حکومت سازی کا عمل جلد مکمل کرنے کی ضرورت

کوئی بھی ملک اس وقت تک معاشی طور پر ترقی نہیں کر سکتا جب تک اس کا سیاسی نظام مستحکم نہ ہو


Editorial February 14, 2024
کوئی بھی ملک اس وقت تک معاشی طور پر ترقی نہیں کر سکتا جب تک اس کا سیاسی نظام مستحکم نہ ہو (فوٹو : فائل)

ملک کے استحکام کے لیے جمہوریت کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے،کوئی بھی ملک اس وقت تک معاشی طور پر ترقی نہیں کر سکتا جب تک اس کا سیاسی نظام مستحکم نہ ہو۔

سیاسی استحکام معاشی پالیسی کے تسلسل کو یقینی بناتا ہے،اس کے نتیجے میں، سرمایہ کاروں کے اعتماد اور تمام اقتصادی شعبوں کی قوت میں اضافہ ہوتا ہے، جمہوری نظام کے استحکام کے لیے جو چیلنجز موجود ہیں، اُن سے عہدہ برآ ہونے کی ابتدائی اور بنیادی ذمے داری سیاسی قیادت ہی کی ہے۔

جمہوری حق کی آڑ لے کر قومی شاہراہیں بلاک کرنا،قومی و نجی املاک کو نذر آتش کرنا یا توڑ پھوڑ کرنا، گھیراؤ جلاؤ کی یہ سیاست ملک میں انارکی اور لاقانونیت کا باعث تو بن سکتی ہے لیکن اس کے بطن سے استحکام پیدا نہیں ہوسکتا ہے ۔

حالیہ الیکشن میں جس امیدواروں کو جو بھی شکایت یا تحفظات ہیں، اس کے لیے قوانین اور متعلقہ فورمز موجود ہیں، انھیں اپنی شکایات لے کر انھیں فورمز سے رجوع کرنا چاہیے کیونکہ جب تک ایک بھرپور جمہوری کلچر کے اشارے نمایاں نہیں ہوں گے اور سیاسی عزم ہمارے سیاسی نظام کا سرنامہ اور اس کی قوتِ محرکہ بنا ہوا نظر نہیں آئے گا، تواس وقت تک ملک میں جمہوریت مستحکم نہیں ہوسکتی اور نہ معاشی واقتصادی ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکے گا۔

عوام شدت سے چاہتے ہیں کہ پارلیمانی ادارے جلد از جلد اپنا کام شروع کریں تاکہ نئی منتخب قائم ہوسکے اور بے یقینی کا خاتمہ ہوجائے، آج پاکستان اور پاکستانیوں کا بنیادی سوال سماجی انصاف، تبدیلی، ترقی اور خوش حالی کے اہداف کے حصول کا ہے۔

ملک میں دس کروڑ سے زاد لوگ سطح غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، تین کروڑ بچے اسکولوں سے باہر ہیں، بدعنوانی بڑھ رہی ہے۔ بیرونی قرضے کی ادائیگیاں کرنی ہیں ۔ایسے میں بے یقینی اور بے سمتی انتہائی نقصان دہ ہوسکتی ہے۔

دہشت گردی، سیاسی عدم استحکام اور اقتصادی مسائل کے ضمن میں ملک غیر یقینی صورتِ حال سے دوچار ہے۔ افغانستان میں طالبان حکومت کی وجہ سے پاکستان میں کالعدم ٹی ٹی پی اور اس کی سسٹر آرگنائزیشنز مختلف ناموں کے ساتھ دہشت گردی کی وارداتیں کررہی ہے۔ مذہب اور قوم پرستی کے نام پر مسلح تنظیمیں ایک دوسرے کے راستے منسلک ہوکر کارروائیاں کررہی ہیں۔

مختلف عسکریت پسند گروہوں کا اتحاد،سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنا رہا ہے۔نئی حکومت پر لازم ہوگا کہ وہ ملک کی خارجہ پالیسی کو ذمے دارانہ طریقے سے چلائے،وہ دنیا کو باور کرائے کہ پاکستان ایسا ملک ہے جو نہ صرف اپنے ہاں امن چاہتا ہے بلکہ خطے میں بھی، اور خاص طور پر افغانستان میں مثبت کردار اداکر سکتا ہے اور اس کا خواہش مند بھی ہے۔حقیقت میں خطرات کا دائرہ خطے کے اورعالمی حالات کے سیاق وسباق میں کثیر جہتی اندیشوں سے عبارت ہے۔

پاکستان کی معیشت کا ایک کمزور پہلو عام لوگوں پر بڑھتے ہوئے معاشی بوجھ سے متعلق ہے۔ مہنگائی، یوٹیلیٹیز اور روزمرہ کی گھریلو استعمال کی اشیا کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافے نے عام آدمی کوایسے بحران میں دھکیل دیا ہے جس پر حکومتی ترجیحات میں زبردست تبدیلیوں کے بغیر قابو نہیں پایا جا سکتا۔سیاسی اور سماجی پہلوؤں کے ساتھ ایک اور معاشی مسئلہ انسانی فلاح و بہبود کو شدید طور پر نظر انداز کرنا ہے۔

نظر اندازکیے گئے شعبے،جو عام لوگوں کو سب سے زیادہ تکلیف پہنچاتے ہیں، صحت کی دیکھ بھال، تعلیم اور ٹرانسپورٹ کے ہیں۔ روایتی طور پر ہماری وفاقی اور صوبائی حکومتیں صحت کی دیکھ بھال اور تعلیم پر بہت کم وسائل خرچ کرتی ہیں۔ سرکاری اسپتالوں میں بھیڑ ہے اور وہ عام لوگوں کو ناکافی خدمات فراہم کر رہے ہیں۔

حکومتیں سرکاری اسپتالوں، خاص طور پر ضلع اور تحصیل کی سطح کے اسپتالوں کو اپ گریڈ کرنے کی منصوبہ بندی اور منظم منصوبوں کو اپنانے کے بجائے صحت کی دیکھ بھال یا تعلیم کے لیے کچھ فیشن ایبل اسکیمیں شروع کرنے میں زیادہ دل چسپی رکھتی ہیں۔

اسی طرح ریاستی تعلیمی ادارے فوری توجہ کے متقاضی ہیں۔پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں ایک مربوط پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم کا فقدان ہے جو شہر کے بیش تر حصوں کو آپس میں جوڑتا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ سڑکوں پر نجی گاڑیوں اور موٹر سائیکلز کی بھرمار ہے۔دوسری جانب پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے سے عوام پر اضافی مالی بوجھ پڑا ہے۔پاکستان میں سماجی و اقتصادی عدم مساوات عروج پر ہے۔ آبادی کے امیر طبقوں اور غریب اکثریت کے درمیان فرق وقت کے ساتھ بڑھتا جارہا ہے۔

غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ایک جانب عالی شان بنگلوں،کوٹھیوں، گاڑیوں، پوش شاپنگ ایریاز اورمہنگے ریستورانوں کی تعدادبڑھ رہی ہے تو دوسری جانب غربت و افلاس کا گہرا کنواں ہے ۔ریاست کے انسانی بہبود کے پروگرام ناکافی ہیں۔ صدقات کی تقسیم عارضی حل ہے۔ غریب عوام کے لیے مستقل آمدن کے ذرایع پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان کو درپیش اہم چیلنجز میں سے ایک توانائی کا بحران ہے۔ بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ نے صنعتی پیداوار کو متاثر کیا ہے اور معاشی ترقی کی رفتار کو سست کر دیا ہے۔ یوں ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔بے روزگاری کی بلند سطح اور کم روزگارکے مواقعے اقتصادی ترقی کی راہ میں ایک اہم رکاوٹ ہے۔

تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ، روزگار کی منڈی ملازمت کے متلاشی نوجوانوں کی آمد کو جذب کرنے سے قاصر ہے۔ ہنر مندی کی نشوونما کا فقدان اور معیاری تعلیم تک محدود رسائی اس مسئلے کو مزید بڑھا دیتی ہے۔

دوسری جانب ملک میں فصلوں کی پیداوار، اناج کی غذائیت اور مویشیوں کی پیداواری صلاحیت کم ہو رہی ہے۔ زمین، سیم اور تھورکا شکار ہو رہی ہے اور زمین کا کٹاؤ بڑھ رہا ہے۔

موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کاشت کے اوقات اور نشوونما کے مراحل کے حساب سے مختلف فصلوں پر مختلف ہوتے ہیں۔زراعت میں استعمال ہونے والے زہریلے اسپرے ایک اور مصیبت ہیں۔جنگلات کو آگ لگانے سے فضائی آلودگی میں اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے جنگلی حیات پر بھی اثر پڑ رہا ہے، جنگلی جانوروں کی تعداد کم ہو رہی ہے اور کافی حد تک ان کی نسلیں ختم ہو رہی ہیں۔ اس کے علاوہ آکسیجن کی کمی اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کی زیادتی کا باعث بن رہا ہے۔

جنگلات کی کمی سیلاب کا باعث بنتی ہے، کیوں کہ درخت زمین پر کیل کی مانند ہیں۔ پاکستان خطے میں کم جنگلات والے ممالک میں شامل ہے جس کا صرف چار فی صد جنگلات پر مشتمل ہے۔جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے قائم عالمی فنڈ،ڈبلیو ڈبلیو ایف، نے پاکستان کو ان ممالک کی فہرست میں شامل کیا ہے جہاں جنگلات میں کمی ہو رہی ہے، یعنی جنگلات پورے ملک کے رقبے کے چھ فی صد سے بھی کم ہیں۔

ٹمبر مافیامقامی پولیس کے ساتھ مل کر بے خوف وخطرکام کر رہا ہے جس کیوجہ سے وسیع پیمانے پر جنگلات ختم ہو رہے ہیں۔ نئی حکومت کو ماحولیاتی وفضائی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلیوں سے بچاؤ کے لیے بڑے پیمانے پر اقدامات اٹھانے ہونگے ۔

پاکستان کے مالیاتی خسارے اور بڑھتے ہوئے عوامی قرضوں نے اس کے اقتصادی استحکام کو متاثر کیا ہے۔بجٹ کا بہت بڑا حصہ قرضوں کی ادائیگی کے لیے مختص کیاجاتاہے، جس سے صحت، تعلیم اور بنیادی ڈھانچے جیسے اہم شعبوں کے لیے کم وسائل رہ جاتے ہیں۔ عوامی فنڈز کی بدانتظامی اور بدعنوانی نے چیلنجز کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

سڑکوں، بندرگاہوں اور توانائی کی سہولتوں سمیت ناکافی انفرا اسٹرکچر، غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے اور بین الاقوامی تجارت میں مشغول ہونے کی ملک کی صلاحیت کو روکتا ہے۔بنیادی ڈھانچے کی ترقی میں ناکافی سرمایہ کاری بھی گھریلو رابطوں اور اقتصادی سرگرمیوں میں رکاوٹ ہے۔

توانائی کے بحران سے نمٹنے کے لیے توانائی کے بنیادی ڈھانچے میں قابل ذکر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے، بہ شمول قابل تجدید توانائی کے ذرایع، جیسے شمسی اور ہوا سے حاصل کی جانے والی توانائی کے۔ توانائی کے آمیزے کو متنوع بنانا اور توانائی کی کارکردگی کو فروغ دینا صنعتی ترقی کو متحرک کرتے ہوئے زیادہ قابل اعتماد اور پائے دار توانائی کی فراہمی کا باعث بن سکتا ہے۔

تعلیم اور ہنر کی ترقی کو ترجیح دینا بے روزگاری سے نمٹنے کے لیے بہت ضروری ہے۔ٹیکس جمع کرنیکا موثر طریقہ کار نافذ کرنا، فضول خرچی کو کم کرنا اور بدعنوانی کا مقابلہ کرنا معیشت کو مستحکم کرنے اور ضروری شعبوں کے لیے وسائل پیدا کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی قوم اپنی موجودہ مشکلات سے کامیابی کے ساتھ نکلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ حرفِ آخر کے طور پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان کے سماجی ومادی حقائق اس امر کے متقاضی ہیں کہ یہاں شہریوں اور ریاست، اور وحدتوں اور مرکز کے درمیان ایسا قابلِ عمل اور دیر پا بندوبست طے کیا جائے جو انصاف اور باہمی اعتماد کے کلچر کوفروغ دے سکے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں