کوئی بھی حکومت بنانے کو تیار نہیں

بدگمانوں کی طرف سے آج بھی اِن انتخابات کو متنازع بنانے کی کوششیں ہنوز جاری ہیں


Dr Mansoor Norani February 19, 2024
[email protected]

یہ ہماری قومی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ ملک میں الیکشن ہوجانے کے بعد بھی کوئی وفاق میں حکومت بنانے کے لیے تیار نہیں ہے۔شروع شروع میں تو کسی کو بھی یقین نہیں تھا کہ مقررہ تاریخ کو سارے ملک میں بیک وقت الیکشن ہوجائیں گے، لیکن پھر رفتہ رفتہ لوگوں کو یقین ہونے لگا کہ واقعی 8فروری 2024 کو عام انتخابات ہوجائیں گے۔

مگر بدگمانوں کی طرف سے آج بھی اِن انتخابات کو متنازع بنانے کی کوششیں ہنوز جاری ہیں۔بد قسمتی سے اِن انتخابات کے نتیجے میں جو صورتحال ابھر کرسامنے آئی ہے کہ کوئی بڑی پارٹی وفاق میں اپنے طور پر حکومت بنانے کے قابل نہیں ہے۔ کسی ایک پارٹی کو بھی سادہ اکثریت حاصل نہیں ہے۔

وہ کوشش بھی کرلے تو اُسے پارلیمنٹ کے نصف ممبران کی حمایت مل جانا بہت مشکل دکھائی دیتا ہے۔تینوں بڑی پارٹیاں PTI، مسلم لیگ نون اورپاکستان پیپلزپارٹی حکومت بنانے کے بجائے اپوزیشن میں بیٹھنے کو ترجیح دے رہی ہیں۔سب پارٹیاں یہ سمجھتی ہیں کہ ایک انتہائی مضبوط اپوزیشن کی موجودگی میں مانگے تانگے کی حکومت چلانا بہت ہی مشکل کام ہوگا۔

کوشش بھی کرلیں تو وہ چند مہینوں سے زیادہ حکومت نہیں چلاپائیں گی۔دلچسپ بات یہ ہے کہ تینوں پارٹیاں صوبائی حکومت لینے کو نہ صرف تیار ہیں بلکہ بے چین بھی ہوئے جا رہی ہیں۔سب نے اپنے اپنے وزیراعلیٰ کے ناموں کا چناؤ بھی کرلیا ہے۔

وفاق میں حکومت سازی سے کترانے کی بڑی وجہ ملک کو درپیش مالی اورمعاشی حالات بھی ہیں،جس نے بھی حکومت بنائی اسے تین چار سالوں تک بہت ہی کٹھن حالات کاسامنا ہوگا۔ جس طرح 10اپریل 2022 میں عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کے بعد بننے والی شہباز شریف کی عارضی حکومت کو ملک کوڈیفالٹ ہوجانے سے بچانے کے لیے لوہے کے چنے چبانے پڑے اورIMFکی سخت شرائط ماننی پڑیں اورجس کی وجہ سے مسلم لیگ نون کو اپنی چالیس سالہ سیاسی کریڈیبلٹی کو داؤ پرلگانا پڑا اورجس کا خمیازہ اُسے اس الیکشن میں بھی بھگتنا پڑا، اسی طرح اب کوئی بھی پارٹی یہ قربانی دینے کو تیار نہیں ہے۔

سیاست نہیں ریاست بچاؤ کا نعرہ اب کوئی بھی لگانے کوتیار نہیںہے۔مسلم لیگ نون اگر 2022 میں یہ ذمے داری نہ لیتی تواس کے حق میں بہتر ہوتا۔ ہمیں نہیں معلوم کہ پس پردہ کیا مجبوریاں تھیں اورکن قوتوں کے کہنے پر شہباز شریف نے یہ بار گراں اپنے ذمے لے لیا۔ پارٹی کے اندر اس وقت بھی بہت سے لوگ اس بات کے حق میں نہیں تھے کہ ایسے مشکل حالات میں چند ماہ کی حکومت لے لینی چاہیے ،مگر بظاہر کچھ سیاستدانوں کے مسلسل اصرار پر میاں شہباز شریف یہ فریضہ ادا کرنے کو تیار ہوگئے۔

زرداری صاحب نے اپنے فرزند ارجمند کو اس عارضی حکومت میں وزیر خارجہ بنوایا اوربلاول بھٹو کو اپنے نانا کی طرح ساری دنیا میں نہ صرف متعارف کروایا بلکہ انھیں آیندہ کے لیے وزیراعظم کی حیثیت میں قابل قبول بھی بنا دیا۔مگر عارضی حکومت کی تمام ناکامیوں کا ملبہ صرف شہباز شریف کے سر لاد دیا گیا۔

جو بھی حکومت بنائے گا اسے نہ صرف ملک کودرپیش بہت بڑے معاشی بحران سے نمٹنا ہوگا بلکہ پارلیمنٹ کے اندر بھی ایک انتہائی سخت اورمضبوط اپوزیشن کا سامنا ہوگا۔ مخالف سارے یکجا اورمتحد ہوکراسے ایک کام بھی نہیں کرنے دیں گے۔یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی یہ ذمے داری اب اُٹھانے کو تیار نہیں ہے۔

عددی اعتبار سے PTI کے حمایت یافتہ آزاد ارکان پارلیمنٹ میں سب سے زیادہ ہیں لیکن وہ بھی یہ ذمے داری اُٹھانے سے انکاری ہے۔زرداری صاحب چاہیں تو یہ کام کرسکتے ہیں لیکن سیاسی بساط پر شاطرانہ چالیں چلنے والے آصف علی زرداری بھی اس بار کنارہ کشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔

بلاول بھٹو کو اس الیکشن کے بعد وزیراعظم بنانے کی منصوبہ بندی اب موخر کردی گئی ہے اوراسے اگلے الیکشن پرڈال دیاگیا ہے۔دوسری جانب مسلم لیگ نون کے اندر بہت سے لوگ وفاق میں حکومت بنانے کے حق میں نہیں ہیں۔ وہ اپنی قیادت کو اس بات پرراضی کرنے کی کوششوں میں مسلسل سرگرداں ہیں ،اگر بہت ہی مجبوری ہوگی اورمقتدر حلقوں کی جانب سے مکمل سپورٹ کی کوئی یقین دہانی کروائی گئی تو وہ یہ ذمے داری ایک بار پھراُٹھانے کو تیار ہوجائیں لیکن نواز شریف وزارت عظمیٰ کے لیے اپنی بجائے کسی اورکو نامزد کرینگے۔

سیاست میں کوئی بھی دائمی دوست یادائمی دشمن نہیں ہوتا۔ یہ بات ہمیں ایک بار پھر PTI نے یاد دلائی دی ہے۔حالیہ الیکشن کے نتیجے کے بعد اس نے جس طرح اپنے سابقہ مخالفوں سے بات چیت کاراستہ اختیار کرکے ایک طرف اچھی مثال قائم کی ہے تو دوسری جانب ہمیں یہ بھی بتادیا ہے کہ مولانا فضل الرحمن جنھیں وہ اپنی چودہ سالہ سیاسی مہم میں غلط اورطنزیہ ناموں سے یاد کیاکرتے تھے آج اُن کے دربار میں حاجت مند بن کرپیش ہورہے ہیں۔

قومی اسمبلی کی دونشستوں کی حامل اس پارٹی کے ساتھ اگر خان صاحب دوستی اورمفاہمت اختیار کرسکتے ہیںتو مسلم لیگ نون کے ساتھ کیوں نہیں۔ ویسے بھی وہ کسی زمانے میں میاں نوازشریف کی سیاسی خوبیوں اور فراخدلانہ خصلتوں کے بہت بڑے معترف اورمداح رہے ہیں۔ ہم دیکھ چکے ہیں کہ پاکستان پیپلزپارٹی اورمسلم لیگ نون تیس سالوں سے ایک دوسرے کے بہت بڑے سیاسی حریف رہے ہیں لیکن ضرورت پڑجانے پرایک دوسرے کے ساتھ حکومت میں شامل بھی ہوسکتے ہیں۔

اس وقت سب کو اپنی اپنی سیاست کی پڑی ہوئی ہے ۔ کوئی بھی اپنی سیاست کو داؤ پرلگاکر قربانی دینے کو تیار نہیں ہے۔آج ہماری سیاست کاکڑا امتحان ہورہا ہے۔ کون اس میں سرخروہوتا ہے یا کون اس میں فیل اورناکام ہوتاہے ۔یہ وقت ہی بتائے گا۔ کچھ لوگ اگر یہ سمجھ رہے ہیں کہ ملک میں شاید دوبارہ الیکشن منعقد ہوجائیں گے تو وہ اپنی غلط فہمی دور کردیں، ہم کسی اورنئے الیکشن کے متحمل نہیں ہوسکتے اورپھر اس کی کیاگارنٹی کہ دوبارہ الیکشن کے بعد بھی نتائج اس سے مختلف ہوں گے۔

اگر نتیجہ ایسا ہی رہاتو کیا تیسری بار الیکشن۔ہم اپنے اس طرز عمل سے کیا غیرجمہوری قوتوں کو مداخلت کی خود دعوت نہیں دے رہے۔ سارے ملکر بھی حکومت سازی نہیں کرسکتے تو نگران ہم سے یقینی طور پربہت بہتر ہیںجنھوں نے سات مہینوں سے ایک اچھی حکومت دیکر اپنی قابلیت اورمہارت کاثبوت دیا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں