت مختلف شعبوں میں خوشنما نعرے لگائے ہیں۔
ان نعروں میں زمینی حقایق کا تجزیہ یا جھلک کم اور بڑے بڑے سہانے خواب زیادہ بالادست نظر آتے ہیں ۔بڑی جماعتوں کے منشور کو دیکھیں تو اس میں ترقیاتی سوچ کی بڑی کمزور جھلک دیکھنے کو ملتی ہے کیونکہ زیادہ تر انسانی ترقی کے جو ماڈل یہاں پیش کیے گئے ہیں ان میں خیراتی سطح کے منصوبے پیش کیے گئے ہیں۔
ان میں مختلف نوعیت کے مختلف طبقات میں ایسے کارڈز شامل ہیں جن کی مدد سے لوگوں کی مالی سطح کی امداد کا نظام موجود ہے۔لیکن ان خیراتی پروگراموں کی مدد سے کیسے ملکی معیشت یا انسانوں کی پائیدار معاشی ترقی کا عمل بڑھے گا اس کی کوئی بھی جھلک دیکھنے کو نہیں ملتی۔
روزگار کیسے پیدا ہوگا اور کیونکر داخلی اور خارجی سطح سے انفرادی یا ممالک کی سطح سے سرمایہ کاری ہوگی، کیسے نئی صنعتیں لگیں گی اور کیسے لوگوں کے روزگار کو معاشی تحفظ دیا جائے گا۔ اس کی کوئی تفصیل موجود نہیں۔
اسی طرح سے معیشت کی ترقی کی کنجی عملاً غیر معمولی اصلاحات یا اسٹرکچرل ریفارمز کی کوئی عکاسی بھی موجود نہیں۔ اسی طرح بیوروکریسی، پولیس، ایف بی آر، سیاسی اور ادارہ جاتی یا معاشی اصلاحات میں بھی کچھ خاص نظر نہیں آتا۔
عمومی طور پر ہماری سیاسی جماعتوں میں حال کا تجزیہ اور مستقبل کی منصوبہ بندی کے حوالے سے کوئی بڑے تھنک ٹینک یا پالیسی ساز ادارے کی کوئی جھلک دیکھنے کو نہیں ملتی۔ یہ ہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کی سطح پر تحقیق اور متبادل ترقی کے خاکہ کی کوئی جھلک نہیں اور ایسے لگتا ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں طاقت ور طبقہ کے مفادات کے تابع یا ان کی حکمرانی کو مزید موثر اور طاقت دینے کے کھیل کا حصہ بنی ہوئی ہے ۔
یہ جو روائتی اور فرسودہ طرز کی سیاست ہے اس کا خاتمہ ہماری سیاسی جماعتوں یا جن کے ہاتھوں میں سیاسی قیادت ہے ان کی ترجیحات کا حصہ نہیں اور نہ ہی وہ اس کے لیے کوئی غیر معمولی اقدام اٹھانے کے لیے تیار ہیں ۔آپ سیاسی جماعتوں کے مجموعی منشور کا جائزہ لیں تو محسوس کریں گے کہ یہ منشور پانچ برس کا نہیں بلکہ کوئی پندرہ سے بیس برسوں تک محیط ہے ۔ جب کہ اقتدار ملنے کی صورت میں پانچ برسوں میں کیا کیا جائے گا اس پر کوئی غور وفکر موجود نہیں ۔مسئلہ محض سیاسی جماعتوں تک محدود نہیں بلکہ یہاں انتخابات کی سیاست میں عام آدمی یا ووٹرز بھی ان منشور کو بنیاد بنا کر ووٹ دینے کے بجائے سیاسی شخصیت پرستی یا دیگر مسائل یا جذباتیت میں موجود پسند و ناپسند کی بنیاد پر ووٹ ڈالتے ہیں ۔
اسی طرح ہر انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے لیے ایک لہر بھی اہم ہوتی ہے جو بتاتی ہے کس کی جماعت نے اقتدار میں آنا ہے اور کس کو اقتدار کے کھیل سے باہر رکھنا ہے۔
پاکستان میں سیاسی جماعتوں کی سطح پر دیکھیں تو پیپلزپارٹی کی پچھلے پندرہ برسوں سے سندھ میں، مسلم لیگ ن کی تسلسل کے ساتھ پنجاب میں دس برس اور پی ٹی آئی کی خیبرپختونخواہ میں کوئی ساڑے آٹھ برس تک حکومت رہی ہے اوریہ حکومتیں18ویں ترمیم کے بعد صوبائی سطح پر موجود مضبوط خودمختاری اور مالیاتی اختیارات کے ساتھ جڑی ہوئی ہے ۔لیکن اس کے باوجود ہمیں صوبائی سطح پر سیاسی جماعتوں کی کارکردگی کو دیکھیں تو اس پر بھی کئی سوالیہ نشان ہیں ۔
مثال کے طور پر معیشت کو ہی دیکھ لیں جو آج ہمارا سب سے زیادہ حساس معاملہ ہے اس پر مسلم لیگ ن کے بقول مہنگائی کو کم کرکے چار سے چھ فیصد تک لانا، جب کہ 2050تک مہنگائی کم کرکے 10 فیصد تک لانا، ایک کروڑ سے زائد نوکریاں، غربت میں 25فیصد کمی، فی کس آمدنی دو ہزار ڈالر، گردشی قرضوں کا مستقل خاتمہ، جیسے اہم نکات شامل ہیں ۔
اسی طرح پی ٹی آئی کے بقول مہنگائی کم کرکے پانچ سے سات فیصد لانا، ایک کروڑ نئی نوکریاں، قرضوں کا حجم کم کرتے ہوئے جی ڈی پی کے 60فیصد سے نیچے لانا، خرچوں میں کمی، پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ اور بیرونی سرمایہ کاری کا فروغ، پیپلز پارٹی کو دیکھیں تو ٹیکس کا حصول جی ڈی پی کا پندرہ فیصد، نئے ایف سی ایوارڈ کا اعلان بہتری کے ساتھ، کم اجرت والے افراد کی آمدنی میں ہر برس آٹھ فیصد اضافہ، وسیلہ حق پروگرام، آسان قرض کی فراہمی، معاشی خود مختاری کے لیے سخت فیصلے بھی شامل ہیں ۔
جماعت اسلامی نے میثاق معیشت کی تیاری، طویل معاشی منصوبہ 2050 پاکستان وژن، سودی معیشت اور سودبینکاری کا خاتمہ معیشت کی بنیاد حل آمدن قیمتوں کی کمی، غربت کے خاتمہ کے لیے دس کروڑ عوام سے زکوۃ و عشر سے ایک کروڑ غریب گھرانوں کی اڑھائی لاکھ روپے کی سالانہ مدد، عالمی بینک، مالیاتی اداروں کے اندرونی اور بیرونی قرضے جات کا خاتمہ شامل ہے ۔ ان تمام نکات کو بنیاد بنا کر ہم معاشی ماہرین کی مدد سے تجزیہ کرسکتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں معیشت کی ترقی کے دعوؤں میں کہاں کھڑی ہیں ۔