سیاسی انتشار

جھوٹے اوربے بنیاد دعوے الیکشن سے قبل بھی کیے گئے مگراب الزامات، احتجاج اوردھمکیوں کا ملک کسی بھی طرح متحمل نہیں ہوسکتا


Muhammad Saeed Arain February 13, 2024
[email protected]

انتخابات کے بعد 25 کروڑ عوام کے ملک میں انتشار نہیں ہونا چاہیے تاکہ ملک استحکام کی طرف جا سکے۔

پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے توقع کے برعکس انتخابی کامیابی حاصل کرنے کے بعد اپنی انتشار بڑھانے کی پالیسی نہ صرف برقرار رکھی ہے بلکہ عدالتوں پر بھی بوجھ بڑھانا شروع کر دیا ہے اور آٹھ فروری کے انتخابی نتائج پر شکر ادا کرنے کے بجائے نتائج کو متنازعہ بنانے کی مہم شروع کردی ہے اور اس کے رہنماؤں نے دعوے شروع کر دیے ہیں کہ ہم وفاق، پنجاب اور کے پی میں اپنی حکومتیں بنانے کی پوزیشن میں آ چکے ہیں۔

اگر یہ درست ہے تو پی ٹی آئی رہنماؤں نے فوری طور پر انتخابی نتائج کے خلاف عدالتوں سے رجوع کرنا کیوں شروع کردیا ہے۔ حقیقت میں پی ٹی آئی کو انتخابی نشان سے محروم ہونے کے باوجود آزاد امیدواروں کے طور پر جو کامیابی ملی ہے اس کی کسی کو توقع نہیں تھی۔

اس غیرمتوقع کامیابی پر صبر کرنے کے بجائے انھوں نے آر اوز پر رشوت لینے اور الیکشن کمیشن پر الزامات لگانے شروع کر دیے ہیں اور بانی پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ انھیں پہلے ہی توقع تھی کہ یہی نتائج آئیں گے جب کہ پی ٹی آئی کے جن صوبائی و مقامی رہنماؤں کو قومی اسمبلی میں جو کامیابی ملی ہے اس پر لوگ حیران ہیں کہ پولنگ کا وقت بڑھے بغیر تقریباً پانچ کروڑ اضافی ووٹروں کے ووٹ کیسے کاسٹ ہو گئے جب کہ 12بجے دوپہر تک پولنگ اسٹیشنوں پر کوئی رش نہیں تھا جس کے پانچ گھنٹے میں 48 فیصد ووٹنگ کیسے ممکن ہوگئی جب کہ انتخابی فہرستوں اور حلقہ بندی پر ووٹر احتجاج کر رہے تھے۔

ہارنے والے ہمیشہ انتخابی نتائج تسلیم نہیں کرتے اور دھاندلیوں کے الزامات لگانے کے عادی ہوتے ہیں اور اس بار بھی یہی کچھ ہو رہا ہے جو غیر متوقع نہیں ہے۔حالیہ انتخابات میں قدآور سیاسی رہنماؤں کو ایسے حلقوں سے شکست ہوئی ہے جس کی انھیں توقع نہیں تھی۔ پیپلز پارٹی کے برعکس مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی جیسی قومی پارٹیوں کے اہم رہنماؤں کو ان کے آبائی حلقوں میں شکست کا سامنا کرنا پڑا جو ان کی توقعات کے برعکس تھا۔

لاہور میں بلاول بھٹو کی شکست تو پہلے ہی نمایاں تھی ، پی ٹی آئی کے اسیر اور مفرور رہنماؤں کو غیر متوقع طور پر قومی اسمبلی کے لیے کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ زندگی میں پہلی بار الیکشن میں کامیابی اور ناکامی کی بعض رہنماؤں کو توقع نہیں تھی جب کہ پی ٹی آئی کے مخالف رہنماؤں کو ان کے آبائی حلقوں میں شکست ہوئی مگر خواجہ سعد رفیق، محترمہ ثمر بلور نے ہارنے کے باوجود سیاسی رواداری کی مثال قائم کی ہے۔

پی ٹی آئی نے کے پی کے کئی اضلاع میں کلین سویپ کیا ہے مگر وہ پھر بھی نتائج کو متنازع بنا کر سیاسی انتشار بڑھانے میں لگ گئے ہیں جب کہ پی ٹی آئی کے مخالف رہنما بھی پی ٹی آئی کی انتخابی کامیابی پر حیران ہیں اور وہ بھی نتائج سے مطمئن نہیں اور انھوں نے بھی پارلیمنٹ نہ جانے، الیکشن نتائج مسترد کرکے انھیں عدالتوں میں چیلنج کرنے کے اعلانات کیے ہیں۔

بعض امیدواروں نے نتائج کی تبدیلی کا بھی الزام لگایا ہے۔ مسلم لیگ (ن) سے ناراض رہنماؤں شاہد خاقان عباسی، محمد زبیر اور مفتاح اسماعیل بھی نتائج کو مشکوک قرار دے رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ مینڈیٹ میں ہیرا پھیری سے افراتفری پھیلے گی۔ سیاسی انتشار اور سیاسی عدم استحکام بڑھے گا۔ امریکا اور برطانیہ بھی انتخابی دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کا کہہ رہے ہیں۔

ملک کے بعض علاقوں میں انتخابی نتائج کی تبدیلی کے الزامات بھی لگائے گئے ہیں اور احتجاج بھی شروع ہو گئے ہیں ۔ نواز شریف کی مانسہرہ اور بلاول بھٹو کی لاہور میں شکست اور تحفظات کے باوجود مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے مثبت رویہ اختیار کیا ہے مگر پی ٹی آئی اتنی بڑی کامیابی کے باوجود مطمئن نہیں اور پی ٹی آئی اور بعض ہارنے والوں کے رویے سے سیاسی انتشار اور سیاسی عدم استحکام بڑھا ہے جو کسی طرح بھی ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔

انتخابی نتائج نہ ماننے والوں کے لیے قانونی ذرایع موجود ہیں مگر احتجاج اور دھمکیاں کسی طور مناسب نہیں۔ انتخابی نتائج قانون کے مطابق چیلنج ہوئے ہیں جن کے فیصلوں کا انتظار کیا جانا چاہیے اور ملک میں سیاسی انتشار پیدا کرنے کی گریز کی اشد ضرورت ہے۔

جھوٹے اور بے بنیاد دعوے الیکشن سے قبل بھی کیے گئے مگر اب الزامات، احتجاج اور دھمکیوں کا ملک کسی بھی طرح متحمل نہیں ہو سکتا اور قانونی طریقے اختیار کیے جانے کی ضرورت ہے اور سیاسی و ذاتی مفادات کے حصول کے لیے اشد ضروری ہے کہ اب انتخابات ہو جانے کے بعد ملک میں انتشار نہ بڑھایا جائے، ملک میں بدامنی اور معاشی صورت حال پہلے ہی بہتر نہیں مزید حالات خراب نہیں ہونے چاہئیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔