اور حکومت بن گئی
اگر بلاول نے وہ سب تقاریر نہ کی ہوتیں تو وہ آج دوبارہ وزیر خارجہ بن سکتے تھے
وفاقی حکومت کے خدوخال سامنے آگئے ہیں۔ حسب توقع پیپلزپارٹی اور بالخصوص بلاول بھٹو زرداری نے شہباز شریف کی کابینہ میں شامل نہ ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔ انھوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ وزارت عظمیٰ کے لیے تو شہباز شریف کو ووٹ دیں گے لیکن کابینہ میں شامل نہیں ہوں گے۔
اس طرح پیپلز پارٹی حکومت میں ہوتے ہوئے بھی حکومت میں نہیں ہوگی۔ انھوں نے وزارت عظمیٰ کے لیے شہباز شریف کو ووٹ بھی دیا ہوگا اور وہ پارلیمان میں شہباز شریف کی مخالفت بھی کریں گے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ پیپلزپارٹی وکٹ کے دونوں طرف کھیلنے کی پلاننگ کر رہی ہے۔ وہ حکومت کے مزے بھی لینا چاہتے ہیں اور اپوزیشن کا کردار بھی ادا کرنے چاہتے ہیں۔ یہ پالیسی کتنی کامیاب رہے گی۔ یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ لیکن مجھے نہیں لگتا کہ یہ پالیسی کوئی لمبا عرصہ چل سکتی ہے۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ پیپلزپارٹی نے آصف زرداری کے لیے صدارت کا عہدہ مانگ لیا ہے۔ تو میں نہیں سمجھتا کہ آصف زرداری ملک کے دوبارہ صدر بن سکیں گے۔ اگر میاں نواز شریف وزیر اعظم نہیں بن سکے تو آصف زرداری صدر کیسے بن سکتے ہیں۔
اگرآج پیپلزپارٹی کو میاں نواز شریف کے وزیراعظم بننے پر اعتراض تھا تو کل پاکستان مسلم لیگ (ن) کو آصف زرداری کے صدر بننے پر اعتراض کیوں نہیں ہوگا ۔ یہی سیاست ہے۔ جہاں سب اپنے موقع پر جواب دیتے ہیں۔ اس لیے مجھے لگتا ہے کہ آج خورشید شاہ کے ان بیانات کا جس میں انھوں نے میاں نواز شریف کو قبول نہ کرنے کا اعلان کیا تھا وقت پر ن لیگ کی جانب سے مناسب جواب دیا جائے گا۔
اب صورتحال یہ بن گئی ہے کہ ملک کے تین بڑے سیاستدان اب عملی طور پر اقتدار کے کھیل سے مائنس ہو گئے ہیں۔ بانی تحریک انصاف مائنس ہو گئے ہیں۔ میاں نواز شریف مائنس ہو گئے ہیں اور آصف زرداری کے مائنس ہونے کی باری آگئی ہے۔
جب میاں نواز شریف کو نا اہل قرار دیا جا رہا تھا تو میں نے اپنے تحریروں میں لکھا تھا کہ لڑتے لڑتے ہو جائے گی گم ایک کی چونچ ایک کی دم۔ آج بانی تحریک انصاف بھی اسی طرح مائنس ہیں جیسے انھوں نے میاں نواز شریف کو مائنس کرنے کی کوشش کی تھی۔ اسی لیے اگر پیپلزپارٹی نے بھی آج میاں نواز شریف کو مائنس کرنے کی کوشش کی ہے تو کل انھیں بھی اسی عمل سے گزرنا ہے۔ یہی قانون قدرت بھی ہے اور یہی سیاست بھی ہے۔ اس لیے مجھے یہ صاف نظر آرہا ہے۔
جہاں تک بلاول کی بات ہے تو وہ انتخابات میں اتنی تلخ تقاریر کر چکے تھے کہ اب ان کے پاس ن لیگ کے ساتھ کابینہ میں بیٹھنے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں تھا۔ کل تک ن لیگ کو نا اہل کہنے والے بلاول آج کس منہ سے انھی کی کابینہ میں بیٹھ جاتے۔ اتنی گرم الیکشن مہم کے بعد بلاول شہباز شریف کی کابینہ میں بیٹھ کر خود کو سیاسی طور پر زیرو کر لیتے۔ اسی لیے ان کے پاس ایک ہی راستہ تھا کہ وہ باہر بیٹھ جائیں اور وہ باہر بیٹھ گئے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے پاس کوئی راستہ ہی نہیں تھا۔ بلاول اپنی تقاریر کا خود ہی شکار ہو گئے ہیں۔ ان کی تقاریر کا شاید ن لیگ کو تو کوئی خاص نقصان نہیں ہوا ۔ لیکن آج بلاول اپنی انھی تقاریر کی قیمت چکارہے ہیں۔
اگر بلاول نے وہ سب تقاریر نہ کی ہوتیں تو وہ آج دوبارہ وزیر خارجہ بن سکتے تھے۔ اور اگر یہ حکومت پانچ سال چلتی تو ان کے پاس پانچ سال ملک کا وزیر خارجہ بننے کا موقع تھا۔ وہ بین الاقوامی طور پر اپنے تعلقات کتنے مضبوط اور بہتر کر سکتے تھے۔ ان کی سیاسی ساکھ کتنی مضبوط ہو جاتی۔ وہ بین الاقومی سطح پر اپنا ایک کردار بنا سکتے تھے۔ لیکن شاید یہ موقع ان کے ہاتھ سے نکل گیا ہے۔ اقتدار بہت بے رحم ہوتا ہے۔ ہاتھ سے نکل جائے تو واپس مشکل سے آتا ہے۔ اس لیے بلاول کے ساتھ کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔
ایک سوال ہے کہ کیا پیپلزپارٹی ن لیگ کو سپورٹ کرنے سے انکار کر سکتی تھی۔ مجھے نہیں لگتا۔ وہ نظام میں ایسے بندھے ہوئے ہیں کہ نظام سے بغاوت ان کے لیے ممکن نہیں تھی۔ وہ کہہ تو رہے تھے کہ ہم تحریک انصاف کے ساتھ ملکر حکومت بنانا چاہتے ہیں۔ لیکن شائد اگر تحریک انصاف مان بھی جاتی تو پیپلزپارٹی کے لیے یہ ممکن نہیں تھا۔خواہش تو بہت تھی۔ لیکن مجھے نہیں لگتا یہ ممکن بھی ہوتا۔ کیا پیپلزپارٹی کے لیے یہ ممکن تھا کہ بانی تحریک انصاف کے ساتھ ملک کر حکومت بنا لے۔ اگر بلاول کی یہ خواہش ہوتی بھی تو آصف زرداری اس کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ تھے۔
ان کی ساری سیاست اسٹبلشمنٹ کے ساتھ رہی ہے۔ وہ اسٹبلشمنٹ سے محاذ آرائی کی سیاست نہیں کرتے۔ وہ بند گلی کی سیاست نہیں کرتے بلکہ بند گلی سے راستہ نکالنے کا فن جانتے ہیں۔ اس لیے میری رائے میں پہلی بات تو پیپلزپارٹی کو علم تھا کہ تحریک انصاف ان کے ساتھ نہیں آئے گی۔ اگر یہ بلاول کی خواہش تھی بھی تو تجربہ کار زرداری جانتے تھے کہ یہ ممکن نہیں۔ اور اگر فرض کریں تحریک انصاف مان بھی جاتی تو زرداری اس کو کسی نہ کسی طرح روک لیتے۔ انھیں اس کی سیاسی قیمت کا اندازہ تھا اور وہ یہ سیاسی قیمت ادا کرنے کے لیے تیار نہیںتھے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ حکومت مضبوط ہوگی۔ اس پر کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔لیکن مجھے نہیں لگتا کہ کسی بھی موقع پر پیپلزپارٹی عملی طور پر حکومت گرانے کا کوئی کام کرے گی۔ وہ ناراض رہے گی لیکن تعاون بھی جاری رکھے گی۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے پاس ایک فری ہینڈ ہو گا۔ ان کا یہ جواز بھی ختم ہو گیا کہ اتحاد میں کام کرنا مشکل ہوتا ہے۔ کس کو منائیں اور کس کو قائل کریں۔
اب جب وہ کابینہ میں نہیں ہونگے تو زیادہ منانا بھی نہیں پڑے گا۔ اس لیے مجھے نہیں لگتا کہ شہباز شریف کے وزیر اعظم بننے کے بعد ان کے خلاف کوئی عدم اعتماد آنے کا امکان ہے۔ عدم اعتماد کے لیے پھر پیپلزپارٹی کو تحریک انصاف کا تعاون درکار ہو گا۔ جو ممکن نہیں ہوگا۔ اس لیے اب سوال یہی رہ گیا کہ کب بلاول دوبارہ کابینہ جوائن کرنے پر مان جائیں گے اور جب وہ مان جائیں گے تو کیا ن لیگ تیار ہو گی۔
کیونکہ ایک دفعہ ن لیگ کو بھی اکیلے حکومت چلانے کا موقع مل گیا تو وہ دوبارہ کیوں شراکت کی طرف جائیں گے۔ اس لیے جس حکومت کو لوگ غیر مستحکم کہہ رہے ہیں۔ میری نظر میں اس کے گرنے کا کوئی امکان نہیں۔ عدم اعتماد کے لیے ووٹ موجود نہیں ہیں۔ جو بن گیا وہ بن گیا۔ یہی سیاست ہوگی۔ ایک دفعہ بننا مشکل لگ رہا تھا۔لیکن بننے کے بعد اتارنے کی طاقت کسی کے پاس بھی نہیں ہوگی۔