پاکستان میں موٹر سائیکل اورعوامی سواری
2024 کے آغاز پر اندازہ ہے کہ 2 کروڑ65 لاکھ تک موٹرسائیکلیں ہیں
2014سے ہی پاکستان میں موٹرسائیکلوں کی خریداری میں اچانک اضافہ ہونے لگا اور یہ اضافہ مسلسل اب تک جاری ہے۔ اس بات کی وضاحت پاکستان اسٹیٹیکل ایئر بک سے کی جا رہی ہے، جس کے مطابق 2014 میں پاکستان میں موٹر سائیکلوں کی تعداد 92 لاکھ سے بڑھ کر ایک کروڑ 10 لاکھ تک جا پہنچی۔
اگلے برس ایک کروڑ 31 لاکھ اور 2016 میں ایک کروڑ 52 لاکھ اور 2020 تک 2 کروڑ 34 لاکھ اب 2024 کے آغاز پر اندازہ ہے کہ 2 کروڑ65 لاکھ تک موٹرسائیکلیں ہیں۔
بہت سی خراب ہو چکی اور کسی گودام یا گھر کے کسی کونے میں موجود ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں خستہ حالت میں موٹرسائیکلیں پاکستان کے کئی تھانوں کی حدود میں پائی گئی ہیں۔ ان موٹر سائیکلوں کا پاکستان میں بڑی ہی بے دردی سے استعمال ہو رہا ہے اور یہ موٹر سائیکلیں بھی بڑی ڈھٹائی کے ساتھ اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں، جس کے نظارے ہم ہر وقت کرتے ہی رہتے ہیں۔
ایک موٹر سائیکل پر بعض اوقات 4 سے 5 افراد بچے، بوڑھے جوان لدے پھندے آتے جاتے نظر آتے ہیں، اگر ان پر سامان لادنے کی بات کی جائے تو ان پر گدھا گاڑی کے برابر سامان لاد دیا جاتا ہے، اگر مبالغہ نہ ہو تو ایک سوزوکی کے برابر بھی سامان لاد دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں اس کے ذریعے ایک کار کے برابر کا کام لیا جاتا ہے۔
وہ اس طرح کہ اس کے لیے اس کے دو ٹائروں کی بھی ضرورت نہیں رہتی بس موٹرسائیکل کو دو حصوں میں تقسیم کیا، اگلے حصے کو ٹین نما ڈبے کے ساتھ جوڑا اب اس کے اندر چاہے سیٹیں لگا کر اسے چنگچی یا رکشہ کی نسل کی کوئی سواری یا سامان لادنے کے لیے منی ٹرک جیسی حیثیت دے دیں۔
کہتے ہیں کہ جاپانی، جاپانی ہوتے ہیں لیکن پاکستانی ان سے بھی کہیں آگے ہیں۔ اس ایجاد کو دیکھ کر وہ بھی سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں کہ آدھی موٹر سائیکل اورکہیں منی ٹرک اور کہیں منی مزدا کی صورت میں شہروں، گاؤں، دیہاتوں، پہاڑی علاقوں، ساحلی علاقوں میں دندناتی پھر رہی ہیں۔
سواری اٹھانے کی بات ہو تو ڈرائیور صاحب کے ساتھ دو افراد اور پچھلی سیٹوں پر 6 افراد اگر بچے بھی بٹھا لیے جائیں تو کل 10 سے 12 افراد کو لیے ادھر سے ادھر یہ جا وہ جا، شہر ہوں، قصبے یا دیہات خوب چکر لگاتی رہتی ہیں۔ اب یہ علیحدہ بات ہے کہ ٹریفک کے مسائل پیدا ہوں یا حادثات کے خطرات ہوں، یا بیٹھنے والے مسافروں کو صحت سے متعلق شدید مسائل سے دوچار ہونا پڑے، ان سب باتوں سے بے پروا یہ سواریاں ڈھونے میں پورے پاکستان میں مصروف عمل ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ سندھ میں 55 لاکھ موٹرسائیکلیں ہیں جن میں سے بیشتر کراچی میں ہیں اور ان میں سے ہزاروں موٹرسائیکلوں کی شامت آئی ہوئی ہے، کیونکہ اسے دو حصوں میں تقسیم کر کے کچھ شیٹوں ،کچھ تختوں سے کچھ لوہے کی سیٹیں تیار کر کے انچر پنکچر کھڑکھڑاتی، بڑبڑاتی ہوئی چنگچی تیار کر لی جاتی ہے۔
ڈرائیور سے متعلق کوئی پابندی نہیں چاہے 9 سال کا بچہ ہو یا 90 سال کا بوڑھا۔ کراچی میں اب زیادہ تر انھی کا راج ہے۔ بیٹھنے والے مسافروں کو بہت سی سہولیات بھی میسر ہیں اور اگلے مسئلے مسائل کی بات کریں تو صحت کے مسائل، روڈ کے مسائل، ٹوٹی پھوٹی سیٹوں اور ان کے اردگرد پھیلے ہوئے کیلوں اور زنگ آلود آئرن وائرز اور بہت سی باتیں ہیں۔ آج کل ہر شخص وقت کی کمی کی شکایت کرتا نظر آتا ہے۔
باہمی گفتگو کا فقدان نظر آتا ہے۔ لیکن چنگچی نے یہ مسئلہ حل کر دیا ہے کیونکہ ٹریفک کے بیچوں بیچ آپ چاہیں تو کسی کار والے سے سلام دعا، اشاروں کی زبان سے گفتگو یا دوسروں کا خیال کیے بغیر اونچی آواز سے مخاطب بھی ہو سکتے ہیں۔ اگر کسی دوست کو شکایت ہو کہ آپ وقت نہیں دیتے، آپ سے بات نہیں ہوتی تو اسے مقررہ وقت پر چنگچی کے اڈے یا اسٹاپ پر بلا لیں ادھر آپ سوار ہوئے سائیڈ کی سیٹ سنبھالیں، موٹرسائیکل والا دوست آپ کے قریب ہوگا، بس پھرگفتگو کا آغاز کر دیجیے۔
گھر کے باورچی خانے، ڈرائنگ روم، محلے والوں کی شکایت سے لے کر رشتے ناتوں کی بات خالی آسامیوں، نوکری کی تلاش، ملکی سیاست، اسمبلی کا احوال، یہاں تک کہ حکومت سازی تک کے امور میں باہمی مشورہ کرسکتے ہیں، لیکن اب چنگچی میں بیٹھ کرگفتگو کے آداب اور دیگر کوڈ ورڈز پرکام کیا جا رہا ہے۔
مثلاً چنگچی میں بیٹھا ہوا مسافر موٹر سائیکل سوار دوست کو لطیفے نہ سنائے کیونکہ اس کے پیٹ میں اگر بل پڑ گئے تو ٹریفک کا نظام درہم برہم ہو جائے گا۔ اسی طرح اپنی مالی حیثیت، گھر میں پڑے لاکھوں ڈالرز، روپے، کلو دو کلو کے برابر سونے کے سیٹ اور دیگر مالی امور پر گفتگو سے پرہیز کرنا چاہیے یا ایسے کوڈ ورڈز استعمال کرنے چاہئیں تاکہ بعد میں گھر کو ڈاکے سے محفوظ رکھا جاسکے، لیکن سب سے بڑی مشکل اور آفت اور ناقابل حل مسئلہ چنگچی میں سفر کرنے والے مسافروں کی صحت کا مسئلہ ہے، لیکن چنگچی ڈرائیور اس کا سارا ملبہ ان سڑکوں پر ڈال دیتے ہیں جو ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، جو اب صرف روڑی، کنکر، ریت مٹی کا شاہکار بن کر رہ گئی ہیں۔
میرے کالم کو پڑھنے والے مہربان نے فون پر بتایا کہ چنگچی پر سفر کرنا ان کی مجبوری ہے اور اس کے باعث وہ کمر درد اور دیگر صحت کے مسائل کا شکار ہو کر رہ گئے ہیں، کیونکہ ٹوٹی سڑکیں جن میں اکثر گٹر کے پانی سے زیر آب آ جاتی ہیں۔ کراچی میں تو تیز بارش آ جائے تو سڑکیں بھی اسی کے ساتھ بہہ کر چلی جاتی ہیں۔
بعد میں شہری اور انتظامیہ دونوں اس بات پر متفق تو ہو جاتے ہیں کہ یہاں پر سڑک تو تھی وہ کہاں چلی گئی؟ بہرحال اسی ٹوٹی پھوٹی ادھڑی بکھری ہوئی نام نہاد سڑک پر چنگچی کے مسافر اپنی سلامتی سے بے پروا ہو کر صحت کے مسائل سے چاہے نالاں ہو کر، اسی عوامی سواری پر سفر کرنا جب ضروری ہی ہے تو خوش باش ہو کر بے پروا ہو کر اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ کرکے اور احتیاطی تدابیر کے ساتھ خوش و خرم سفر کریں کیونکہ دفتر و روزگار جانا بھی ضروری ہے اور واپس گھر آنا بھی ضروری ہے جس کے لیے بس یہی عوامی سواری میسر ہے، ورنہ پھر کیا کریں؟