مسلم لیگ کی حکومت اور خدشات

نئی حکومت کی پالیسیوں کے بارے میں بھی مختلف نوعیت کے خدشات کا اظہار ہو رہا ہے


Dr Tauseef Ahmed Khan February 17, 2024
[email protected]

پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ق، متحدہ قومی موومنٹ اور بلوچستان عوامی پارٹی نے میاں شہباز شریف کو وزیر اعظم بنانے پر اتفاق کر لیا۔

مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف نے اپنے بھائی کو وزیراعظم اور اپنی صاحبزادی مریم نواز کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ نامزد کردیا، اگرچہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور ایم کیو ایم نے میاں شہباز شریف کو ملک کا انتظامی سربراہ بنانے پر اتفاق کیا مگر پیپلز پارٹی نے وفاقی کابینہ میں شامل ہونے سے انکارکیا اور صدر، چاروں صوبوں کے گورنر، قومی اسمبلی کے اسپیکر اور سینیٹ کے چیئرمین کے عہدے مانگ لیے۔

جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے بھی حزب اختلاف میں بیٹھنے کا عندیہ دے دیا مگر ان جماعتوں کے درمیان مزید اتفاق رائے کے لیے کمیٹیاں بن گئیں اور بعض صحافیوں کا کہنا ہے کہ بات چیت کے اگلے مراحل میں پیپلز پارٹی اور سابقہ پی ڈی ایم کی جماعتوں کے وفاقی حکومت میں شمولیت کے روشن امکانات ہیں، مگر بارہویں انتخابات کی شفافیت پر اعتراضات داخل کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔

چاروں صوبوں میں مختلف جماعتوں کے ارکان اور حامی احتجاج کر رہے ہیں۔ بعض سیاسی شخصیات نے تحریک انصاف کے احتجاج کو روکنے کے لیے 9 مئی جیسی نئی سازش کا پتہ چلانے کا بھی انکشاف کیا ہے، مگر اس دفعہ بین الاقوامی سطح پر 8 فروری کو ہونے والے انتخابات پر اعتراضات کا ایک سلسلہ جاری ہے۔

برطانوی وزارت خارجہ نے تو انتخابی نتائج پر اعتراض کیے تھے۔ امریکا کی وزارت خارجہ کے ترجمان Mathew Miller نے بھی سخت ریمارکس دیے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انتخابی عمل میں مداخلت اور انتخابی بدعنوانیوں کے الزامات کی پاکستان کے عدالتی نظام کے تحت تحقیقات ہونی چاہئیں۔

انھوں نے خاص طور پر انتخابات والے دن موبائل فون اور انٹرنیٹ سسٹم کی معطلی کا ذکرکرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی بندشوں سے انتخابی عمل کی شفافیت پر اعتراضات پیدا ہوئے ہیں۔ اسی طرح اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے بھی انتخابی بدعنوانیوں کی مکمل تحقیقات پر زور دیا ہے اور کہا ہے کہ پاکستان اس صورتحال میں سیاسی عدم استحکام کا شکار ہوسکتا ہے۔ اسی طرح کا بیانیہ یورپی یونین اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے بھی اختیارکیا ہے۔

نئی حکومت کی پالیسیوں کے بارے میں بھی مختلف نوعیت کے خدشات کا اظہار ہو رہا ہے۔ شریف خاندان کے ایک فرد کے وزیر اعظم اور دوسرے فرد کے ملک کے سب سے بڑے صوبے کے انتظامی سربراہ بننے کے فیصلے سے تحریک انصاف کے موروثی سیاست کے الزام کی توثیق ہوئی ہے، اور یہ سوال اہم ہوگیا ہے کہ 90کی دہائی سے مسلم لیگ ن کو جب بھی برسر اقتدار آنے کا موقع ملتا ہے وفاق کا سب سے اہم عہدہ اور ملک کے بڑے صوبے کا سب سے بڑا عہدہ شریف خاندان کے افراد کے لیے ہی مختص ہوتا ہے۔

مسلم لیگ ن میں بہت سے رہنماؤں نے میاں برادران پر آنے والے برے وقت میں ان کے ساتھ وفاداری کا ثبوت دیا۔ شاہد خاقان عباسی، رانا ثناء اﷲ ، احسن اقبال اور خواجہ سعد رفیق وغیرہ نے گزشتہ دور حکومت میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کی ہیں۔ بعض رہنماؤں کے خاندان کے افراد بھی زیرِ عتاب رہے ہیں مگر جب بھی اچھا وقت آتا ہے تو معاملہ شریف خاندان تک محدود کردیا جاتا ہے۔ ایک وقت تھا کہ جاوید ہاشمی، میاں نواز شریف کے قریبی لوگوں میں شمار ہوتے تھے۔

جنرل پرویز مشرف کے دور اقتدار میں وہ کئی برس جیلوں میں قید رہے، شاہد خاقان عباسی کی مثال تو تازہ ہے۔ شاہد خاقان عباسی نے تحریک انصاف کے دور میں ہر قسم کے دباؤکا سامنا کیا، وہ ناکردہ گناہوں کی پاداش میں پرویز مشرف کے دور میں بھی اور تحریک انصاف کے سابقہ دور میں بھی قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے اور شاہد خاقان عباسی کا اختلاف مریم نواز کو مسلم لیگ ن کا چیف آرگنائزر بنانے پر ہوا۔

اب مسئلہ صرف مسلم لیگی رہنماؤں کی قربانیوں اور انھیں اچھے وقت میں نظر اندازکرنے کا نہیں ہے بلکہ مسلم لیگ ن کے خلاف سوشل میڈیا پر ہونے والے پروپیگنڈے کا بھی ہے۔

گزشتہ 10برسوں سے تحریک انصاف کے سوشل میڈیا کے ماہرین اس وراثتی نظام کے خلاف بیانیہ تیارکرتے ہیں اور نئی نسل اس بیانیے سے متاثر ہوتی ہے مگر مسلم لیگ ن کی قیادت اس اہم معاملے پر نامعلوم وجوہات کی بناء پر توجہ دینے کو تیار نہیں۔ میاں شہباز شریف نے گزشتہ دنوں بار بار کہا کہ نئے وزیر اعظم کو فوری طور پر آئی ایم ایف سے نیا امدادی پیکیج لینا پڑے گا۔

ایک خبر میں کہا گیا ہے کہ گیس کی قیمتوں میں اضافے سے متعلق آئی ایم ایف کو دی گئی یقین دہانی کی ڈیڈلائن ختم ہونے میں صرف دو دن باقی ہیں۔ آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت اس سال گیس کے نرخ میں تیسری دفعہ اضافہ ہوگا۔

اس خبر میں بتایا گیا ہے کہ گیس اور پٹرولیم کی مصنوعات کی قیمتوں کا تعین کرنے والے ادارے اوگرا نے اسلام آباد سمیت پنجاب اور خیبر پختون خوا کے گیس صارفین کے لیے ٹیرف میں اوسطاً 35.13 فیصد جب کہ سندھ اور بلوچستان کے صارفین کے لیے 8.57 فیصد اضافے کی سمری تیار کی ہے۔ اسی طرح ایک سال کے دوران گیس کی قیمتوں میں ایک محتاط اندازے کے مطابق کئی سو گنا اضافہ ہوا ہے اور اس دفعہ پھر 67 فیصد اضافہ ہوگا۔ اس کے نتیجے میں بجلی اور پٹرول کی قیمتیں بھی ہر صورت میں بڑھیں گی۔

میاں شہباز شریف تمام سیاسی جماعتوں کے درمیان معیشت کے میثاق پر اتفاق رائے چاہتے ہیں۔ مسلم لیگ ن ہمیشہ سے نجی شعبے کو ترقی دینے کی حامی رہی ہے۔ اس فلسفے کے تحت میاں شہباز شریف پی آئی اے، اسٹیل ملز، ریلوے اور پوسٹ آفس سمیت کئی اداروں کی نجکاری کو یقینی بنانے پر توجہ دینا چاہتے ہیں۔

ان قومی اداروں کی نجکاری سے بے روزگاروں کی شرح میں بھی اضافہ ہوگا۔ پیپلز پارٹی نے ہمیشہ اس طرح کی نجکاری کی مخالفت کی ہے اور ایک اور حقیقت یہ بھی ہے کہ ان اداروں میں ہزاروں افراد کو ملازمتیں پیپلز پارٹی کے دورِ اقتدار میں دی گئیں، یوں پیپلز پارٹی اپنے اس اثاثے سے محروم نہیں ہونا چاہے گی مگر ملک کے معاشی بحران کے حل کے لیے ریاستی ڈھانچے میں 50فیصد کے قریب کمی ضروری ہے۔

بلاول بھٹو زرداری بار بار 21 وزارتوں کو ختم کرنے کا وعدہ کر رہے ہیں۔ اس طرح بلاول ان وزارتوں کو ختم کرنے اور اربوں روپے عوامی منصوبوں پر خرچ کرنا چاہتے ہیں مگر مسلم لیگ ن کے لیے ان وزارتوں کو ختم کرنا ایک مشکل فیصلہ ہوگا۔

معاشی بحران کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ بھارت، ایران اور افغانستان سے تعلقات معمول پر لائے جائیں۔ بھارت سے تجارت شروع ہونے پر مہنگائی میں فرق پڑ سکتا ہے مگر میاں شہباز شریف کی اتحادی حکومت اپنے 15مہینوں کے اقتدار میں اس اہم مسئلے کو حل نا کرسکی۔ اس کے ساتھ ہی دفاعی اخراجات سمیت غیر پیداواری اخراجات میں کمی ہونا ضروری ہے۔

اگرچہ احسن اقبال یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ میاں شہباز شریف کو اتحادیوں کے ساتھ چلنے کا ایک خوش گوار تجربہ ہے مگر اس تجربے کی قیمت زیادہ ہے۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی میں اس دفعہ فاصلے بہت زیادہ ہیں۔ خواجہ آصف نے اس صورتحال کو محسوس کرتے ہوئے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی پہلے مرحلے میں حکومت میں شامل نا ہو تو یہ خطرے کی گھنٹی ہوگی۔

میاں نواز شریف کے مستقبل کے کردار کا معاملہ بھی نئی حکومت کے مستقبل کے لیے اہم ہوگا۔ دوسری طرف مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور دیگر اتحادیوں کو اس حقیقت کو مد نظر رکھنا چاہیے کہ چاروں صوبوں کے عوام کی اکثریت ان جماعتوں کے ساتھ نہیں ہے، یوں اگر نئی حکومت مہنگائی، بے روزگاری اور بدترین طرزِ حکومت جیسے بحرانوں پر قابو نہیں پاسکتی تو شاید فیصل واوڈا کی یہ پیشگوئی مستقبل میں واقعی درست ثابت نا ہوجائے کہ مسلم لیگ کی اگلی حکومت آخری حکومت نا ہو۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔