قانون کی حکمرانی اور مملکت ناپرساں

یہاں صرف دو ہی اقسام کے لوگ بستے ہیں، ایک وہ جن کا ’’کوئی پرساں‘‘ نہیں، دوسرے وہ جن سے کوئی پرساں نہیں


Saad Ulllah Jaan Baraq February 11, 2024
[email protected]

مملکت ناپرساں عالیشان سے جو تازہ ترین بریکنگ نیوز آئی ہے، اس کے مطابق وہاں ان دنوں ایک عظیم الشان، حیران و پریشان، انگشت بدنداں اور خامہ سربگریباں بحران کی خبر ہے۔

ملک بھر میں یہ تحریک زورں سے چل رہی ہے بلکہ دوڑ رہی ہے کہ ملک کا نام تبدیل کرکے مقدمستان یعنی مقدمہ ستان رکھ دیا جائے کیونکہ وہاں آج کل صرف مقدمات ہی مقدمات چل رہے ہیں اور مقدمات کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں چل رہا ہے۔ یہاں مقدمات وہاں مقدمات، دائیں بائیں، آگے پیچھے، اوپر نیچے ہر جگہ ہرطرف تاریخ پہ تاریخ اور وکیل پہ وکیل کا ماحول ہے۔

لوگ مقدمات اور تاریخ پہ تاریخ کے علاوہ نہ کچھ کرتے ہیں نہ کہتے ہیں نہ سنتے ہیں نہ لکھتے ہیں نہ پڑھتے ہیں یعنی جدھر دیکھیے ادھر تو ہی تو۔بلکہ تُھو ہی تھو ہے۔لوگ مقدمات کھاتے ہیں، مقدمات پیتے ہیں، مقدمات پہنتے ہیں، مقدمات دھوتے ہیں، نچوڑتے ہیں اور اوڑھتے ہیں۔

ہر طرف ہر جگہ بے شمار آدمی

پھر بھی تنہائیوں کا شکار آدمی

صبح سے شام تک بوجھ ڈھوتا ہوا

اپنی لاشوں کا خود ہی مزار آدمی

ویسے تو مملکت ناپرساں عالیشان کا پہلے والا نام یعنی ''ناپرساں'' بھی حسب حال ہے کہ یہاں صرف دو ہی اقسام کے لوگ بستے ہیں، ایک وہ جن کا''کوئی پرساں'' نہیں، دوسرے وہ جن سے کوئی پرساں نہیں۔ لیکن یہ نیا نام''مقدمستان''کچھ زیادہ ہی موزوں، موزوں تر اور موزوں ترین ہے بلکہ حسب حال،حسب حال تر اور حسب حال ترین بھی ہے کہ یہاں کی واحد صنعت، واحد پیداوار، واحد زراعت اور واحد''قومی پیشہ'' صرف مقدمات ہیں۔

اندازہ اس سے لگایئے کہ وکالت کا پیشہ اتنا بار آور ہوگیا ہے کہ پہلے سے اچھے روزگاr والے ڈاکٹرز،انجینئرز،پروفیسرز، اساتذہ راشی المرتشی یہاں تک کہ پولیس والے بھی قانون کی ڈگری لے کر اس پیشے میں آرہے ہیں۔ تمام درسگاہوں کے طالب علم بھی قانون کی تعلیم کرنے لگے ہیں بلکہ کپڑوں کے ایک تاجر نے کہا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ چند سال بعد ملک میں ''بلیک اینڈ وائٹ'' کپڑے کے سوا اور کسی بھی رنگ کے کپڑوں کا کوئی خریدار نہ رہے۔

مقدمات کی اس درجہ فراوانی کو دیکھ کر حکومت نے اعلان کیا ہے کہ عدالتوں میں صرف سیاسی مقدمات ہی لڑے جائیں اور صرف وہ لوگ ہی مقدمات لڑیں جن سے کوئی ''پرساں''نہیں اور خدامارے جن کا کوئی پرساں نہیں اپنے سارے مقدمات واپس لے کر کسی اور ملک چلے جائیں کیونکہ ملک کا نظام صرف اور صرف سیاسی مقدمات کے لیے مختص کردیا گیا ہے بلکہ بہتر یہی ہوگا عوام کالانعام اپنے مقدمات گلی کوچوں میں لڑیں بلکہ لڑیں مریں۔حکومت کے پاس اتنا بجٹ کہاں ہے کہ عوامی مقدمات کے لیے بھی عدالتیں فراہم کرنے کی عیاشی کرسکے۔

نہ تن میں خون فراہم نہ اشک آنکھوں میں

نماز شوق تو واجب ہے بے وضو ہی سہی

بلکہ تجزیہ کاروں کا تو کہنا ہے کہ حکومت کو اس معاملے میں کوئی تردد کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی کیونکہ وکیلوں اور عدالتوں کے خرچے اتنے اونچے ہوجائیں گے کہ عوام کالانعام کسی عدالت یا تھانے کے پاس سے بھی گزرتے ہوئے ڈریں گے۔اگر کوئی لٹ جائے گا، قتل ہوجائے گا یا ریپ ہوجائے گا،تو وہ تھانے کچہری جاکر دوبارہ لٹنے، قتل ہونے اور ریپ ہونے کی کوشش کیوںکرے، وہ بھی اپنی محنت کی کمائی خرچ کرکے۔

کیا وہ پاگل ہے جو ایک بار''دیکھنے''کے بعد دوبارہ بلکہ بار بار دیکھنے کی ہوس کرے، اس لیے ''چپ''رہنا ہی بہتر سمجھے گا۔بلکہ اب بھی یہی ہورہا ہے۔ ایک تجزیہ نگار نے چشم دید اور گوش شنید واقعہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ ایک عام آدمی کے گھر ڈاکا پڑا، ڈاکوؤں نے جو کچھ ہاتھ لگا، وہ بھی لوٹ لیا۔دوچار مزاحمت کرنے والوں کو مار بھی ڈالا اور خواتین کی عصمت دری بھی کی۔لیکن صبح لوگوں نے دیکھا کہ گھروالوں نے نہ تو تھانے میں رپٹ کرائی اور نہ ہی کچھ واویلہ کیا بلکہ مکمل طور پر چپ ساد لی۔جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔

ایک ہمدرد کو پتہ چلا تو وہ آیا اور متاثرہ گھرانے والوں کو مجبور کرنے لگا کہ آو تھانے چل کر رپٹ درج کراتے ہیں لیکن گھر والے صاف مکر گئے کہ ایسا کچھ ہوا ہی نہیں ہے، یہ لوگ جو مرے ہیں،انھیں کسی نے مارا نہیں ہے بلکہ دونوں آپسی لڑائی میں مارے گئے ہیں۔ لیکن وہ ہمدرد نہیں مانا۔ بولا ، مجھے سب پتہ ہے، آو تھانے چلتے ہیں۔ آخر اس لٹے ہوئے گھرانے کے سربراہ نے کہا کہ لٹنا، مرنا، ذلت اٹھانا ایک بار ہی کافی ہے۔ میں بار باراور وہ بھی قرض ادھار لے کر ایسے واقعے کا دوبارہ شکار ہونا نہیں چاہتا بلکہ میں تو خوش ہوںکہ صرف ایک بار ہونے پر خطرہ ٹل گیا۔

نہ لٹتا دن کو تو کیوں رات کو یوں بے خبر سوتا

رہا کٹھکا نہ چوری کا دعا دیتا ہوں رہزن کو میں

اب تھانے میں رپٹ لکھوانے جاؤں تو سب سے پہلے رپٹ لکھوانے کی فیس کا بندوبست کہاں سے کروں گا۔ پھر تفتیش ہوگی، میرے سارے گھروالوں کو تب تک نہیں چھوڑا جائے گا جب تک وہ اپنی بے گناہی ثابت نہ کریں اور بے گناہی مفت میں ثابت نہیں ہوتی، ان خواتین کو بھی اپنے اوپر گزری ہوئی واردات بار بار بیان کرنا پڑے گی، میڈیکل ہوگا، تفتیش ہوگی۔ قدم قدم پر ''فیس'' دینا پڑے گی، پھر پیسے لگا کر کیس کو عدالتوں میں پہنچادیں تو اگر ہم نے گراں قیمت وکیل نہیں کیا تو ملزمان مہنگا وکیل کرکے نہ صرف کیس کی بلکہ ہماری دھجیاں اڑا دے گا اور ملزموں کو شک کا فائدہ دے کر باعزت بری کرا دے گا اور ہمیں''بے عزت'' کرکے چھوڑ دے گا۔

ہوسکتا ہے کہ ہمیں ہی گرفتار کرادے تو اس سے بہتر ہے کہ ایک بار لٹ چکے ہیں اور اس پر قناعت کرکے خود کو بار بار لٹنے سے بچائیں۔ بہرحال طرح طرح کے اندازے لگائے جارہے ہیں لیکن اکثریت کا کہنا ہے کہ تحریک کامیاب ہوجائے یا ناکام ، ''ناپرساں''کا نام''مقدمستان'' رکھ دیا جائے گا، اسے اس نئے نام سے پکاریں گے اور متعلقہ کاغذات میں''درستگی'' بھی ہوجائے گی

خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد

جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے

ویسے مقدمستان کے علاوہ قانونستان، عدالتستان اور انصافستان، وکیلستان اور تاریخستان بھی اچھے نام ہیں، سارے ہی رکھ لیے جائیں تو کیا برا ہے۔لیکن ناپرساں والے اپنی مرضی کے مالک ہیں، ہم کون ہوتے ہیں، مشورہ دینے والے۔اگر کسی کو غصہ آگیا تو ہم پر بھی قانون نافذ کیا جاسکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں