آزاد امیدواروں کی جیت تحقیق طلب پہلو
بلاشبہ آزاد امیدواروں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ آئینی اور قانونی طور پر کسی بھی سیاسی جماعت میں جا سکتے ہیں
آٹھ فروری کے انتخابات میں بڑی تعداد میں آزاد امیدواروں کی کامیابی کی وجوہات کا تجزیہ سبھی سیاسی قائدین، دانشوروں کو ضرور کرنا چاہیے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ اس جمہوری صدا کو نظر انداز نہ کیا جائے۔
حقیقت احوال یہ ہے کہ ووٹرز نے تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کی بڑی تعداد کو ووٹ کے ذریعے کامیاب کرایا ہے۔
پی ٹی آئی کا بانی چیئرمین جیل میں سزا کاٹ رہا ہے، اس پارٹی کے کئی لیڈر جیل میں ہیں اور کئی روپوش ہیں، جیلوں میں بند رہنماؤں نے بھی آزاد حیثیت میں الیکشن لڑا ہے اور کئی جیتے بھی ہیں۔ہم سب کو آزاد امیدواروں کے مینڈیٹ کی پاسداری کرنا چاہیے، عوامی مینڈیٹ کا احترام ایک جمہوری ملک میں سب کا فرض ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت سازی کا عمل کیسے مکمل ہو تا ہے لیکن اس وقت اس امر کا جائزہ ضروری ہے کہآزاد امیدواروں کی اتنی بڑی تعداد کیوں جیتی ہے۔ اصل میں نوجوان ووٹرزکی اکثریت تاحال عمران خان کے سحر میں مبتلا ہے ، پھر پڑھے لکھے لوگ مسلم لیگ ن ، پیپلز پارٹی ، جے یو آئی اور اے این پی وغیرہ کی کئی حکومتیں دیکھ چکے ہیں ، ان کا خیال ہے کہ ان جماعتوں کی لیڈر شپ کے پاس پرانے باتوں کے سوا کچھ نہیں ہے اور وہ کسی بھی طرح "وعدہ فردہ" کا انتظار نہیں کرنا چاہتی۔
یہ مینڈیٹ اس بات کا کھل کر اظہار کر رہا ہے کہ اب ان کی قوت برداشت کا پیمانہ لبریز ہونے کو ہے۔ دوسرا سوشل میڈیا کا پراپیگنڈا بھی کام کرگیا ہے۔ سوشل میڈیا جس انداز میں پی ٹی آ ئی کی حریف سیاسی قیادت پر الزامات کی بوچھاڑ کرتا آرہا ہے، اب بیلٹ باکس نے بھی ایک واضح درجہ بندی کر دی ہے۔ پاکستانی سیاسی نظام جو عرصہ دراز سے ایک بھنور میں پھنسا ہوا ہے اسے مزید گرداب میں جانے سے روکنا سب کی ذمے داری ہے۔
بلاشبہ آزاد امیدواروں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ آئینی اور قانونی طور پر کسی بھی سیاسی جماعت میں جا سکتے ہیں۔ البتہ ان امیدواروں کی وفاداریوں کو خریدنا یا انھیں ڈرا دھمکا کر کسی مخصوص سیاسی جماعت کی طرف دھکیلنا غیر جمہوری عمل کہلائے گا، اگر آزاد منتخب افراد کسی بھی جماعت میں جانے کا فیصلہ بغیر کسی لالچ یا دباؤ کے تحت کریں تو یہ عمل قابل اعتراض نہ ہوگا۔
اس طرح اگر یہ ازاد آمیدوار انتخابی اور پارلیمانی قواعد کے مطابق اگر اپنا ایک الگ گروپ بنا کر پارلیمنٹ میں متحرک کردار ادا کرنا چاہیں تو انھیں اس کا موقع دیا جانا چاہیے۔ان آزاد امیدواروں کے پارلیمانی حق کا راستہ ماہرین قانون اور سیاسی قائدین باآسانی راستہ نکال سکتے ہیں۔ شرط صرف یہ ہے کہ عوامی مینڈیٹ کا احترام پیش نظر ہو۔ عقلی توجیہات کی بنیاد پر ووٹرز کی اجتماعی دانش کو رد کر کے کوئی بھی فیصلہ کرنا کسی بھی طرح سود مند نہ ہوگا۔
میں نے آٹھ فروری سے چند دن پہلے جنوبی پنجاب، وسطی پنجاب اور شمالی پنجاب کئی شہروں کا دورہ کیا، اس سفر کے دوران میں نے بہاولپور، ملتان، اوکاڑہ ، پاک پتن، دیپال پور، ساہیوال، فیصل آباد، سرگودھا ،لاہور ،گجرانوالہ، جہلم، راولپنڈی اور اسلام آباد کے دیہی اور شہری علاقوں میں مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کے حامیوں کی گرم جوشی دیکھی ہے۔ حالیہ الیکشن کے نتائج کے کئی اوردلچسپ اور چشم کشا پہلوؤں پر انشاء اﷲ ایندہ بات ہوگی۔