انتخابات… عوامی رائے کا اظہار
عوامی سروے یہ بتا رہے ہیں کہ ووٹرز اپنے ووٹ سے اپنی آزادانہ رائے کا اظہار کرنے کے لیے تیار ہیں
ملک بھر میں سیاسی گہماگہمی اختتامی مرحلے میں پہنچ گئی ہے، انتخابی مہم میں وہ جوش وجذبہ نظر نہیں آیا جو عام انتخابات کا خاصا ہوتا ہے، اس کی ایک وجہ انتخابات کے انعقاد کے بارے میں غیر یقینی کا تاثر پیدا ہونا کہی جا سکتی ہے کیونکہ یہ چہ مگوئیاں مسلسل جاری رہیں کہ شاید عام انتخابات ملتوی ہو جائیں ، اسی گو مگو کی کیفیت میں عوامی ہل چل نظر نہیں آئی اور انتخابی سرگرمیاں قدرے پھیکی پھیکی رہیں۔
مسلم لیگ نواز ، پیپلز پارٹی نے محدود تعداد میں انتخابی جلسے منعقد کیے لیکن گلی محلوں میں امیدوار کارنر میٹنگز سے خطاب نہیں کرپائے۔ تحریک انصاف کے امیدواروں کے پاس بلے کا انتخابی نشان نہ ہونے کے باعث بطور جماعت اس کی سرگرمیاں محدود رہیں ۔ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار وں نے اپنی انتخابی مہم میں رنگ بھرنے کی کوشش ضرورکی تو ان کے رنگ میں بھنگ ڈال دی گئی ۔
پاکستانی عوام سیاستدانوں کی سیاسی رمزوں سے واقف ہو چکے ہیں اور کسی خوش نما وعدے کے جھانسے میں آنے کو قطعاً تیار نظر نہیں آتے اور نہ ہی کوئی ایسا نیا نعرہ یا وعدہ پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ نواز کی پٹاری سے برآمد ہو سکا ہے جس سے عوامی توجہ ان کی جانب مرکوز ہو سکے۔
عام انتخابات جن کے متعلق یہ پیش گوئی کی جارہی ہے کہ ان انتخابات کے نتیجے میں کوئی پارٹی قطعی اکثریت حاصل نہیں کرپائے گی، یوں ان انتخابات کے نتائج سے سیاسی استحکام آئے گا یا نہیں، فی الحال پیش گوئی کرنا درست نہیں ہوگا۔
بعض دانشور حضرات تجزیہ پیش کررہے ہیں کہ انتخابی عمل سے سیاسی جماعتوں میں مزید کشیدگی پیدا ہو گی اور مستحکم حکومت کی بنیاد شاید ہی رکھی جا سکے بلکہ ایک مخلوط حکومت وجود میں آئے گی ،جو شدید معاشی بحران پر شاید قابو نہ پاسکے۔
ان خدشات کا اظہار کیوں کیا جارہا ہے اور اس کی کیا وجوہات ہیں ۔ انتشار اور بحران کی پیش گوئی کرنے والے ان دانشور وں کی محفل میں ان خدشات سے نکلنے کا ایک ہی حل تجویز کیا جا رہا ہے کہ ملک کی تما م سیاسی پارٹیوں کو انتخابی عمل میں شرکت کے یکساں مواقعے فراہم کیے جانے چاہیے تھے ۔
بہرحال عوامی سروے یہ بتا رہے ہیں کہ ووٹرز اپنے ووٹ سے اپنی آزادانہ رائے کا اظہار کرنے کے لیے تیار ہیں اور آٹھ فروری کوعوام ووٹ ہی نئے حکومتی سیٹ اپ کا نقشہ واضع کریں گے۔ انتخابی نتائج توقعات کے برعکس بھی ہو سکتے ہیں۔
انتخابات کے ذریعے حاصل کی گئی عوامی رائے کسی بھی ملک کے مستقبل کا فیصلہ کرتی ہے اور جمہوری طرز حکومت میں عوام کی رائے کو ہی مقدم رکھا جاتا ہے۔ رائے عامہ کے حصول کا سب سے آسان اور موثر ذریعہ عام انتخابات ہوتے ہیں ۔ کل ہونے والے انتخابات کے بارے میں ایک پیش گوئی یہ بھی کی جارہی ہے کہ ان انتخابات کے نتائج میں آزاد امیدواروںکی ایک کثیر تعداد بھی انتخابات جیت سکتی ہے۔
زیادہ تر آزاد امیدوار تحریک انصاف کے حمایت یافتہ ہیں ، اگر آزاد امیدواروں کی ایک کثیر تعداد انتخابات جیتنے میں کامیاب ہو گئی تو یہ مسلم لیگ ن کے لیے مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔
اس بات پر تو تما م متفق ہیں کہ عوامی رائے اور حقائق سے دانستہ پردہ پوشی کے نتائج کوئی خوش کن نہیں نکلتے اور اگر عوام کی رائے کو فوقیت نہ دی جائے تو جمہوری طرز حکومت پنپ نہیں سکتا اور جمہوری طرز حکومت میں رخنہ ڈالنے کے نتائج جمہوریت سے محروم بھی کر سکتے ہیں۔
بہر حال پاکستانی عوام کل عام انتخابات میں ووٹ کے ذریعے اپنی رائے کے اظہار کے لیے بالکل تیار نظر آ تے ہیں اور اگلے اڑتالیس گھنٹے میں یہ فیصلہ ہو جائے گا کہ ملک کی حکمرانی کے لیے عوامی رائے کس کے حق میں ہے۔