کیا نئی حکومت پائیدار ہوگی
ملک کو موجودہ بحران سے نکالنے کے لیے نئی حکومت کی جلد تشکیل ضروری ہے
ملک میں عام انتخابات کا انعقاد ایک معجزے سے کم نہیں تھا۔ خوش قسمتی سے ہماری اعلیٰ عدلیہ اور الیکشن کمیشن نے تمام مشکلات کے باوجود ملک میں الیکشن کا انعقاد ممکن بنا دیا ہے۔
ہم پاکستانیوں کے لیے یہ امر قابل فخر ہے کہ ہم نے اپنے ملک میں جمہوری روایات کو قائم رکھا اور الیکشن کے انعقاد کے سلسلے میں حائل تمام رکاوٹوں اور سازشوں کا راستہ روک دیا اور انھیں مکمل طور پر ناکام بنا دیا۔ ملکی معیشت امتحانی دور سے گزر رہی ہے۔
بیرونی قرضوں کی اگلی قسطوں کی ادائیگی کے لیے آئی ایم ایف کے جائزہ مشن کا دورہ حالیہ ہونے والے انتخابات اور نئی وفاقی و صوبائی حکومتوں کے قیام سے مشروط تھا جو اب ممکن ہو سکے گا۔ آئی ایم ایف کا درمیانی مدت کا بیل آؤٹ پیکیج بہت اہم ہے کیونکہ اسی پر ملک کے بیرونی قرضوں کی واپسی کا دار و مدار ہے۔
ملک کو موجودہ بحران سے نکالنے کے لیے نئی حکومت کی جلد تشکیل ضروری ہے۔ اس وقت تمام پارٹیوں نے مل جل کر ملک اور قوم کے لیے کام کرنے کا عہد کیا ہے۔ نئی حکومت سے عوام نے بہت امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں وہ چاہتے ہیں کہ ملک کو مہنگائی اور بے روزگاری سے نجات دلانے کے لیے نئی حکومت اپنا بھرپور کردار ادا کرے گی۔
مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت پہلے بھی 2007 میں قائم رہ چکی ہے، اس وقت بھی یہ دونوں ایک ساتھ نہیں چل سکی تھیں، ان میں باہم شک و شبے کا ماحول رونما رہا جس سے ملک کو بہت نقصان اٹھانا پڑا تھا۔
تاہم اس وقت ملکی معیشت اتنی خراب نہیں تھی جتنی کہ اس وقت ہے چنانچہ دونوں پارٹیوں کو اس وقت ملکی اور عوامی مفاد میں بہرصورت پانچ سال شیر و شکر رہ کر گزارنا ہوں گے اور اگر وہ ایسا نہیں کر پائیں تو پھر ملک میں ان کی باہمی چپقلش سے عدم استحکام مزید بڑھے گا اور ملک مزید بحرانی کیفیت میں مبتلا ہو سکتا ہے چنانچہ عوام کی ان دونوں پارٹیوں سے یہ توقع ہے کہ وہ انھیں مایوس نہیں کریں گی اور باہمی گفت و شنید سے ہر مسئلے کا حل نکال لیں گی۔
مسلم لیگ (ن) کے حالیہ نتائج کو دیکھ کر یہ لگتا ہے کہ انھوں نے اپنے بل بوتے پر الیکشن لڑا ہے اور انھیں کوئی غیبی مدد حاصل نہیں تھی چنانچہ آگے بھی انھیں ملک کو اپنی ہی تدبیر اور محنت سے چلانا ہوگا۔ لگتا ہے وہ ملک کو پیپلز پارٹی کے اشتراک سے بخیر و خوبی چلائیں گے تاہم انھیں پیپلز پارٹی سے اس کا تعاون حاصل کرنے کے لیے اس سے جو بھی وعدے کیے ہوں گے انھیں ضرور نبھانا ہوگا اسی طرح ایم کیو ایم اور دیگر سیاسی پارٹیوں کو انھوں نے اپنے ساتھ ملانے کے لیے جو عہد و پیماں کیے ہیں انھیں بھی پورا کرنا ہوگا۔
یہ حقیقت ہے کہ ایم کیو ایم کے پی پی سے تعلقات کبھی بھی خوشگوار نہیں رہے ہیں۔ حالانکہ ایم کیو ایم کئی دفعہ پیپلز پارٹی کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں شامل رہی ہے مگر ہمیشہ ہی تلخیاں برقرار رہی ہیں۔ ایم کیو ایم نے مسلم لیگ (ن) کی اتحادی حکومت میں شمولیت اختیار کر لی ہے مگر اس اتحاد میں پیپلز پارٹی بھی شامل ہے۔ ایم کیو ایم کے لیے سندھ میں اپنے منشور کو روبہ عمل میں لانے کے لیے اور خاص طور پر کراچی میں اپنے میئر کو بااختیار بنانے کے لیے 18 ویں آئینی ترمیم میں مزید ترمیم کی ضرورت ہے۔
ایسا ہونے سے پیپلز پارٹی کو کراچی کے بلدیاتی نظام میں جو برتری حاصل ہے وہ ختم ہو جائے گی تاہم ایم کیو ایم کو کراچی میں عوامی مینڈیٹ کو نبھانے کے لیے اور شہر کے مسائل کو حل کرنے کے لیے یہ ترمیم کرانا بہت ضروری ہے۔ ایم کیو ایم کے کنوینر خالد مقبول صدیقی نے بتایا ہے کہ انھوں نے مسلم لیگ (ن) سے اتحاد کرنے کے لیے 18 ویں ترمیم میں مزید ترمیم کرانے کا وعدہ لیا ہے۔
شہباز شریف نے ایم کیو ایم سے یہ وعدہ تو ضرور کر لیا ہے مگر ایسا ہونا ٹیڑھی کھیر نظر آتا ہے کیونکہ جب بھی شہباز شریف 18 ویں ترمیم میں ترمیم کی بات کریں گے پیپلز پارٹی اسے رد کرے گی اور اگر ایم کیو ایم کے زور دینے پر شہباز شریف نے اس کے مطالبے کو منوانے کا فیصلہ کیا تو پیپلز پارٹی یقینی طور پر حکومت سے الگ ہونے کی دھمکی دے گی اور اس دھمکی کے آگے شہباز شریف کو لامحالہ خاموشی ہی اختیار کرنا پڑے گی۔
ایسی صورت حال میں ایم کیو ایم کو سندھ اسمبلی میں بھی پیپلز پارٹی کے ساتھ مفاہمت کرنا ہوگی اور اس سے مل کر کراچی کے مسائل حل کرانا ہوں گے۔ بہرحال ایم کیو ایم کی قیادت کافی سوجھ بوجھ رکھتی ہے اور وہ ضرور بہترین حکمت عملی اختیار کر کے کراچی کے مسائل حل کرانے میں ضرور کامیاب ہو جائے گی۔