فلاحی کام ضروری ہیں مگر
شہرکی گنجانیت میں سماجی ساجھے داری بہت کمزور پڑ رہی ہے، جس کا نتیجہ احسن رضا جیسے المیوں کی صورت میں نکل رہا ہے
گزشتہ دنوں کراچی میں ایئر پورٹ کے علاقے میں بیوی اور تین بچوں کو قتل کر کے خود کُشی کرنے کا لرزہ خیز واقعہ پیش آیا۔ بتایا گیا کہ متوفی احسن رضا رضوی کو ملبوسات کا کاروبار ختم ہونے کے بعد سے شدید معاشی مشکلات درپیش تھیں۔ اس نے خودکُشی سے پہلے چھوڑے گئے خط میں سب کو خدا حافظ کہا اور بتایا کہ اس کو بہت سے لوگوں کے پیسے دینے ہیں اور بہت سے لوگوں کے ذمے بھی اس کی رقم واجب الادا ہے۔
وقوعے کے روز اس کی والدہ ناشتہ لے کر پہنچیں، تو یہ الم ناک واقعہ سامنے آیا۔ اس افسوس ناک واقعے کے بعد ایک بار پھر یہ باتیں شروع ہوگئیں کہ فلاں غیر سرکاری تنظیم سے مدد لینی چاہیے یا فلاں جگہ سے راشن وغیرہ مل جاتا ہے۔ ایک ' این جی او' نے تو باقاعدہ یہ اعلان تک کردیا کہ مالی تنگی کے خوف سے اپنے بچوں کو نہ ماریے بلکہ ہمارے سپرد کر دیجیے!
انسان اپنی آخری سانس تک زندگی کے لیے کیا کیا جتن نہیں کرتا، لیکن پھر کیا وجہ ہے کہ وہ حالات سے تنگ آکر اپنی جان لے لیتا ہے۔ یہ نہایت حساس دل، خود دار اور اپنے حالات کی بے بسی ہوتی ہے، جو انھیں مسلسل کچوکے لگاتے ہوئے اس انتہا کی جانب دھکیل دیتی ہے۔ آپ اسی واقعے کو دیکھیے کہ ایک اچھے باشعور گھرانے کے فرد نے اپنی شریک حیات اور اپنے جگرگوشوں کوکیسے موت کے گھاٹ اتار دیا۔
ذرا سوچیے کہ ان بچوں کی بنیادی ضرورتیں اور خواہشات کے سامنے اس نے کتنے دن اذیت ناک بے بسی سہی ہوگی۔ اپنے زور بازو پر بھروسا رکھنے والے کو کیسے کیسے بدلتے رویے اور لوگوں کی خود غرضی کا سامنا کرنا پڑا ہوگا۔
اسے کن حالات نے ایک بند گلی میں لے جا کر کھڑا کر دیا ہوگا، جہاں اس کی ساری خود داری اور سفید پوشی کا بھرم تار تار ہونے لگا ہوگا، وہ شاید کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی ذلت نہ سہار سکا، وہ کسی سے کہہ بھی سکا یا شاید جن سے کہا ہو، انھوں نے اسے مایوس کیا ہو۔ تبھی اس کی غیرت اور حمیت نے اس کی عقل اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو مائوف کر دیا اور اس نے اپنی دنیا اپنے ہاتھوں سے اجاڑی اور خود کو بھی ختم کر لیا۔
یہ جہاں ایک طرف ایک ریاستی المیہ ہے کہ مہنگائی اور بے روزگاری کے ہاتھوں لوگ کن حالات سے دوچار ہیں، وہیں اس کا ایک اہم ترین پہلو اس شہر کراچی سے متعلق ہے، جی ہاں! ایک ایسا شہر جو غریبوں کی ماں کہلاتا ہے، جس کی ایک لیاقت آباد مارکیٹ کا ٹیکس پورے لاہور شہر سے زیادہ ہے! جو دنیا بھر میں عطیات، چندے اور فلاحی کاموں کے لیے دل کھول کر مدد کرنے والا ہے، جہاں ملک کے کونے کونے سے لوگ آکر اپنے کاروبار نہایت کام یابی سے چلا رہے ہیں، ملازمتیں بھی پا رہے ہیں، وہاں اس شہر میں ' حالات سے تنگ ' ایک نہیں ہزاروں لاکھوں ' احسن رضا ' موجود ہیں، جن پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
آخر اس شہر کے نوجوانوں اور کفیل مردوں کا المیہ ہے کیا؟ یہ المیہ صرف بے روزگاری ہی تو نہیں۔۔۔ یہ کئی ملکوں سے بڑا شہر پانی، بجلی، گیس، صفائی اور سیاسی آزادی جیسی بنیادی سہولتوں سے محروم ہے۔ یہ سارے امور خراب معاشی حالت اور فرد کی ذہنی و نفسیاتی کیفیت کو خراب کرنے میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔
ہم سے اکثر احباب یہ سوال کرتے ہیں کہ تم لوگ اپنے شہر میں کاروبار میں کامیاب کیوں نہیں، جب کہ دوسرے شہروں کے لوگ بہ آسانی ہزاروں روپے کرائے کی دکان اٹھا کر اپنا کام کر رہے ہیں، تمہارے ہاں، اکثر دوسرے، تیسرے مہینے ہی دکان کا کرایہ نہیں نکلتا اور پھر دکان خالی کر کے دوبارہ ادھر ادھر بھٹکنے لگتے ہو۔
شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ایسی دکانوں اور کاروبارکرنے والوں کی 'رہائش' بھی انھی دکانوں میں ہوتی ہے، یا پھر وہ مشترکہ طور پر ایسی جگہ رہ رہے ہوتے ہیں جہاں کا ماہانہ کرایہ فی مسافر ایک ہزار روپے سے بھی کم پڑتا ہے، جب کہ اس شہر میں رہنے والے ایک تو چھوٹے کاموں سے دور رہتے ہیں، دوسرا یہ شہروں میں رہنے والے ہیں، لامحالہ شہری تقاضے اور گھر بار کے لیے ضروریات 'مجبوری' بن کر ان پر سوار رہتی ہیں۔ جب کہ اکثر مسافر تاجروں کو ایسی کوئی فکر نہیں۔ ان کے آبائی علاقوں میں بیوی بچوں کے کھانے پینے اور سر پر چھت کا ایک مستقل بندوبست موجود ہے۔
اب آجائیے، ملازمتوں کے المیے کی طرف۔ جیسے ایک 'این جی او' نے مشورہ دیا کہ کفالت نہیں ہو رہی تو اپنے بچے ہمیں دے دیجیے، ایسے ہی کراچی میں اب کوئی بھوک کے مارے ہاتھ پھیلائے تو اسے جواب ملتا ہے، جائو، فٹ پاتھ دسترخوان سے کھالو! اور آپ کو ماننا پڑے گا کہ یہ ' فٹ پاتھ' کے ' مفت دسترخوان ' اس شہر کی معاشی بدحالی اور مسائل کا ایک بہت بڑا سبب بن چکے ہیں۔
اس کی سب سے پہلی وجہ یہ ہے کہ جو لوگ کراچی ملازمتوں کے لیے آئے ہیں، انھوں نے باقاعدہ ان دستر خوانوں پر انحصارکر لیا ہے، وہ تینوں وقت کا بہترین کھانا ان دستر خوانوں سے کھاتے ہیں اور اس طرح سرمایہ داروں اور تاجروں کے لیے کم پیسوں میں بھی کام کرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں، جب کہ اتنی تنخواہ میں اس شہر والے کا گزارا نہیں ہوتا۔
نتیجتاً اس شہر کی فیکٹریوں، کارخانوں اور مختلف اداروں کی ملازمتیں ان کے ہاتھ سے نکل رہی ہیں۔ آپ کسی بھی دسترخوان پر لگی ہوئی لمبی لمبی قطاریں دیکھ لیجیے، آدھے سے زیادہ لوگ سیکیورٹی گارڈ یا کسی ادارے کی وردی پہنے یا ہیٹ اوڑھے ہوئے ہوتے ہیں، جو اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ ان کی تنخواہیں اتنی نہیں کہ وہ اپنے کھانے پینے کی ضرورت پوری کر سکیں۔
یہی وجہ ہے کہ اس شہر کے متوسط طبقے کے نوجوان بدترین معاشی بدحالی کا شکار ہو کر کسی انتہائی قدم کی جانب بڑھ رہے ہیں، کیوں کہ وہ ایسے دسترخوانوں پر جانے کا کبھی سوچ بھی نہیں سکتے۔ بالکل ایسے ہی زکوٰۃ یا عطیات وغیرہ کے لیے بھی یہ کبھی اپنی ضرورت کا اظہار نہیں کرتے، ہمیں اپنے رشتہ داروں اور محلے داروں تک کا پتا نہیں ہوتا کہ کس کے کیا حالات ہیں؟
شہرکی گنجانیت میں سماجی ساجھے داری بہت کمزور پڑ رہی ہے، جس کا نتیجہ احسن رضا جیسے المیوں کی صورت میں نکل رہا ہے۔ کاش! ہمارے فلاحی ادارے یہ چکن تکے، قورمے اور بریانی جیسے مرغن کھانے کھلانے کے بجائے، اس سے جڑے المیے کی طرف بھی کچھ توجہ کریں۔ وہ جو کہتے ہیں کہ ' مچھلی نہ دیں، مچھلی پکڑنا سکھائیں ' اور یہ ادارے اس رقم کو کسی ہنر سکھانے یا کسی فیکٹری بنانے پر لگائیں اور لوگوں کو اپنے پیروں پر کھڑا کریں۔
ساتھ ہی وہ لوگ جو اپنے ملازمین کو اس مہنگائی میں مناسب تنخواہ نہیں دیتے اور عطیات کے نام پر خوب روپیا خرچ کر کے سمجھتے ہیں کہ حق ادا کر دیا۔ یہ ان کی بہت بڑی غلط فہمی ہے، اگر وہ اس کے بدلے اپنے ملازمین کی تنخواہیں بڑھا دیں، جس سے وہ کم از کم عزت سے زندگی تو گزار سکیں، تو یہ امر اس سے کہیں زیادہ بہتر ہوگا۔