نیا سیاسی بحران
مملکت کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ انتقال اقتدارکا مرحلہ پر امن طریقے سے ہو ا ۔۔۔۔
HYDERABAD:
موجودہ حکومت کے خلاف بعض جماعتوں کی جانب سے سابقہ انتخابات کے حوالے سے حکومت مخالف گرینڈ الائنس بناکر ایک نیا سیاسی بحران پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ گو کہ تمام سیاسی جماعتیں جمہوریت کا انتہائی احترام کا دعوی کرتی ہیں اور حکومت کا بھی کوئی ادارہ نہیں چاہتا کہ مملکت کے دیگر ستونوں کے ساتھ کسی قسم کی محاذ آرائی کا تاثر بھی جائے۔تمام چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں سمیت تمام اداروں کی اولین ترجیح ملک بھر میں عوام کی فلاح و بہبود کے حوالے سے کیے جانے والے اقدامات کو پھلنا پھولنا ہونا چاہیے۔
سسٹم کے استحکام اور اچھی حکمرانی و انصاف صرف اسی صورت بحال رہ سکتا ہے جب قانون کا احترام تمام ادارے اپنی حدود میں رہتے ہوئے کریں۔ملک میں انتخاب کے حوالے سے آئینی ترمیم کے بعد اس وقت مملکت کو 1980ء اور1990ء کی دہائیوں جیسی صورتحال کا سامنا نہیں ہے کہ جب لوگ حکومت کی بساط الٹنے کے لیے صدر کی جانب سے دفعہ 58(ٹو) بی کے استعمال کرنے کی آس لگاتے تھے یا پھر مارشل کے نفاذ کے لیے فوج کی طرف دیکھتے تھے۔ اب یہ دونوں راستے بند ہوچکے ہیں ۔ تمام ادارے جمہوری طریقے سے انتقال اقتدار کی جانب پر امن طریقے اور سیاسی تلخیوں کے باوجود تیزی سے گامزن ہیں۔
عوام ملکی استحکام و تبدیلی کی خواہش لیے ہر آنے والے دن ، خواب دیکھتے ہیں۔ تمام اداروں کی ذمے داری بھی بنتی ہے کہ نظام میں استحکام لائیں۔موجودہ حکومت تمام تر مشکلات کے باوجود اپنی آئینی مدت ذمے داری کے ساتھ پوری کرے۔بحران بھی آتے رہیں گے ، مسائل بھی پیدا ہوتے رہیں گے لیکن تمام سیاسی جماعتوں کو مستقل مزاجی کے ساتھ صبر و برداشت کا ماحول برقرار رکھنا ہوگا اور عوام کی خدمت کے وعدے کو ہر صورت پورا کرنا ہوگا۔جب تک اداروں کے درمیان ہم آہنگی ، سسٹم کے استحکام اور اچھی حکمرانی کے ذریعے ملک کی خدمت کے عزم کو کامل کرنا ہوگا۔ کیونکہ یہ موجودہ حالات سے بددل اور مسائل و مشکلات میں گھرے ہوئے عوام کے لیے امید افزا ہے۔
ہمارا المیہ ہی یہ رہا ہے کہ مملکت کے بااختیار ادارے اپنی اپنی حدود میں رہتے ہوئے ایک دوسرے کے معاون و مددگار بننے کے بجائے اپنی خواہشات اور مفادات کی پاسدار ی کرنے لگ جاتے ہیں اور بعض سیاسی جماعتیں اسے اپنی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے استعمال کرتی ہیں جس سے عوام میں بے چینی اور بد اعتمادی بڑھ جاتی ہے ۔ مقننہ،انتظامیہ اورعدلیہ میں ہمیشہ ٹکرائو کی کیفیت پیدا ہوتی رہی ہے جس سے نظام میں خرابیاں پیدا ہوتی ہیں اور پاکستان کی سرزمیں نا اتفاقیوں کی بناء پر ایک مدت تک بے آئین اور طالع آزمائوں کی آماجگاہ بنا رہا حتی کہ دوٹکڑے ہوگیا۔
مملکت کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ انتقال اقتدارکا مرحلہ پر امن طریقے سے ہو ا اور اب انتخابات کے بعد بھی اسی سلسلے کو اسی عمل کے تحت ہونے دیتے رہنا چاہے ۔ تمام تر اعتراضات و خامیوں کے باوجود پاکستان پیپلز پارٹی اور ان کی اتحادی جماعتیں قابل تعریف ہیں کہ پاکستان میں جمہوری عمل کو درست پٹری پر لانے کے لیے صبرکا دامن تھامے رکھا اور غیر آئینی قوتوں کو مداخلت کا جواز فراہم نہیں کیا، مسلم لیگ کی حکومت کو بھی اسی بردباری کا مظاہرہ کرنا ہوگا ۔ہر مرحلے پر افواج پاکستان نے خصوصی کردار ادا کیا جو کسی بھی ترقی یافتہ اور باشعور عوام کی حفاظت کرنے والے ادارے کا کردار ہوتا ہے ۔
حکومتِ وقت پر اس وقت بہت ذمے داریاں عائد ہیں کیونکہ انھوں نے ہی اداروں کو مزید مضبوط بنانا اور ان کے درمیان ہم آہنگی کو فروغ دینا ہے۔ ماضی میں نواز و پی پی پی حکومت کا جو بھی طرز عمل رہا انھیں اب اپنی خامیوں کو خود ہی دور کرنا ہوگا۔ تحریک انصاف کو بھی صبر و تحمل کو اپنانا ہوگا۔ میڈیا اس وقت ایک اہم ستون کے طور پر حکومت کے تمام اداروں اور سیاسی جماعتوں کا بے رحم احتساب کرتا نظر آتا ہے ، کیا ہی اچھا ہوتا کہ میڈیا اپنا احتسابی عمل بھی خود پر لاگو کرلے تاکہ میڈیا کی ساکھ عوام میں مثبت برقرار رہے۔کسی ادارے کو اپنی انا کا مسئلہ بنائے بغیر تصادم اور محاذ آرائی سے بچنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ حکومتوں کی غلطیوں کا خمیازہ کسی فرد واحد کو نہیں بلکہ پوری قوم کو اٹھانا پڑتا۔
ماضی کی پرویز مشرف کی خارجہ و داخلہ پالسیوں کی بنا ء پر مملکت ایک ایسی جنگ میں اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے جہاں ایسے اندرونی و بیرونی دونوں جانب سے خطرات کا سامنا ہے ۔ افغانستان کی جانب سے بار بار الزامات اور بھارت کی جانب سے کشمیر و دیگر حساس سیکٹر پر بلا جواز اشتعال انگیز واقعات کے سدباب کے لیے تمام سیاسی جماعتوں اور اداروں کو ملکی یکجہتی کے پلیٹ فارم پر کھڑے ہوکر اتحاد کا مظاہرہ کرنا ہوگا ۔
صرف نہ چلائے جانے والے ایٹمی ہتھیاروں کو ہاتھی کے دانت کی طرح دکھانے سے ملکی مسائل کم نہیں ہو جائیں گے۔ افغانستان اپنے داخلی مسائل اور بھارت اپنی مملکت میں علیحدگی پسند تحریکوں کو کچلنے کے لیے پاکستان کی آڑ لیتے ہیں اور پاکستان کی جانب سے تمام مثبت خیر سگالی کے جذبات کو یکسر سرد مہری کی نذر کر دیتے ہیں۔ جس سے خطے میں امن کے بجائے عدم استحکام کو ہی فروغ مل رہا ہے اور مہنگائی میں پسی ہوئے عوام کو اسلحے کی دوڑ میں متواتر پیسا جا رہا ہے۔
با حیثیت قوم ابھی تک ہم صوبائیت ، لسانیت کے گورکھ دھندے سے نہیں نکل پائے ہیں ۔ وزیر اعظم نوز شریف کی جانب سے چھوٹے صوبوں میں پائی جانے والی اس احساس محرومی کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات کرنا ہونگے۔ وزیر اعظم پاکستان کی جانب سے ابھی تک سینیٹ سے خطاب نہ کرنا ، قومی پالیسی کے تعین میں ناکامی تصور کیا جائے گا جب کہ انتخابات میں کیے گئے وعدوں کا پاس رکھنا اور انھیں پورا کرنا ، عوام کے اعتماد کو جلا بخشے گا۔
دہشت گردی کے خلاف آل پارٹیز کانفرنسوں کے انعقاد میں کے باوجود ناکامیوں نے عوام میں دہشت گردی کے خلاف حکومتی دعوئوں پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے تو دوسری جانب تحریک انصاف کی جانب سے محض پوائنٹ اسکورنگ کے لیے ، جمہوریت کو ڈی ریل کرنا اور لندن میں بننے والا جھرلو سیاسی اتحاد حیران کن ہے کہ قوم سے کیے جانے والے وعدے اگر پارلیمنٹ میںموجود سیاسی جماعتیں نہیں کریں گی تو پھر عوام سے دہشت گردی کے خلاف سخت موقف اپنانے کی کیا ضرورت تھی ۔پارلیمنٹ اگر پسند نہیں تو انتخابات میں حصہ کیوں لیتے ہیں ، ہار جائو تو دھاندلی ، جیت پرجمہوریت کی فتح قرار دینے کی روش کو ختم کرنا ہوگا۔
اگر دہشت گردی کے خلاف کسی متفقہ پالیسی میں کسی بھی شخص یا ادارے کو کوئی تحفظات ہیں تو پھر قوم کو اس سے آگاہ کیا جائے۔ محض بیانات پر اکتفا کرنے کے بجائے ملکی کو درپیش مسائل کے حل کے لیے اپنی تجاویز کو قوم کے سامنے لائیں ، ابھی اقتدار کے نئے ،مرحلے کے لیے سب کو مقررہ مدت تک انتظار کرنا ہوگا ۔ ہر سیاسی جماعت کو اپنے مینڈیٹ کے تحت عوام کی خدمت کا فرض سونپا گیا ہے۔ اس روگردانی قوم کے ووٹ سے اور آئین سے غداری کے مترادف قرار دیا جائے گا۔لسانیت ، صوبائیت اور فرقہ واریت کے آسیب کی دنیا سے باہر نکل کر مملکت کو نئے بحرانوں سے بچانے کے لیے مثبت و اجتماعی جدوجہد میں ہی کامیابی ہے۔اس کے باوجود ہمیں اپنی ذمے داریوں کا احساس نہیں ہوا تو تاریخ ، سنبھلنے کے لیے بار بار موقع نہیں دیتی۔
مملکت کی وحدت پارہ پارہ ہوچکی ہے۔ ایسے یکجا کرنے کے لیے مل کر ہی کوشش کرنا ہوگی۔اندرونی خلفشار سے بیرونی طاقتیں ہی فائدہ اٹھاتی ہیں ، ہمیں مصر ، لبنان، شام اور عراق کی مثال اپنے سامنے رکھ کر ایک بار سوچنا ضرور ہوگا۔ہوسکتا ہے کہ پھر موقع نہ ملے۔لہذا قوم کو اس پر آشوب دور میں مزید امتحانات میں نہ ڈالیں۔قوم کو ویسے ہی پر ٓاشوب مصائب اور تکالیف کا سامنا ہے ، قوم و مملکت کی بقا اس وقت خطرے میں ہے ، ملکی سلامتی کے ادارے پل صراط سے گذر رہے ہیں ، ہمیں اپنے رویوں میں تبدیلی لانا ہوگی۔