نئی قومی حکومت کو درپیش چیلنجز

احتجاجی اقدامات، اگرچہ اظہار کی ایک شکل ہے، لیکن احتجاج کا عمل مسئلے کا موثر حل پیش کرنے سے قاصر ہے


Editorial February 13, 2024
احتجاجی اقدامات، اگرچہ اظہار کی ایک شکل ہے، لیکن احتجاج کا عمل مسئلے کا موثر حل پیش کرنے سے قاصر ہے۔ فوٹو، فائل

ملک میں عام انتخابات کے بعد سیاست دان حکومت سازی کے لیے باہمی مشاورت میں مصروف ہیں، دوسری جانب انتخابی بے ضابطگیوں کے حوالے سے کچھ شہروں اور قصبوں میں احتجاج بھی ہورہا ہے۔

احتجاجی اقدامات، اگرچہ اظہار کی ایک شکل ہے، لیکن احتجاج کا عمل مسئلے کا موثر حل پیش کرنے سے قاصر ہے، اس کے بجائے، قانونی راستے کا انتخاب استحکام کو برقرار رکھنے اور ملک کو اقتصادی بحالی کی طرف لے جانے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ملک کی اقتصادی بہبود پر وسیع اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسے اقدامات کو اپنانے پر توجہ مرکوز کی جانی چاہیے جو فوری اور دیرپا سیاسی استحکام کو یقینی بنائیں۔

ایسا محسوس ہورہا ہے کہ پاکستان میں قومی اتحادی حکومت بننے جا رہی ہے۔ نئی حکومت کو ایران کے ساتھ حالیہ سرحدی جھڑپ اور مشرقی مغربی سرحدوں پر منڈلاتے خطروں کے سبب سیکیورٹی معاملات بھی ایک اہم چیلنج ہوگا۔پاکستان کی سیکیورٹی مضبوط ہاتھوں میں ہے لیکن معاشی صورت حال ایسی ہے کہ جنگ کے متحمل نہیں ہو سکتے بلکہ خطے میں کوئی ملک جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔نو منتخب حکومت دیکھے گی کہ انڈیا میں انتخابات کے بعد کی نئی حکومت بات چیت آگے بڑھائے گی یا نہیں؟

'مشرقی مغربی سرحد پرامن رکھنے اور ایران کے ساتھ رابطے فعال کیے جائیں تاکہ سرحدی کشیدگی پیدا نہ ہو، مختلف دفاعی پروگراموں کے لیے امریکا کے ساتھ بھی تعلقات ازسر نو شروع کرنے ہوں گے۔ پانچ اہم شعبے ہیں جن کے بارے میں اسلام آباد میں اگلی حکومت کو واضح ہونا ضروری ہے۔ جس کے مطابق اسے فوکس ڈپلومیسی کرنے کی اجازت دی جائے۔ نتائج دینے کے لیے پانچ سال ایک اچھا ٹائم فریم ہے۔سب سے پہلے، چین کے ساتھ تزویراتی تعلقات کو ناصرف محفوظ رکھا جانا چاہیے بلکہ مزید مضبوط ہونا چاہیے۔

اس وقت پاکستان کو زبردست معاشی چیلنجز کا سامنا ہے، جس کی نشاندہی مہنگائی کی ریکارڈ سطح اور سست معاشی سرگرمیاں ہیں۔ غیر یقینی سیاسی ماحول مشکلات میں اضافہ کرتا ہے، جس سے بے روزگاری کی مسلسل بلند شرح ہوتی ہے۔ اس نازک معاشی منظر نامے کے پیش نظر، سیاسی استحکام کو ترجیح دینا اہم ہو جاتا ہے۔

سیاسی جماعتوں کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ وہ ہوشیاری اور دور اندیشی کا مظاہرہ کریں، یہ سمجھتے ہوئے کہ طویل احتجاج ملک کو اس وقت درپیش معاشی چیلنجوں کو بڑھا سکتا ہے۔ مبینہ دھاندلی سے متعلق خدشات کو دور کرنے کے لیے اور ایسے الزامات کی چھان بین کے لیے قانونی اور منظم عمل کا سہارا لینا ناگزیر ہے۔

نئی حکومت کے لیے سب سے بڑا امتحان مالی نظم و ضبط پیدا کرنا ہوگا، کیونکہ ہمارے اخراجات تقریباً 15 ٹریلین پاکستانی روپیہ ہے جب کہ حکومت کی آمدنی صرف دس ٹریلین پاکستانی روپے ہے۔ نئی حکومت کو تقریباً پانچ ٹریلین پاکستانی روپے کا گیپ فل کرنا پڑے گا، جس کے لیے مالی نظم وضبط بہت ضروری ہے۔

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ پاکستان میں کوئی بھی سیاسی جماعت کوئی تھنک ٹینک نہیں چلاتی جس نے تحقیق پر مبنی مطالعہ تیار کیا ہو اور پاکستان کو دوبارہ خوشحالی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے عملی حل پیش کیے ہوں۔ یہ جمہوریت کی نہیں بلکہ حکمران جماعت سمیت تمام جماعتوں کی ناکامی ہے۔ اچھی معاشیات اچھی سیاست ہے، لیکن انھوں نے کبھی اس کی فکر نہیں کی۔

مالیاتی محاذ پر زیادہ تر مسائل دراصل خراب ٹیکس پالیسی اور کم ٹیکس شرحوں کے ساتھ بنیاد کو وسیع کرنے میں انتظامی کمزوریوں سے متعلق ہیں جو تیز رفتار اور پائیدار اعلیٰ نمو کے لیے ضروری ہیں۔ اصل مالیاتی مخمصہ، جیسا کہ اوپر سے ظاہر ہے، صرف محصولات کو متحرک کرنے سے متعلق نہیں ہے۔

سرکاری حلقوں میں اب بھی امید ہے کہ سیاسی عدم استحکام اور انتخابی سال ہونے کے باوجود 2024 معاشی بحالی اور ترقی کا مشاہدہ کرے گا۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ بڑھتے ہوئے قرضوں اور مالیاتی خسارے کی وجہ سے موجودہ صورت حال برقرار رہے گی۔

رواں مالی سال میں 2 فیصد سے کم ترقی کی پیش گوئی کی گئی ہے۔جہاں تک مہنگائی اور زندگی گزارنے کی لاگت کا تعلق ہے، 2024 غریبوں کے لیے روزمرہ استعمال کی اشیا مہنگی ہونے، مہنگی افادیت اور بے روزگاری کی وجہ سے مزید مصائب لائے گا۔

پاکستان کے معاشی منظر نامے پر نظر ڈالی جائے تو تشویشناک اعدادوشمار سامنے لائے گئے ہیں، افراط زر کی شرح 2023 میں 39.18 فیصد تک پہنچ گئی، جس سے اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے جون 2023 کے بعد سے 22 فیصد کی ریکارڈ بلند پالیسی کی شرح برقرار رکھی ہے۔

اس کے علاوہ 2023 میں پاکستان کی کرنسی کی قدر میں 20 فیصد سے زیادہ کمی ریکارڈ کی گئی۔ اقوام متحدہ کی عالمی اقتصادی صورتحال کی حالیہ رپورٹ میں پاکستان کے لیے 2024 میں 2 فیصد کی معمولی جی ڈی پی اور 2025 میں قدرے بہتر 2.4 فیصد جی ڈی پی کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ آئی ایم ایف سے چند ارب ڈالر قرض لینے کی وجہ سے ہم اپنی مرضی کی پالیسیاں بھی نہیں بنا سکتے جس کی وجہ سے ہر شعبہ مشکلات سے دوچار ہے۔

مہنگائی کی وجہ سے عوام کی قوت خرید متاثر ہو رہی ہے ، آنے والے دنوں میں معاشی ومالی مسائل کو حل کرنے کے لیے نئی حکومت کو سخت اقدامات کرنا پڑیں گے۔ نئی حکومت کو تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر خود انحصاری کی منزل کی درست سمت کا تعین بھی کرنا ہو گا۔

دیگر چیلنجوں میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے پروگرام کو سخت حالات میں مکمل کرنا، مہنگائی اور شرح سود کی تاریخی بلند ترین سطح، اندرونی قرضوں پر سود کی مد میں ادائیگیوں میں ہوشربا اضافہ، بیرونی قرضوں کی ادائیگی کا شدید بحران، جاری اکاؤنٹ خسارے کو سنبھالنے میں معیشت کی سست روی، غیر ملکی ذمے داریوں کی بھاری ادائیگی، تیزی سے کم ہوتے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر، بڑھتا ہوا مالیاتی خسارہ اور بیروزگاری، پیداوار میں جمود، بجلی اور گیس کے شعبوں میں بھاری گردشی قرضہ، نقصان میں جانے والے سرکاری اداروں کو ٹیکس دہندگان کے پیسے سے مسلسل فنڈنگ جیسے مسائل شامل ہیں، لیکن سب سے اہم، بڑھتے ہوئے قرضوں کے بوجھ کو کیسے سنبھالا جائے جو جاری اخراجات میں ہوشربا اضافے کی وجہ ہیں اور مالی سال 2024-2023 کے لیے مقرر کردہ محصول (ٹیکس اور غیر ٹیکس) کے اہداف کو کیسے پورا کیا جائے۔

پاکستان میں قرضوں کا حجم ہر سال بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ 1980 کی دہائی میں جب عالمی مالیاتی اداروں کے کہنے پر نیو لبرل معاشی پالیسی شروع کی گئی تھی، تو کہا گیا تھا کہ سرکاری اداروں کو بیچ کر قرض ادا کیا جائے گا اور ان اداروں پر خرچ ہونے والے پیسے کو عوامی فلاح پر لگایا جائے گا، لیکن آج 80 فیصد کے قریب لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے، ڈھائی کروڑ کے قریب بچے اسکول سے باہر ہیں، 44 فیصد بچوں کے مناسب خوراک کی عدم دستیابی کی وجہ سے قد نہیں بڑھیں گے اور چھ کروڑ سے زیادہ افراد سطح غربت پر زندگی بسر کر رہے ہیں۔

قرضوں کی ادائیگی اور دوسرے اخراجات کے بعد حکومت کے پاس عوامی فلاح کے لیے کچھ نہیں بچے گا۔ اس وقت قرضوں پر شرح سود بائیس فیصد ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں سے معاہدے کے نتیجے میں اب حکومت اسٹیٹ بینک سے براہ راست قرضہ نہیں لے سکتی جب کہ پرائیویٹ بینکوں اور عالمی اداروں سے قرضہ لینے کی صورت میں قرضوں کے حجم میں مزید اضافہ ہوگا، جس کے بعد حکومت کے پاس عوامی فلاح کے لیے پیسے نہیں ہوں گے۔

ایک رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف پاکستان کی طرف سے مشترکہ آمدنی اور اخراجات کے منصوبوں سے غیر مطمئن رہا ہے اور اس نے اضافی معلومات طلب کی ہیں، بشمول شیلف کیے گئے ترقیاتی منصوبوں کی تفصیلات جنھیں اب دوبارہ شروع کیا گیا۔ آئی ایم ایف مسلسل مزید ٹیکس لگانے، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کرنے کا مطالبہ کرتا رہا ہے۔

اگر آئی ایم ایف غالب رہتا ہے تو مزید ٹیکس اور لیویز نافذ ہوں گے، جس سے پہلے سے جمود کی شکار معیشت کی بحالی کے امکانات ختم ہو جائیں گے، جہاں دیگر ممالک روس یوکرین جنگ، وغیرہ کے معاشی اثرات سے نکلنے کے لیے کاروباری اداروں کو ٹیکس مراعات فراہم کر رہے ہیں، پاکستان جابرانہ ٹیکس اقدامات کا سہارا لے رہا ہے۔

پاکستان کی ممکنہ مخلوط حکومت کو معیشت، سیکیورٹی اور سیاسی معاملات کے علاوہ پی آئی اے کی نجکاری اور ایف بی آر اصلاحات سمیت کئی چیلنجز کا سامنا ہو گا۔سب سے الارمنگ چیلنج موسمیاتی تبدیلی ہے جس کا اثر پاکستان کی زراعت کے شعبے پر براہ راست پڑے گا، اس حوالے سے لائحہ عمل بنانے کی ضرورت ہو گی۔

پہلے مرحلے پر نئی حکومت کو چند اقدامات کرنا ہوں گے۔ مہنگائی پر قابو پانا، ملک میں سرمایہ کاری لانا، معاشی میدان میں مضبوطی اور آئی ایم ایف پروگرام بحالی،جب کہ دوسرے مرحلے میں زرعی اصلاحات، تعلیمی اور صحت کے شعبے میں ترقیاتی کام، انفرااسٹرکچر کی بہتری تاکہ کاروبار اور روزگار کے مواقع بڑھیں اور تعلیم میں بالخصوص آئی ٹی کے شعبے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں