تعلیمی ترجیحات اور سیاسی جماعتیں
ہمیں اپنے ریاستی نظام یا حکومتی ترجیحات کی سطح پر ’’ تعلیمی ایمرجنسی ‘‘ کی ضرورت ہے
پاکستان میں تعلیمی ترجیحات کو دیکھنا ہو تو ہمیں سیاسی حکومتوں کی ترجیحات کا جائزہ لینا پڑتا ہے۔کیونکہ سیاسی جماعتوں کی ترجیحات اور مضبوط کمٹمنٹ کی بنیاد پر ہی ہم تعلیمی نظام کی تشکیل کرسکتے ہیں او راسے سمجھ بھی سکتے ہیں۔
سیاسی جماعتوں کی ترجیحات کو دیکھنے کا ایک پیمانہ ان کے انتخابی منشور ہوتے ہیں ، اس کی بنیاد پر تجزیہ کرسکتے ہیں کہ کون کہاں کھڑا ہے اور کس کی تعلیمی سمت بہتر ہے ۔اگرچہ سیاسی جماعتوں کے انتخابی منشور یا ان پر عملدرآمد کے نظام میں لاتعداد تضادات اور الجھاؤ نظر آتا ہے او راسی بنیاد پر یہ نتیجہ بھی اخذ کیا جاتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کی ترجیحات کو دیکھیں تو اس میں ہم کافی کمزور بھی ہیں اور پیچھے کھڑے ہیں ۔
اگر ہم چار بڑی جماعتوں کے 2024کے انتخابات کے تناظر میں انتخابی منشور او رتعلیمی ترجیحات کو دیکھیں تو اس میں کئی سوالات ہیں۔اول مسلم لیگ ن کی تعلیمی ترجیحات میں پرائمری تعلیمی اخراجات کے لیے جی ڈی پی میں 0.4فیصد اضافہ جب کہ اعلیٰ تعلیم کی بنیاد پر 0.5فیصد اضافہ، مواقع کا پیہہ پروگرام کا آغاز، ایوننگ اسکولز کا قیام ، مزید دانش اسکولز کا قیام ، STEMمشین لرننگ تعلیم کا آغاز، یونیورسٹی صنعت تعلیم کا آغاز،اعلیٰ تعلیم تک رسائی 13فیصد سے بڑھا کر 30فیصد کرنا شامل ہے۔
تحریک انصاف کی سطح پر دیکھیں تو ان کی جانب سے بھی جی ڈی پی میں 04فیصد تعلیم پر خرچ، 90فیصد قومی خواندگی کا ہدف، بچوں کی بنیادی تعلیم او رنئے تعلیمی داخلوں میں اضافہ، امتحانی نظام کی ازسرنو تشکیل , پوزیشن والے نظام پر گریڈنگ سسٹم کو ترجیح دینا شامل ہے ۔
ان کے برعکس پیپلزپارٹی کی طرف دیکھیں تو ان کے بقو ل جی ڈی پی کا 05فیصد تعلیم پر خرچ, جی ڈی پی کا 0.1فیصد ریسرچ اینڈ ڈولیپمنٹ پر خرچ, 5تا 18برس مفت تعلیم , وسیلہ تعلیم پروگرام کا آغاز, اسکول جاو , ہنر بڑھاو پروگرام میں اضافہ, ای لرننگ پلیٹ فارمز کا قیام , بیٹی پڑھاو قسمت جگاو پروگرام میں اضافہ , پرائمری اسکول 30منٹ جب کہ ہائر سیکنڈری اسکولز 60منٹ کی دوری پر قائم ہوگا۔
جماعت اسلامی کے منشور کو دیکھیں تو اس میں کافی تفصیل نظر آتی ہے ۔ ان میں تعلیم کو انسان کا بنیادی حق قرار دیا گیا ہے اور بلاتفریق رنگ، نسل، مذہب سب کو لازمی تعلیم ، یکساں تعلیمی نظام اور اخلاقیات یا معاملات کو سنوارنے کا نظا م،آئینی ترمیم کی مدد سے تعلیم کو وفاق کے شعبہ میں لانا ، پچاس نئی یونیورسٹیوں او رٹیکنکل کا لجز کا قیام ، مخلوط تعلیم کا خاتمہ ، سائنس و ٹیکنالوجی یا ہائر ایجوکیشن کے لیے بجٹ میں اضافہ ، جی ڈی پی کا 05فیصد تعلیم پر خرچ، طلبہ و طالبات کو بلاسود قرضے، منشیات کی روک تھام پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔
18ویں ترمیم کے بعد ہم نے تعلیم کو ایک صوبائی معاملہ بھی بنایا ہوا ہے اور اب وفاق سے زیادہ اس کی ذمے داری صوبائی حکومتوں پر بھی عائد ہوتی ہے ۔ جو عالمی سطح پر عالمی دنیا او راداروں سے ریاستی بنیاد پر ماہدے ہوتے ہیں او رہم ان پر وعدہ کرتے ہیں کہ ان نکات پر عمل کرکے ہم تعلیم کو ترجیحی بنیادوں پر حل کریں گے مگر ان کا تجزیہ کریں تو وفاق اور صوبوں کے درمیان کمزور سطح کی رابطہ کاری ,نگرانی اور جوابدہی کا نظام معاملات میں نئی خرابیوں کو جنم دیتا ہے۔
اس ملک میں ہمیں اعلیٰ تعلیم کی ترویج کے لیے وفاقی اور صوبائی سطح پر ہائر ایجوکیشن کمیشن تو نظر آتے ہیں لیکن ان ہی حکمرانوں کی ترجیحات میں وفاقی اور صوبائی سطح پر پرائمری ایجوکیشن کمیشن کی ضرورت کو کبھی بھی اہمیت نہیں دی گئی ۔جی ڈی پی میں ہمیشہ سے تعلیمی بجٹ میں اضافہ کی بات کی جاتی ہے مگر اس پر کوئی بھی سیاسی حکومتیں سنجیدگی سے عملدرآمد کے لیے تیار نہیں ۔
تمام جماعتیں 1973کے آئین میں موجود 25-Aکو بنیاد بنا کر تعلیم سب کو دینے کی بات کرتی ہیں مگر آج بھی ملک میں آدھی سے زیادہ آبادی کو بنیادی تعلیم کا حق ہی نہیں اور لڑکیوں کی شرح خواندگی کم نظر آتی ہے۔ ہائرایجوکیشن میں مسلسل بجٹ کی کٹوتی ,حکومت مداخلت اور تعلیمی سربراہان کے مقابلے میں بیوروکریسی کی اجارہ داری سمیت تعلیمی معیارات اور جامعات کی گورننس جیسے معاملات پر توجہ نہ دے کر ہم نے اعلیٰ تعلیم میں موجودمسائل کو اور زیادہ گہرا کردیا ہے۔
جامعات کو چلانے کے لیے ایڈہاک پالیسی نے حالات کو بہتر بنانے کے بجائے ان میں مزید بگاڑ پیدا کیا ہے۔ ہمیں سیاسی جماعتوں کے منشور میں کچھ نکات تعلیم کے تناظر میں دیکھنے کو ملتے ہیں مگر ہمیں ان کے داخلی نظام میں کوئی تھنک ٹینک نظر نہیں آتے' جو تعلیم میں تھنک ٹینک کام کررہے ہیں' ان کے ساتھ ان کا کوئی رابطہ نہیں اور نہ ہی ہمیں پرائمری سے اعلیٰ تعلیم تک پر کوئی پالیسی پیپرز دیکھنے کو نہیں ملتے ۔
ہمیں اپنے ریاستی نظام یا حکومتی ترجیحات کی سطح پر '' تعلیمی ایمرجنسی '' کی ضرورت ہے ۔ ہر شعبہ یعنی پرائمری سے ہائر ایجوکیشن یا ٹیکنیکل ایجوکیشن تک غیر معمولی فیصلے درکار ہیں۔
اس میں مضبوط ریاستی ,حکومتی اور سیاسی جماعتوں کی کمٹمنٹ , غیر معمولی وسائل کو مختص کرنا، عالمی معیارات اور ماہدات کی مکمل پاسداری اور عملدرآمد کا شفاف نظام ,تعلیم کی گورننس، بیوروکریسی کے مقابلے میں تعلیمی ماہرین کی بنیاد پر تعلیمی اصلاحات، تعلیمی پالیسیوں میں تسلسل اور نئے عالمی رجحانات کی بنیاد پر تبدیلیاں، تعلیمی معاملات میں سیاسی مداخلتوں کا خاتمہ ، وفاقی اور صوبائی سطح پر پرائمری ایجوکیشن کمیشن کی تشکیل ، نصاب کی سطح پر غیر معمولی تبدیلیاں ، تعلیم اور صنعت کے درمیان باہمی تعلق کو مضبوط بنانااور تعلیم اور روزگار کے باہمی تعلق کو مضبوط کرنا ہے۔
بنیادی خرابی تعلیمی ماہرین کے مقابلے میں حکومتوں کا بیوروکریسی پر بڑھتا ہوا انحصار تعلیم میں خرابیوں کو جنم دیتا ہے ۔اسی طرح تعلیم سے جڑے پالیسی ساز, تھنک ٹینک اور تعلیمی ماہرین کی جانب سے ریاستی اور حکومتی سطح پر بطور پریشر گروپ کام نہ کرنا ، دباو نہ ڈالنا، ایڈوکیسی یا لابنگ کا نہ ہونا بھی کمزور پالیسیوں کی عکاسی کرتا ہے ۔