دنیا بھر میں کاروباری ادارے اپنے منافع میں سے کچھ حصہ عوامی فلاحی و بہبود کےلیے رکھتے ہیں۔ جس کو عرف عام میں کارپوریٹ سوشل رسپانسبلیٹی یا کاروباری سماجی ذمے داری بھی کہا جاتا ہے۔
پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں فلاحی خدمات کےلیے انفرادی سطح پر بڑھ چڑھ کر عطیات دیے جاتے ہیں۔ پاکستان میں اکثریت امیر، غریب، کاروباری، تنخواہ دار یا دیہاڑی دار، جو بھی فرد ہو وہ اپنی آمدنی کا کچھ حصہ عطیہ ضرور کرتا ہے۔ اور اسی فیاضی اور عطیات کی وجہ سے ملک کے طول عرض میں بہت سے فلاحی منصوبے کامیابی سے چل بھی رہے ہیں۔
ملک میں انفرادی فیاضی کے علاوہ ریاست نے قانون سازی کے ذریعے کاروباری اداروں کو پابند کیا ہے کہ وہ اپنے منافع کا ایک فیصد کاروباری سماجی ذمے داری پر صرف کریں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان وہ واحد ملک نہیں ہے جہاں پر قانونی طور پر کمپنیوں کو فلاحی منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے یا عطیات دینے کا پابند کیا گیا ہو۔ ایشیا کے بیشتر ملکوں میں قانونی طورپر کاروباری اداروں کو فلاحی کاموں کےلیے عطیات دینے پر ٹیکس کی چھوٹ ملتی ہے۔ ہمارے پڑوس بھارت میں فلاحی کاموں پر منافع کا دو فیصد لازمی خرچ کرنے کا قانون موجود ہے۔
کاروباری سماجی ذمے داری سے اداروں کو ان کی ساکھ کے حوالے سے بہت سے فوائد ہوتے ہیں۔ فلاحی منصوبوں سے جڑ کر یہ اپنے آپ کو ایک ذمے دار اور معاشرے کےلیے حساس ادارے کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ان کی برانڈ پر صارفین کے اعتماد کے علاوہ ملازمت کےلیے ایک اہم ادارے کے طور پر بھی ابھرتے ہیں۔
کاروباری اداروں کی جانب سے کی جانے والی سماجی فیاضی کے حوالے سے سالانہ ایک رپورٹ جاری کی جاتی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں 583 کمپنیوں کی جانب سے فلاحی عطیات دیے جاتے ہیں۔ 2021 میں کمپنیوں نے مجموعی طور پر 16.76 ارب روپے کے عطیات دیے ہیں۔ پاکستان اسٹاک ایکس چینج میں لسٹڈ کمپنیوں کا 52 فیصد ہی کارپوریٹ عطیات دیتی ہیں، جبکہ پبلک غیر لسٹڈ 33 فیصد کمپنیوں اور پرائیویٹ لسٹڈ 27 فیصد کمپنیوں نے عطیات دیے ہیں۔
یہی کارپوریٹ فیاضی ہے کہ شہر کے بڑے سرکاری اسپتالوں میں اکثر شعبہ جات کو کسی نہ کسی ادارے کے توسط سے چلایا جارہا ہوتا ہے۔ کراچی میں موجود جناح اسپتال اور سول اسپتال اس کی بڑی مثالیں ہیں۔ جہاں مختلف شعبہ جات کو کاروباری اداروں نے اپنے ذمے لیا ہوا ہے اور وہاں پر بہتر طبی خدمات فراہم کی جارہی ہیں۔ مگر جن شعبہ جات کو کسی کاروباری ادارے کی پشت پناہی اور مالی معاونت شامل نہیں, وہاں طبی خدمات کے ساتھ ساتھ صفائی ستھرائی اور انفرااسٹرکچر کا بھی برا حال ہے۔
کاروباری عطیات کی اہم مثال آئی بی اے کراچی بھی ہے۔ جب سابق گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر عشرت حسین اس کا حصہ بنے تو انہوں نے بڑے پیمانے پر آئی بی اے میں سرمایہ کاری کرائی اور ایک بارہ منزلہ جدید عمارت ملکی کاروباری اداروں کے عطیات سے مکمل ہوئی ہے۔ اسی طرح شہر میں متعدد کاروباری ادارے مختلف نوعیت کی تعلیمی، طبی اور دیگر فلاحی خدمات فراہم کرنے والے اداروں کو مالی معاونت فراہم کررہے ہیں۔
موجودہ معاشی حالات کی وجہ سے گزشتہ تین سال سے کارپوریٹ فیاضی میں ایک ٹھہراؤ سا ہے۔ ان عطیات کو دینے والی کمپنیوں کے علاوہ کمپنیوں کی اب بڑی تعداد، قبل از ٹیکس منافع کمانے والی کمپنیوں کی ایک بڑی تعداد یعنی 61 فیصد نے کسی قسم کی کارپوریٹ فیاضی نہیں کی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اگر منافع کمانے کے باوجود اسے معاشرے پر خرچ نہ کرنے والی 24 بڑی کمپنیاں اپنے منافع کا ایک فیصد کا بھی عطیات دیتیں تو فلاحی منصوبوں کی مد میں مزید ایک ارب 33 کروڑ روپے دستیاب ہوسکتے تھے۔ اسی طرح پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنیاں اگر فیاضی کرتیں تو مزید 64 کروڑ روپے جمع ہوتے۔ پبلک نان لسٹڈ کمپنیاں 1.5 ارب روپے مزید دے سکتی ہیں۔
سروے میں جن کمپنیوں نے نقصان اٹھایا، ان کمپنیوں نے بھی 35 کروڑ 50 لاکھ روپے کے عطیات دیے۔ ان میں سے ایک کے الیکٹرک بھی ہے جو کہ مالی نقصان کے باوجود فیاضی کا عمل جاری رکھے ہوئے ہے اور وہ کراچی ایوارڈز کے ذریعے ایسی فلاحی تنظیموں کو بجلی کے بلوں میں رعایت فراہم کرتی ہے جو کہ اس کے طے کردہ طریقہ کار کے مطابق درخواست دیتے ہیں۔ اس میں ججز کا ایک آزاد پینل اس بات کا فیصلہ کرتاہے کہ کن فلاحی اداروں کو کتنی بجلی کے بلوں میں رعایت دی جائے گی۔ کے الیکٹرک کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اس وقت ملک اور کراچی کے شہریوں کو معاشی مشکلات کا سامنا ہے۔ اور بطور ایک ذمے دار کاروباری ادارے کے، اس کو خسارے کے باوجود شہر میں فلاحی سرگرمیوں کو جاری رکھنا ضروری ہے تاکہ وہ ادارے جو کہ شہر میں سماجی خدمات فراہم کررہے ہیں وہ اپنی خدمات کو جاری رکھ سکیں۔
پاکستان میں فلاحی منصوبوں میں کاروباری شراکت کو بڑھانے کی ضرورت ہے اور اگر تمام ادارے اپنے منافع کا ایک فیصد فلاحی کاموں پر خرچ کرنا شروع کریں تو تقریباً مزید ساڑھے تین ارب روپے فلاحی کاموں کےلیے دستیاب ہوسکتے ہیں۔ حکومت اور سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن کو اس قانون پر عملدرآمد کرانا اور اس مد میں ٹیکس چھوٹ پر واضح اور آسان طریقہ کار وضع کرنے کی ضرورت ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔