غزہ میں اسرائیل کی جارحیت جاری ہے

امریکا کے لیے اسرائیل کو روکنا بہت آسان تھا لیکن امریکا خود اس جنگ میں کود پڑا ہے


Editorial February 19, 2024
امریکا کے لیے اسرائیل کو روکنا بہت آسان تھا لیکن امریکا خود اس جنگ میں کود پڑا ہے۔ فوٹو: فائل

غزہ میں اسرائیلی فوج کی جارحیت 134ویں دن بھی جاری رہی، میڈیا کی اطلاعات کے مطابق گزشتہ روز کی کارروائیوں میں 83 فلسطینی شہید ہوئے ہیں جب کہ 125 زخمی ہوئے۔

امریکا، برطانیہ اور فرانس کی جانب سے رفح پر مجوزہ حملے پر اظہار تشویش کے باوجود اسرائیل اپنے اس منصوبے سے پیچھے ہٹنے کا نام نہیں لے رہا۔

ادھر عالمی عدالت انصاف میں اسرائیلی قبضے کی قانونی حیثیت سے متعلق معاملے کی سماعت کا آغاز ہو رہا ہے، عالمی عدالت پہلی بار اس حوالے سے سفارشات اقوام متحدہ کو ارسال کرے گی۔

مشرق وسطیٰ کے حالات دن بدن خراب ہوتے جا رہے ہیں۔ سات اکتوبر کو ہونے والی جنگ کے آغاز سے اب تک تقریباً تیس ہزار فلسطینی جاں بحق ہوچکے ہیں، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں۔ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی تنظیموں نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اسرائیل حماس کو ختم کرنے کے نام پر فلسطینیوں کی نسل کشی کررہا ہے۔

امریکا، برطانیہ اور فرانس کی پشت پناہی اور سرپرستی کی وجہ سے اسرائیل کے وزیراعظم اور وزرا کھل کر یہ کہنے لگے ہیں کہ محصور غزہ کی پوری آبادی کو ہلاک کرنا پڑا تو وہ یہ کام کر گزریں گے۔ حماس تاحال مزاحمت کررہی ہے ۔ اسرائیل کی وحشیانہ کارروائیوں اور نسل کشی کے اقدامات پر امریکا میں بھی تنقید بڑھ رہی ہے۔

اب دنیا کھلے الفاظ میں یہ کہہ رہی ہے کہ اسرائیل فلسطینی علاقوں میں شہریوں، عورتوں اور بچوں کو بلا کسی امتیاز کے نشانہ بنارہا ہے۔ یہاں تک کہ شہریوں تک امدادی تنظیموں کی رسائی بھی ناممکن بنائی جارہی ہے۔

2023کے آخر تک غزہ کی پٹی میں آبادی 2.3 ملین افراد تک پہنچ گئی تھی، جن میں 1.06 ملین اٹھارہ سال سے کم عمر کے بچے شامل ہیں، جو کل آبادی کا 47 فیصد ہے۔ اسرائیل ایک پرانے برطانوی قانون پر انحصار کرتا ہے جس کے تحت وہ فلسطینیوں کو بغیر کسی مقدمے کے تین سے چھے ماہ تک حراست میں رکھنے کی اجازت دیتا ہے۔

بعد ازاں اس حراست کی بار بار تجدید کی جاتی ہے جس سے قیدی کی سزا سالوں تک چلی جاتی ہے۔ غزہ میں جاری جارحیت میں اسرائیل کے حملوں سے کئی فلسطینی ماہرین تعلیم اور سائنسدان شہید ہوچکے ہیں، یورپی انسانی حقوق کی تنظیم کے مطابق اسرائیل نے ان لوگوں کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا ہے۔

فلسطین کا شمار دنیا میں سب سے زیادہ شرح خواندگی والے ممالک میں ہوتا ہے لیکن غزہ میں جاری جارحیت کی وجہ سے تعلیمی اداروں کی صورتحال ابتر ہے، کئی اساتذہ اور طالب علم اسرائیلی حملوں میں شہید ہوچکے ہیں جب کہ ہزاروں پچھلے کئی ماہ سے تعلیم سے دور ہیں۔ اسرائیل کے حملوں میںاساتذہ اور جامعات کے پروفیسرز کی اچھی خاصی تعداد شہید ہوچکی ہے۔

مشرق وسطیٰ کے عوام کے لیے صلح کے معاہدے پین کلر دوائیوں کی طرح ہیں جو کینسر کے مرض میں مبتلا مریض کے لیے ڈاکٹر تجویز کرتا ہے لیکن اس کو آخری وقت تک کینسر کی بیماری سے بے خبر رکھتا ہے۔

اسی طرح مشرق وسطیٰ کے عوام کو بھی صلح کے معاہدوں کی صورت میں پین کلر دوائی جاتی ہے تاکہ اصل بیماری کے بارے میں بیخبر ہوکر کینسر کے پھوڑے کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کی کوشش نہ کرسکیں۔

اسرائیل نے حماس کو ختم کرنے کو اپنا کلیدی مقصد قرار دیا ہے تاہم شہریوں کے رہائشی علاقوں، اسپتالوں، اسکولوں، ایمبولینسوں کے قافلوں اور عام شہریوں کی پناہ گاہوں پر اسرائیلی حملوں اور بمباری سے انسانی جانوں خاص طور پر معصوم فلسطینیوں کا انتہائی نقصان ہوا ہے۔

میدان جنگ میں ہونے والی پیش رفت کے بارے میں میڈیا رپورٹس کے مطابق ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیلی فوج غزہ کی پٹی کو دو حصوں میں تقسیم کرنا چاہتی ہے، اگرچہ امریکا کی جانب سے فلسطین میں جاری انسانی مصائب کو کم کرنے کے لیے سفارت کاری بڑھا دی گئی ہے تاہم امریکا کی یہ کوششیں مخلصانہ جدوجہد کم اور دکھاوا زیادہ معلوم ہوتی ہیں۔ جہاں تک خطے میں امن کے قیام میں امریکا کے کردار کا تعلق ہے تو ایسا دکھائی دیتا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ بھی اپنے پیشروؤں کی طرح فلسطینیوں کو دبانے کے لیے صریحاً اسرائیل کی طرف مائل ہے۔

عام طور پر، یہ خیال کیا جاتا ہے کہ امریکی سیاسی دائرے کے اندر، ڈیموکریٹس جمہوری اقدار، انسانی حقوق اور نسل پرستی کے مخالف ہیں۔ تاہم، بائیڈن انتظامیہ نے غزہ کی پٹی پر اسرائیل کے حملے پر جس قسم کا رد عمل دیا ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ فلسطینیوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک میں ٹرمپ انتظامیہ کو پیچھے چھوڑ چکی ہے کیونکہ غزہ پر اسرائیل کی جارحیت کو قبول کر لیا گیا ہے، اسرائیل کی نسل کش پالیسیوں کی حمایت کی گئی ہے۔

غزہ کی مکمل ناکہ بندی کی منظوری دی گئی ہے جس سے بجلی، پانی، خوراک، ادویات کی فراہمی منقطع ہے جب کہ فلسطینی شہریوں کے روزانہ قتل عام کو درست قرار دیا گیا ہے، جن میں زیادہ تر بچے اور خواتین ہیں حتیٰ کہ بائیڈن انتظامیہ نے اسرائیل کے جنگی جرائم کی پردہ پوشی کی ہے اور اسرائیلی مظالم کے بارے میں فلسطینیوں کے دعوؤں کو چیلنج کیا ہے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ امریکا نے عرب ممالک پر اسرائیل اور غزہ کے مابین جاری جنگ سے خود کو دور رکھنے کے لیے دباؤ ڈالا ہے۔

اسرائیل فلسطین تنازعہ کے حوالے سے یہ حقیقت ہے کہ امریکا کبھی بھی ایمانداری کے ساتھ فلسطینیوں کا حامی نہیں رہا اور نہ ہی کبھی امن کے قیام میں مخلص رہا ہے۔ 1948 میں تنازع کے آغاز سے لے کر 1993 میں ہونے والے اوسلو معاہدے، حتیٰ کہ حالیہ اسرائیلی جارحیت سمیت امریکا نے ہمیشہ اسرائیل کی حمایت کی ہے۔

تاہم، یہ پہلی بار ہے کہ امریکی انتظامیہ نے اسرائیل کے نام نہاد '' اپنے دفاع کے حق'' کا دفاع کرتے ہوئے کھلے عام اسرائیل کی حمایت کی ہے۔ اس بات کا آسانی سے مشاہدہ کیا جاسکتا ہے کہ ممکنہ صدارتی امیدواروں کے درمیان اپنی ''اسرائیل نواز'' اسناد ثابت کرنے کے لیے مقابلہ ہے۔ دوسری جانب امریکی قیادت غزہ میں اسرائیل کی جانب سے مسلسل بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں پر آنکھیں بند کیے ہوئے ہے۔

اسی طرح،بائیڈن انتظامیہ نے کانگریس سے اسرائیل کے لیے 14 بلین ڈالر منظورکرنے کی درخواست کی ہے، جس میں سے زیادہ حصہ '' آئرن ڈوم'' کے نام سے مشہور اسرائیل کے فضائی دفاعی نظام کے لیے مختص کیا گیا ہے جب کہ دیگر ہتھیاروں کی خریداری کے لیے بھی خاطر خواہ رقم مختص کی گئی ہے۔

جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ ایک عالمی طاقت کے طور پر امریکا کبھی بھی فلسطینیوں کے لیے مخلص نہیں رہا۔ اس لیے اب بھی امریکی حکومت کا ردعمل اسرائیل نواز ہے اور وہ فلسطینیوں کے مصائب کو کم کرنے کے لیے کوئی اہم فائدہ نہیں اٹھا رہی ہے، بلکہ اسرائیل کے مفادات کے تحفظ کے لیے گاجر اور چھڑی کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے یعنی حماس کا صفایا کرنا بالخصوص غزہ پر حماس کا کنٹرول ختم کرنا۔

اسرائیلی حکمرانوں نے کہا ہے کہ جنگی اہداف کے حصول کے پابند ہیں۔ اہداف میں یرغمالیوں کی رہائی اور حماس کا خاتمہ شامل ہے۔ موجودہ فوجی آپریشن سے حماس کی جنگی صلاحیت کا خاتمہ ہو جائے گا اور غزہ پٹی پر کنٹرول بھی ختم ہو جائے گا۔

غزہ کی سرزمین پر جو باشندے اس وقت زخمی اور بے یار و مددگار ہو کر کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ انھوں نے اپنی دھرتی کو اسرائیلی بمباری سے برباد ہوتے اور اپنے عزیزوں، رشتہ داروں، پیاروں کے جسموں کے چیتھڑے اڑتے اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں، وہ اپنے معصوم بچوں کے ادھڑے لاشے اٹھائے بے بسی کے عالم میں کسی پناہ گاہ کی تلاش میں دوڑتے ہیں تو یقیناً ان دلدوز مناظر کو دیکھ کر آسمان بھی رونے لگتا ہوگا، مگر سفاک انسانوں کا دل پسیجتا نظر نہیں آرہا۔

نام نہاد نمایندہ عالمی ادارے اقوام متحدہ، اس کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل کو فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی جزئیات تک کی خبر ہے مگر ظالم و غاصب کے ہاتھ روکنے کے معاملے میں ان کی بے بسی و بے حسی انتہاء کو جا پہنچی ہے۔ امریکا کے لیے اسرائیل کو روکنا بہت آسان تھا لیکن امریکا خود اس جنگ میں کود پڑا ہے جو اس کی اپنی جنگ نہیں لیکن وہ اسرائیل کی جنگ کو اپنی جنگ سمجھتا ہے۔

بین الاقوامی سول سوسائٹی گروپس، این جی اوز اور کارکنوں کو چاہیے کہ وہ غزہ اور مقبوضہ علاقوں میں ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف اپنی مہم تیز کریں، تاہم، یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ عالمی عدالت کے فیصلے کی اہمیت کا زیادہ تر انحصار اقوام متحدہ اور بین الاقوامی برادری اور اس میں شامل فریقین کے ردعمل اور اقدامات پر ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں