پرانی سیاست نئے انداز کے ساتھ

حکمرانی کے نظام میں موجود سنگین خرابیاں ، سیکیورٹی کے حالات اور اداروں کی خود مختاری ہماری حقیقی ترجیحات ہیں


سلمان عابد February 16, 2024
[email protected]

تاریخ کا سبق یہ ہوتا ہے کہ ہمیں ماضی کی غلطیوں اور کوتاہیوں سے سبق سیکھ کر آگے بڑھنا ہوتا ہے۔ لیکن ہم تاریخ یا ماضی سے سبق کم ہی سیکھتے ہیں، سادہ سی بات ہے کہ اگر ماضی سے کچھ بھی سیکھا جائے تو اس کا نتیجہ مزید بگاڑ پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے۔

جوکچھ 8فروری کے انتخابات کا نتیجہ نکلا ہے، اس کو دیکھ کر احساس ہوتا کہ ہم اپنے آپ کو پرانے مسائل حل کیے بغیر نئے مسائل کی دلدل مزید گہری کررہے ہیں۔

حکومت جس کی بھی بنے، ایک بات واضح ہے کہ یہ حکومت مضبوط نہیں ہوگی ۔اس حکومت کو ورثے میں ملے معاشی مسائل کے ساتھ ساتھ دھاندلی کے الزامات ، قانونی جھگڑے بھی مل جائیں گے ۔ مسلم لیگ ن کے اتحادی عہدوں کے مزے تو لیں گے لیکن مشکل وقت میں حکومت کے ساتھ کھڑے نہیں ہوںگے اور حکومت کو سیاسی تنہائی کا بڑی شدت سے سامنا کرنا پڑے گا۔

ہمارے سامنے دو مناظر ہیں ۔ اول، انتخابات سے پہلے کا اور دوسرا انتخابات کے بعد کا ۔ انتخابات سے پہلے بھی یہ بات واضح تھی کہ جو سیاسی تقسیم موجود ہے، اس کا خاتمہ ممکن نہیں اور ایک مخلوط یا کمزور بنیادوں پر بننے والی حکومت بڑے اور سخت فیصلے نہیں کرسکے گی ۔ دوئم، ہم انتخابات کے بعد کے منظر کو دیکھیں تو محاذ آرائی یا ٹکراؤ کی سیاست میں شدت پیدا ہوگی ۔ پی ٹی آئی نے انتخابات سے پہلے ہی انتخابی عمل کو متنازعہ بنانے کے لیے کام شروع کردیا تھا ۔

پی ٹی آئی والوں نے عوام میں یہ بیانیہ پھیلایا کہ پی ٹی آئی کو سیاسی عمل سے بے دخل کرنے کی کوشش کی تو اس کا ایک سخت ردعمل آئے گا اور سیاسی مشکلات میں اضافہ ہو گا ۔

تاہم پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کی بڑی تعداد میں انتخابات میں کامیابی کے بعد اس بیانیے کی شدت میں کمی آئی ہے لیکن انتخابی نتائج پر شکوک وشبہات کے بادل تاحال موجود ہیں۔ اس ساری صورتحال کا ذمے دار کوئی ایک فریق نہیں بلکہ تمام ہی فریقین ہیں اور سب کو تسلیم کرنا ہوگا کہ ان کے کردار نے سیاسی ، جمہوری اور قانونی نظام کو مضبوط نہیں بلکہ کمزور کیا ہے ۔جمہوری نظام کو مضبوط بنانا سب کی ذمے داری ہے۔

عام انتخابات کے آنے والے نتائج نے کئی سیاسی جماعتوں کو نہ صرف مایوس کیا بلکہ ان کو سیاسی میدان میں بہت پیچھے دھکیل دیا ہے ۔ بلکہ ان سیاسی جماعتوں کی قیادت خود کو بند گلی میں دیکھ رہی ہے، اور اس صورتحال میں الجھ گئی ہے۔

اس وقت سیاسی معاملات یہ ہیں کہ مخلوط حکومت سازی سے لے کر حکومت چلانے تک کے معاملات میں سوائے غیر یقینی کے اور کچھ نظر نہیں آرہا ۔عام لوگوں کی سطح پر دیکھیں تو ان کو لگتا ہے کہ ان کے حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی اور معاملات جوں کے توں رہیں گے ۔

یہ احساس مستقبل کی سیاست یا انتخابات کے لیے کوئی اچھا پہلو نہیں رکھتا ۔ہم دیکھ رہے ہیں کہ حکومت سازی کے نئے کھیل میں ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں جن میں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی شامل ہیں ، اقتدار کی بندربانٹ میں مگن نظر آتی ہیں ۔ پیپلزپارٹی مسلم لیگ ن کی حکومت کو یقینی بنانے کی سہولت کاری پیش کررہی ہے، یہ کمال کا پرانا اور روائتی سیاسی کھیل دیکھنے میں آ رہا ہے ۔

پیپلزپارٹی اس وقت سیاسی میدان میں بہت سمجھ داری سے کھیل رہی ہے اور مسلم لیگ ن کی سیاسی کمزوری کا زیادہ سے زیادہ سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہی ہے۔

پیپلز پارٹی اس کھیل میں مسلم لیگ ن کی حمایت کے بدلے ایسا بہت کچھ لینا چاہتی ہے جو مسلم لیگ ن کے لیے نئی مشکلات بھی پیدا کرے گا ۔ان میں ایوان صدر ، چیئرمین سینیٹ ، چاروں صوبائی گورنرزاور قومی اسمبلی کے اسپیکر کی اہم نشستوں پر پیپلزپارٹی کی نظر ہے ۔یہ سمجھوتہ پیپلز پارٹی کے لیے گھاٹے کا سودا نہیں ہو گا۔

مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے ساتھ ان کے چھوٹے اتحادی بھی اقتدار میں ہوں گے تو دوسری طرف پی ٹی آئی بدستور ایک مضبوط حزب اختلاف کے طور پر ہوگی ۔ جو حکومت کو اسمبلی میں کافی ٹف ٹائم دے گی۔ پی ٹی آئی کے پاس خیبر پختونخوا کی حکومت بھی ہوگی لہٰذا ان کے مینڈیٹ کو تسلیم کیے بغیر یہ حکومتی سیٹ اپ آگے نہیں بڑھ سکے گا۔

ایک اہم بات یہ ہے کیا اتحادیوں کے سہارے والا وزیر اعظم اور اس کی حکومت معاشی اور مالیاتی بحران کو ختم کرسکے گا؟داخلی سطح پر انتہاپسندی کا خاتمہ کرسکے گا؟اور خارجی سطح کے بحران کو کم کرنے میں کوئی کلیدی کردار ادا کرسکے گا؟ کیونکہ پی ٹی آئی کے کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے ۔

پی ٹی آئی بھی ایک سیاسی حقیقت ہے اور اس کو نظر انداز کرکے مسائل کو حل کرنے کی کوشش بھی مثبت نتائج نہیں دے سکے گی ۔اگرچہ پیپلزپارٹی نے کوشش کی کہ پی ٹی آئی کو بھی مخلوط حکومت یا ان کے ساتھ مل کر حکومت بنانے کی طرف پیش رفت کی جائے ، مگر عمران خان اس سے واضح طور پر انکار کرچکے ہیں ۔عمران خان حکومت کے ساتھ آیندہ کس قسم کا رویہ اختیار کرتے ہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا مگر معاملات اتنے زیادہ آسان نہیں ہوں گے جتنے نظر آ رہے ہیں۔

جوڑ توڑ اور موقع پرستی کے پرانے کھیل کو نئے سیاسی رنگ کے ساتھ کھیلنے کی کوشش کی گئی ہے ، اس میں بڑی کمزوریوں کی جھلکیاں بھی دیکھنے کو ملی ہیں ۔

جب ہم جلد بازی میں اقتدار کے کھیل کو سجانے کی کوشش کریں گے تو اس سے استحکام کیسے ممکن ہوسکے گا۔ ایک طرف ہم مصالحت اور افہام و تفہیم کی بات کرتے ہیں اور زور دیتے ہیں کہ سب کو مل بیٹھ کر مسائل کا حل تلاش کرنا ہوگا مگر دوسری طرف ہم خود بھی محاذآرائی کے کھیل سے باہر نکلنے کے لیے تیار نہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ جب بھی مفاہمت کی بات کی جاتی ہے تو اس سے حالات میں بہتری کی بجائے نئے مسائل دیکھنے کو ملتے ہیں ۔

نئی مخلوط وفاقی حکومت کسی بھی صورت میں ہمیں استحکام کا راستہ فراہم نہیں کرسکے گی بلکہ پہلے سے موجود سیاسی تقسیم ، سیاسی دشمنی اور محاذ آرائی میں اور زیادہ شدت پیدا ہونے کا امکان موجود ہے۔

چار بنیادی نوعیت کے مسائل جن میں سیاسی استحکام اور سیاسی و جمہوری عمل کی مضبوطی ، معیشت کی مضبوطی اور عوامی مشکلات میں کمی ، حکمرانی کے نظام میں موجود سنگین خرابیاں ، سیکیورٹی کے حالات اور اداروں کی خود مختاری ہماری حقیقی ترجیحات ہیں۔

لیکن ایک کمزور سیاسی نظام یا اس طرز کی حکومت سے یہ توقع رکھنا کہ وہ کوئی مضبوط اصلاحات ، پالیسیاں ، قانون سازی اور عملدرآمد کے نظام کو ممکن بناسکیں گے ، ممکن نظر نہیں آتا۔ تمام جماعتوں پر مشتمل یہ حکومتی اتحاد اقتدار کی بندربانٹ ، وزارتوں کی تقسیم ، ترقیاتی فنڈز ، ادارہ جاتی نظام میں سیاسی مداخلتوں سے ہی باہر نہیں نکل سکے گا۔ہم روائتی سیاسی کھیل میں الجھ کر رہ گئے ہیں ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔