دہشت گردی اور معیشت دو بڑے چیلنجز

آنے والے ماہ وسال میں پاکستان کی سیاسی قیادت اوراداروں کی دانش وبصیرت کا امتحان ہے کہ وہ کیسے اِن سے نبردآزما ہوں گے


Editorial February 17, 2024
آنے والے ماہ وسال میں پاکستان کی سیاسی قیادت اوراداروں کی دانش وبصیرت کا امتحان ہے کہ وہ کیسے اِن سے نبردآزما ہوں گے۔ فوٹو:فائل

عام انتخابات کا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد حکومت سازی کے لیے سیاسی اتحاد اور جوڑ توڑ کا سلسلہ جاری ہے، اور صورتحال کافی واضح ہوتی جا رہی ہے۔

پاکستان مسلم لیگ ن اور اتحادی جماعتوں کی جانب سے وزیراعظم کے عہدے کے لیے شہباز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب کے لیے مریم نواز کو نامزد کیا گیا ہے جب کہ آزاد ارکان کی جانب سے وزیراعظم کے عہدے پر عمر ایوب کی نامزدگی سامنے آئی ہے۔

ن لیگ کی طرف سے پی پی پی، ایم کیو ایم، ق لیگ اور دیگر اتحادیوں کے ساتھ مل کر حکومت بنانے کے اعلان کے بعد یہ تو طے ہے کہ ن لیگ کو پھر ملک چلانے کا موقع ملنے کے امکانات روشن ہوگئے ہیں۔

پاکستان کو نئے قرضوں کے لیے سخت تر شرائط کا سامنا ہوسکتا ہے۔ ٹیکسوں میں اضافے کے علاوہ بعض معاملات میں سبسڈی کے خاتمے سے عام آدمی کے لیے مزید مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔

پاکستان کو اگلے پانچ برس میں سات ارب ڈالر بیرونی قرضوں کی مد میں ادا کرنے ہیں۔ درآمدی بل کے لیے جو کچھ دینا ہوگا وہ اس سے کہیں زیادہ ہوگا۔ ایسے میں آئی ایم ایف سے معاہدے کے سوا چارہ نہیں۔

نئی حکومت کو ایک طرف تو مہنگائی پر قابو پانا ہوگا اور دوسری طرف بے روزگاری کا گراف بھی نیچے لانا ہوگا۔ یہ کام آسان نہیں۔ برآمدات بڑھائے بغیر زرِ مبادلہ کا حصول ممکن نہ ہوگا۔ گزشتہ روز سرکاری نوٹیفیکیشن کے مطابق پٹرول کی قیمت میں 2.73 روپے کا اضافہ کیا گیا ہے جس کے بعد پٹرول کی نئی قیمت 275.62 پیسے فی لیٹر ہوگئی ہے۔

ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 8.37 روپے کا اضافہ کیا گیا ہے، جس کے بعد ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت 287.33 روپے فی لٹر ہوگئی ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں یہ اب ایک کھلی حقیقت ہے۔

معاشی صورتحال کے حوالے سے پاکستان ایک غیر یقینی صورتِ حال سے دوچار ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر تیزی سے گر رہی ہے جو عام لوگوں کے لیے بہت مشکلات کا باعث ہے۔

سیکیورٹی، سیاسی عدم استحکام اور معیشت کی بدحالی کا منفی اثر پاکستان میں جاری سی پیک پر بھی ہوا۔ گو چین نے مشکل وقت میں پاکستان کی مدد کی لیکن حالات کی وجہ سے سی پیک کے بہت سے منصوبے متاثر ہوئے جس کی وجہ سے مجموعی طور پر سی پیک کے منصوبوں میں سست روی کا تاثر ابھرا۔

آئی ایم ایف کی شرائط پر سر جھکا کر عملدرآمد کرتے ہوئے گزشتہ برس اتحادیوں کی حکومت اور اب نگران حکومت نے تو آئے روز بجلی، تیل، گیس اور ادویات کے نرخوں میں اضافہ کرکے انھیں عملاً زندہ درگور کردیا ہے۔

اس لیے آئی ایم ایف کی شرائط کی موجودگی میں عوام کو مہنگائی میں ریلیف دینا نئی حکومت کے لیے بہت بڑا چیلنج ہوگا۔ آئی ایم ایف نے تو اپنی شرائط کا ڈنڈا بدستور تھاما ہوا ہے جس سے وہ نگران حکمرانوں کو ان شرائط پر من و عن عملدرآمد پر مجبور کرتا ہے اور حکمران کسی عوامی ردعمل کی پرواہ کیے بغیر مہنگائی کا سارا بوجھ عوام کی جانب منتقل کرتے چلے جا رہے ہیں۔

آئی ایم ایف کی طرف سے ایک جانب تو حکمرانوں کو مختلف مدات میں عوام کو ریلیف دینے کی تلقین کی جاتی ہے اور دوسری جانب انھیں ٹیکسز بڑھانے، نئے ٹیکس لگانے اور ریونیو کے اہداف ہر صورت پورا کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

اس طرح آئی ایم ایف کی شرائط کے تابع بے چارے عوام ہی مسلسل رگڑے کھا رہے ہیں اور انھیں اس معاملہ میں نئے حکمرانوں کی جانب سے بھی اپنے اچھے مستقبل کے لیے امید کی کوئی کرن نظر نہیں آرہی کیونکہ آنیوالے حکمران بھی آئی ایم ایف کی لاگو کردہ شرائط پر من و عن عملدرآمد کے پہلے ہی پابند بنائے جا چکے ہیں۔

وطن عزیز میں کروڑوں لوگ غربت کی سطح کے نیچے جی رہے ہیں، کتنے ہی لوگ کچرے سے کھانا چن کر کھاتے ہیں اور کتنوں کے بدن پر پورے کپڑے نہیں ہیں۔ جب محرومی میں پسے ہوئے لوگ اپنی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے بہرصورت بیرون ملک جانے کی کوشش کرتے ہیں تو انسانی اسمگلرز اور ایجنٹس ان کو موت کے منہ میں دھکیل دیتے ہیں۔

نئی حکومت کو ان کے لیے باعزت روزگار کے مواقع پیدا کرنے ہوں گے، غربت کا حل یہ ہے کہ تعلیم اور روزگار عام کیا جائے لوگوں کو ان کو پیروں پرکھڑا کیا جائے۔ دوسری جانب اندرونی سلامتی یقینی بنانا بھی لازم ہے۔ بلوچستان کی صورتحال بہت زیادہ بگڑی ہوئی ہے۔

دہشت گردی پر قابو پائے بغیر ملک کو حقیقی استحکام کی طرف نہیں لے جایا جاسکتا۔ پاکستان میں اندرونی استحکام یقینی نہ بنایا جاسکا تو ملک خارجہ امور کے میدان میں بھی کمزور رہے گا۔ عالمی اور علاقائی صورتحال میں تیزی سے تبدیلیاں رْونما ہو رہی ہیں اور پاکستان اْن تبدیلیوں کے اثرات کی زد میں ہے۔ ملکی سطح پر سیاسی عدم استحکام اور بدحال معیشت نے پاکستان کے لیے مشکلات میں اضافہ کیا ہے۔

گزشتہ چند ماہ کے دوران بین الاقوامی، علاقائی اور ملکی منظر نامے میں ایسے واقعات رونما ہوئے جن کی وجہ سے ملک کی لیڈرشپ کو آنے والے وقت میں پیچیدہ صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑے گا اور مشکل مگر ناگزیر فیصلے کرنے پڑیں گے۔ پاکستان پر فوری اثر انداز ہونے والے حالات میں چین اور امریکا کی بڑھتی ہوئی مخاصمت، افغانستان میں امن و امان کی صورتحال، بھارت کے ساتھ جاری کشیدگی اور پاکستان میں سیاسی عدم استحکام اور معاشی صورت ِ حال بہت اہم ہیں۔

آنے والے ماہ وسال میں پاکستان کی سیاسی قیادت اور اداروں کی دانش و بصیرت کا امتحان ہے کہ وہ کیسے اِن سے نبرد آزما ہوں گے۔عالمی سطح پر بڑھتا ہوا تنازعہ چین اور امریکا کے درمیان مقابلے کے سبب ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ کچھ ایسے مسائل ہیں جو دونوں ممالک کے درمیان مخاصمت کو ہوا دے سکتے ہیں اور جس کا نتیجہ دونوں طاقتوں کے درمیان سرد جنگ کی صورت میں نکل سکتا ہے جو پہلے سے مشکلات میں گھری دْنیا کے لیے اچھی خبر نہیں ہے۔

ماضی کی سرد جنگ دْنیا کے لیے اچھا تجربہ نہیں تھا۔ پاکستان اِس خطے کا ایک انتہائی اہم ملک ہے۔ جیسے جیسے دو بڑی طاقتوں کی کشمکش بڑھے گی، پاکستان کے چیلنجز میں بھی مسلسل اضافہ ہو تا جائے گا۔ چین کے خلاف بھارت اور امریکا کا گٹھ جوڑ اور پاکستان کے چین کے ساتھ تعلقات بھی پاکستان کو مشکل سے دوچارکرتے ہیں کیونکہ بھارت اور امریکا کا اتحاد پاکستان پر براہ راست اثر انداز ہوتا ہے۔

امریکا، بھارت کی خطے میں نیٹ سیکیورٹی فراہم کرنے والے ملک کے طور پر حوصلہ افزائی کرتا ہے اور خطے کے حوالے سے امریکا کا بھارت کے ساتھ انٹیلی جنس شیئرنگ کا مربوط نظام قائم ہے جو پاکستان کے لیے شدید تشویش کا باعث ہے۔دوسرا بڑا چیلنج جو پاکستان کو درپیش ہے وہ افغانستان میں امن کا قیام ہے۔

جب طالبان نے امریکا کو افغانستان سے انخلاء پر مجبور کیا تو امریکا اور نیٹو افواج نے ایک غیر ذمے دارانہ انخلاء کیا جس کے لیے شاید طالبان بھی تیار نہ تھے۔ امریکا کے اِس طرح اچانک چلے جانے سے افغانستان کے اندر ایک سیکیورٹی خلا پیدا ہوا جو تاحال پر نہ ہوسکا کیونکہ افغانستان کے اندر بہت سی دہشت گرد تنظیموں نے سر اْٹھانا شروع کر دیا جو عالمی اور علاقائی امن کے لیے خطرہ ہیں۔ اِس متوقع دہشت گردی کا اثر پاکستان پر سب سے زیادہ ہورہا ہے اور کچھ تو دہشت گردی کے حملوں کی صورت دِکھائی دینا شروع ہو گیا ہے۔

پاکستان کو تحریک ِطالبان پاکستان کے بڑھتے ہوئے خطرے کا بھی سامنا ہے۔ افغانستان کے ساتھ امن اور دو طرفہ تعلقات بھی پاکستان کے لیے ایک بڑا چیلنج ہیں۔ جب سے طالبان نے اقتدار سنبھالا ہے پاکستان طالبان کے ساتھ خوشگوار تعلقات اور خطے میں بھی امن قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن افغانستان کی طرف سے مسلسل سردمہری کا رجحان ہے۔

ہندوستان بھی پاکستان کے لیے ایک اہم چیلنج ہے۔ دونوں ممالک کے تعلقات ہمیشہ سے سرد مہری کے رہے جس کی بڑی وجہ تنازعات اور بھارت کا رویہ ہے۔ حالیہ تناؤ کی بڑی وجہ کشمیر میں غیرآئینی اقدامات ہیں جو بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی ہیں اور بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی پامالی کا باعث ہیں۔

2019ء کے بعد جب بھارت نے کشمیر کی آئینی حیثیت ختم کی اور ظالمانہ کرفیو لگا دیا تو دونوں ممالک کے تعلقات محدود ہو گئے۔ ہندوستان میں بھی مودی سرکار کی '' ہندوتوا '' پالیسی کا نشانہ نہ صرف مسلمان ہیں بلکہ ہندوستان میں رہنے والی دوسری اقلیتیں بھی ہیں۔ بھارت میں بھی مئی تک انتخابات ہونے والے ہیں، اور بھاری مینڈیٹ کے ساتھ بھارت کی ہندو قوم پرست حکومت کی اقتدار میں واپسی پاکستان کی نئی حکومت کے لیے معاملات کو مزید پیچیدہ بنا سکتی ہے۔

سب سے پہلا مسئلہ جو نئی حکومت کو درپیش ہو گا وہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ ایک نیا معاہدہ کرنا ہے۔ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان ہونے والے معاہدے کی مدت اپریل میں ختم ہو جائے گی۔

جولائی 2023 میں نو ماہ کے لیے کیے گئے، اس معاہدے کے تحت پاکستان کو تین ارب ڈالر فراہم کیے گئے تھے جس کی وجہ سے معیشت کو کچھ سہارا ملا تھا، تاہم نئی حکومت کو ذمے داریاں سنبھالنے کے ساتھ ہی اگلے بجٹ کی تیاری اور ملک میں معاشی توازن برقرار رکھنے کے لیے مزید رقم کی ضرورت ہو گی اور معاشی استحکام کے لیے اس کو آئی ایم ایف سے معاہدہ کرنا پڑے گا۔ حرف آخر جو بھی حکومت سنبھالے گا، اس کے لیے مستقبل کی راہ گلزار نہیں بلکہ پرخار ہوگی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں