معیشت وفاقیت اور پاکستان
خان صاحب مزاحمت کی سیاست زیادہ عرصے تک نہیں چلا سکتے ان کی خواہش یہ ہوگی کہ اس ملک کی معیشت بیٹھے
انتخابات کے فورا بعد جو صورتحال بنی ہے ،اس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ ان انتخابات میں بہت کچھ برا ہو ا ہے تاہم اب یہ افواہیں کمزور پڑنے لگی ہیں۔
فافن کی رپورٹ اور امریکی ترجمان کے بیان کے بعد تاثر یہ بننا شروع ہو گیا ہے کہ انتخابات میں بے قاعدگیاں تو ہوئی ہیں لیکن ان حلقوں میں زیادہ ہوئیں ہیں جہاں سے پی ٹی آئی نے نشستیں جیتیں ہیں۔
امریکی ترجمان نے یہ بھی بیان دیا ہے کہ الیکشن میں ہونے والی بے قاعدگیوں کو پاکستان اپنے قوانین کے مطابق حل کرے گا۔ امریکا نے پاکستان سے زیادہ بنگلہ دیش کے الیکشن پر تنقید کی تھی،مگر ان تمام حالات کے باوجود پاکستان میں انتخابات ہوئے اور ہم دنیا کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہو گئے کہ پاکستان میں بھی پانچ سال کے اندر عام انتخابات ہو سکتے ہیں۔ہم آگے بڑھ رہے ہیں، ایسا کوئی ڈیڈ لاک نہیں جو 1971 میں پیدا ہوا تھا۔یہ انتہائی احمقانہ تجزیہ ہے کہ اس وقت ہم ایسے ہی بحرانوں میں پھنسے ہیں جو بحران 1971 میں پیدا ہوا تھا۔
1971 کے انتخابات میں شیخ مجیب الرحمن نے سادہ اکثریت حاصل کی جس کو ہم نے تسلیم نہیں کیا۔مگر اس وقت عمران خان کے حمایت یافتہ ارکان کے پاس قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں سادہ اکثریت نہیں ہے، صرف خیبر پختونخوا میں ان کو سادہ اکثریت حاصل ہے اور اس کو تسلیم بھی کیا جارہا ہے۔ نہ مسلم لیگ (ن) سسٹم سے باہر ہے ، نہ پیپلز پارٹی اور نہ ہی مولانا فضل الرحمن۔ مولاناصاحب چاہے کتنا ہی شور مچائیں یا احتجاج کریں اوراب پیر پگارا صاحب نے بھی احتجاج کرنا شروع کردیا ہے۔
یہ احتجاج ایک سوچی سمجھی سوچ کے تحت کیا جارہا ہے، جس کا مقصد یہ ہے کہ احتجاج کا راستہ صرف خان صاحب کے لیے خالی نہیں چھوڑ دینا ہے بلکہ یہ احتجاج سب کرتے رہیں تاکہ خان صاحب وہ خلا نہ بھر سکیں جس کے بل بوتے پر وہ میڈیا کی شہ سرخیوں کا مرکز بنے رہیں۔
کسی سیاسی جماعت اور اس کی قیادت نے شیخ مجیب الرحمن پر یہودی لابی کا ایجنٹ ہونے کے الزامات عائد نہیں کیے تھے۔ان کے پاس کسی غیر ملکی فنڈنگ کا سرمایہ نہیں تھا، وہ رنگیلا سیاستدان بھی نہیں تھے۔اسی لیے عمران خان کا موازنہ شیخ مجیب کے ساتھ کرنا ایک احمقانہ بات ہے۔ خان صاحب بنیادی طور پر ضیاء الحق اور حمید گل مائنڈ سیٹ والی اسٹبلشمنٹ ، جیوڈیشری، نوکرشاہی اور کاروباری اشرافیہ کا حصہ تھے، وہ سوچ یہ تھی کہ اس ملک میں جمہوریت کو پنپنے نہیں دینا۔
ڈکٹیٹر شپ اور ارسٹوکریسی کو برقرار رکھنا، سرد جنگ والی افغان پالیسی کی حمایت کرنا!اب یہ قاسم سوری سے پوچھا جائے کہ وہ خان صاحب کو جلسے میں ٹرک کے اوپر کھڑے ہو کر یہ مشورے کیوںدے رہے تھے کہ اپنی تقریر میں 'اسلامی ٹچ' دیں۔قاسم سوری نے جب رولنگ دے کر تحریک عدم اعتماد کو روند دیا تھا، خان صاحب نے اسمبلیوں کو تحلیل کردیا اور صدر ڈاکٹر عارف علوی نے اس سمری پر فوراً دستخط کیے، کیا وہ اپنے آپ کو جمہوریت کے دعویدار کہہ سکتے ہیں؟
آج اسٹبلشمنٹ کی سوچ ضیاء الحق ، حمید گل ، اسلم بیگ سے قدرے مختلف ہے۔دراصل اب اسٹبلشمنٹ یہ بھانپ گئی ہے کہ ضیاء الحق اور حمید گل مائنڈ سیٹ نے ملک کو تباہی کے دلدل میں میں دھکیل دیا ہے۔ آج کی اسٹیبلشمنٹ کی سوچ میں تبدیلی سے بااثر اور مقتدر لوگوں کے ایک حصے کے مفادات داؤ پر لگ گئے ہیں۔
1971 میں حالات مختلف تھے، سرد جنگ کا دور تھا۔ ہماری اسٹبلشمنٹ اورامریکا ایک پیج پر تھے۔ملک دو لخت ہونے کے بعد ہم نے ریاست کو مذہبیانے کا جو سفر شروع کیا ، وہ ہی بیج ہیں جن سے پروان چڑھنے والی فصل آج ہم کاٹ رہے ہیں۔1971 کے بعد اس ملک میں صرف ایک ہی اچھا کام ہوا وہ ہے آزادی کے چھبیس سال بعد آئین کا وجود میں آنا جو اس ملک کی بقاء ہے۔پھر اس آئین کے ساتھ ہم نے کیا نہیں کیا؟
نظریہ ضرورت کی قینچیوں سے اس کی باربار سرجری کی۔ہم آج تک ریاست اور مذہب کو الگ نہ کرسکے۔ہم قائد اعظم کی گیارہ اگست کی تقریر میں وضع کردہ نکات کو آئین کا حصہ نہ بنا سکے۔ پھر جنرل ضیاء الحق ، ان ساتھیوں اور حامیوں نے جس طرح سے قائد اعظم کی سوچ کا حلیہ بگاڑا، آئین میں ترمیمات کرکے آئین کی دھجیاں اڑادیں، آج اس ملک کی تباہی اسی سوچ اور اقدامات کا ثمر ہے۔
آج بھی پاکستان کو جو خطرات ہیں وہ وفاق پاکستان کے حوالے سے ہیں۔یہ ٹھیک ہے کہ ہمیں انتہائی معاشی چیلنجز کا سامنا ہے مگر وفاق کو خطرات اس سے بھی سنگین ہیں جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ ا ٹھارہویں ترمیم کو محدود کردیا جائے ، وہ سنگین غلطی کریں گے۔
اسی طرح یہ کہنا درست ہے کہ فوج کو سیاست میں مداخلت نہیں کرنا چاہیے ، لیکن اس کی آڑ میں فوج میں تقسیم پیدا کرنا، فوجی تنصیبات پر حملے کرانا، بغاوت کرا کر اسے کمزور کرنا، یہ ناقابل قبول اور ناقابل برداشت ہے کیونکہ اگر فوج کمزور ہوتی تو اس کا صاف مطلب ہے کہ کسی اور مسلح قوت کو غالب آنے کا موقع فراہم کرنا ہے۔
سب آزاد ہیں اس وقت جو بولنا چاہتے ہیں ضرور بولیں مگر غلط اطلاعاتDisinformation اور بے بنیاد خبروں پر سخت قوانین کا اطلاق ہو نا چاہیے ۔ جھوٹ اور بہتان کا راستہ روکنے کے لیے ہتک عزت کے قانون کو سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے۔پوری دنیا میں یہ مظہر دیمک کی طرح جمہوری نظام اور معاشرتی رواداری کو اندر سے کھوکھلا کر رہا ہے، امریکا ہو یا یورپی ممالک، ہمارے خان صاحب اس وکٹ پر خوب کھیلے۔
یقینا اس وقت مخلوط حکومت بننے جا رہی ہے کیونکہ یہ ملک واپس انتخابات کے مرحلے کی طرف نہیں جا سکتا ،کم از کم تین سال تک۔ اگر ان تین سالوں میں پاکستان میں دہشت گردی اور انتہاپسندی پر قابو پا لیا گیا،شمال مغربی سرحدوں سے دہشت گردوں کی آمد روک گئی، سمگنگ بند کردی گئی، پاکستان کی معاشی شرح نمو پانچ فیصد تک بڑھی ، افراط زر دس فیصد سے کم ہوئی،بیرونی زرِ مبادلہ کے ذخائر بیس ارب ڈالر تک چلے گئے تو پھر دوبارہ انتخابات کی طرف جایا جاسکتا ہے۔
خان صاحب مزاحمت کی سیاست زیادہ عرصے تک نہیں چلا سکتے ان کی خواہش یہ ہوگی کہ اس ملک کی معیشت بیٹھے، ریاستی ڈھانچہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے تاکہ وہ اور ان مدد گار و سہولت کار اپنے مفادات کو بچا سکیں۔
اسحاق ڈار کو اگر اس بار وزیرِ خزانہ اگر نہ بنایا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا۔یہ وزارت کسی اور ماہر معاشیات کو سونپی جائے ۔اب ہمیں قرضے کم اور آمدنی بڑھانا ہو گی۔ اس کے لیے ایمانداری کے ساتھ ٹیکس لگانے ہوںگے اور حکومت کے لیے بہتر یہ ہوگا کہ ان لوگوں کے خلاف گھیرا تنگ کیا جائے اور ان کو ٹیکس نیٹ میںلیا جائے جو ٹیکس نا دہند گان ہیں، ان کی سبسڈی بند کی جائے، اگر ہم ریفارمز نہ لا سکے اور اسی طرح ملک کو چلاتے رہے تو ہم سنگین معاشی و مالی بحران پر قابو نہیں پا سکیں گے۔
انتخابات ہو گئے ہیں، ہم آگے چل پڑے ہیں،حکومتیں بننے جا رہی ہیں، وفاق میں بھی اور صوبوں میں بھی۔جیسے ماضی میں ، پنجاب میں نواز شریف کی حکومت ،بے نظیر کے لیے رکاوٹیں پیدا کرتی تھی آج وفاقی حکومت کے خلاف ، خیبر پختونخوامیں پی ٹی آئی کرے گی۔
ماضی میں بے نظیر کے خلاف، میاں صاحب جو اقدام لینے جاتے، اس میں میاں صاحب پر اسٹبلشمنٹ کا ہاتھ ہو تا مگر آج وہ آشیرواد خان صاحب کو حاصل نہیں ہے۔خان صاحب اس وقت ملک میں انارکی چاہتے ہیں اور باقی سیاسی جماعتوں کو سسٹم اور آئین کی بقاء چاہیے، دیکھتے ہیں میدان کون مارتا ہے۔