سرکاری اور عوامی عدالتیں

عوامی عدالت کی کوئی سرکاری حیثیت ہے نہ ان میں ہونے والے جھوٹے اعلانات پر عوامی عدالت کسی سے پوچھ سکتی ہے


Muhammad Saeed Arain February 19, 2024
[email protected]

بانی پی ٹی آئی کے خلاف اقتدار سے نکالے جانے کے بعد الیکشن سے پہلے تک جو مقدمات قائم ہوئے تھے ان تمام کو پی ٹی آئی کے رہنما اور ممتاز وکلا درست تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھے اور سب مقدمات کو حکومت کی انتقامی کارروائی اور جھوٹا قرار دیتے تھے اور اپنے خلاف آنے والے اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں کو بھی غلط اور مایوس کن قرار دیتے ہوئے بانی چیئرمین کا معاملہ عوام کی عدالت میں پیش کرنے کے دعوے کیا کرتے تھے کہ عوامی عدالت ان تمام سرکاری مقدمات کے خلاف اور بانی کے حق میں الیکشن میں فیصلہ دیں گی۔

8 فروری کے انتخابی نتائج میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزادانہ منتخب ہونے والوں کو پی ٹی آئی اپنا امیدوار قرار دے رہی ہے اور بیرسٹر گوہر خان مسلسل دعویٰ کر رہے ہیں کہ ملک بھر میں عوام نے منعقدہ الیکشن میں عوامی عدالت میں اپنا فیصلہ دے دیا ہے اور قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے 180 امیدواروں کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے جس کو تسلیم نہیں کیا جا رہا اور انھیں کامیاب قرار نہیں دیا جا رہا اور پی ٹی آئی پنجاب، کے پی اور وفاق میں اپنی حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہے مگر عوامی عدالت کے اس فیصلے کو تسلیم نہیں کیا جا رہا۔

سابق وزیر اعظم نواز شریف نے اپنی حالیہ انتخابی مہم کے دوران جن عوامی جلسوں سے خطاب کیا وہ وہاں موجود عوام کی تعداد کو عوامی عدالت قرار دیتے رہے اور ان کا کہنا ہے کہ میں عوامی عدالت میں جانے سے قبل تمام سرکاری عدالتوں سے بری ہو چکا ہوں کیونکہ وہ مقدمات انتقامی اور جھوٹے تھے جن کے الزامات عدالتوں میں ثابت نہیں کیے جا سکے اور مجھے سزا دینے والی عدالتوں نے ہی ضمانت دی اور جھوٹے مقدمات سے مجھے بریت ملی۔

حالیہ الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کی کامیابی کو (ن) لیگی رہنما عوامی عدالت کا فیصلہ قرار دے رہے ہیں کہ عوامی عدالت نے (ن) لیگ کے حق میں فیصلہ سنا دیا ہے اور سرکاری عدالتیں بھی مجھے الیکشن لڑنے کا اہل قرار دے چکی ہیں اور جھوٹے مقدمات سے مجھے بری کر چکی ہیں۔

پی ٹی آئی خود اپنی غلطیوں کے باعث اپنے انتخابی نشان سے محروم ہوئی اور سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو برقرار اس لیے رکھا تھا کہ پی ٹی آئی نے اپنے انٹرا پارٹی الیکشن میں قانونی تقاضے پورے نہیں کیے تھے جس کی وجہ سے اس کے جلد بازی میں کرائے گئے انٹرا پارٹی الیکشن قانون کے مطابق نہ ہونے پر مسترد کر دیے گئے تھے اور پی ٹی آئی خود اپنی غلطیوں کے باعث اپنے انتخابی نشان سے محروم ہوئی۔

پی ٹی آئی نے اپنی پونے چار سالہ حکومت میں جان بوجھ کر اپنے پارٹی الیکشن نہیں کرائے تھے جس کے لیے الیکشن کمیشن انھیں بار بار نوٹس بھی دیتا رہا مگر حکومت سے محرومی کے بعد الیکشن کی تاریخ آ جانے کے بعد قانونی تقاضا پورا کرکے پی ٹی آئی کا انتخابی نشان لینے کے لیے اس نے جلد بازی کی اور ایک گاؤں میں اپنے پارٹی الیکشن کا انعقاد دکھایا اور نو منتخب عہدیداروں کا اعلان کردیا جنھوں نے اس پارٹی الیکشن میں حصہ لیا نہ وہ وہاں موجود تھے۔

منتخب قرار پانے والے بعض رہنما گرفتاری سے بچنے کے لیے مفرور تھے اور چند روز میں قانونی اور پارٹی کے آئین کے برعکس کرائے گئے یہ خود ساختہ الیکشن، الیکشن کمیشن سے غیر قانونی قرار پائے اور پی ٹی آئی اپنے انتخابی نشان سے محروم ہوئی اور یہ محرومی قانونی تھی جس کی پارٹی کے ہمدردوں کو تکلیف ہوئی کیونکہ وہ اس محرومی کو غلط سمجھتے تھے مگر انھوں نے سالوں الیکشن نہ کرانے پر پی ٹی آئی کو تو کچھ نہیں کہا اور جس پارٹی نے جلد بازی میں اپنے الیکشن کرائے ایسے الیکشن ماضی میں کسی پارٹی نے ایسی جلد بازی نہیں کی تھی مگر پی ٹی آئی کے ہمدردوں کو جلدبازی نظر نہیں آئی تھی۔

عدالتوں سے جس بھی سیاسی پارٹی ، مختلف اداروں اور افراد کو اپنی مرضی کے فیصلے نہیں ملتے وہ ان کے خلاف سپریم کورٹ تک اپیلوں میں جاتے ہیں اور سیاسی پارٹیاں سپریم کورٹ سے مطمئن نہ ہونے کے بعد عوامی عدالتوں میں جانے کی باتیں کرتی ہیں اور سرکاری عدالتوں سے مایوسی کے بعد عوام کی عدالت میں الیکشن کے موقعہ پر جانے کے دعوے کرتی ہیں اور الیکشن ہی ان کے لیے عوامی عدالت اور سنہری موقعہ ہوتا ہے۔

بھٹو صاحب کا روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ اور بانی پی ٹی آئی کا 50 لاکھ گھر اور ایک کروڑ نوکریوں کے انتخابی دعوؤں پر عوام نے اعتماد کرکے ان پارٹیوں کو کامیاب کرایا تھا اور سیاسی پارٹیاں ان عوامی جلسوں میں تالیاں بجانے والوں کو عوامی عدالت قرار دیتے تھے کیونکہ انھیں پتا ہے کہ یہ نام نہاد عوامی عدالتیں لوگوں کو بے وقوف بنانے کے لیے ہوتی ہیں جو وعدے پورے نہ ہونے پر ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں نہ ان کی کوئی توہین ہوتی ہے۔

توہین عدالتوں کا فیصلہ نہ ماننے پر ہوتی ہے عوامی عدالت کی کوئی سرکاری حیثیت ہے نہ ان میں ہونے والے جھوٹے اعلانات پر عوامی عدالت کسی سے پوچھ سکتی ہے کہ وہ وعدے کہاں گئے، پارٹیوں کے منشور اور دعوؤں پر عمل کیوں نہیں ہوا۔ بڑے جلسوں تو کیا پارٹی اجلاسوں میں بھی کچھ نہیں پوچھا جاتا اور نہ ہی کوئی اپنے منتخب رکن سے کچھ پوچھنے کی جرأت کر سکتا ہے۔

عوامی اجتماعات عوامی عدالت نہیں ہوتے وہاں صرف جھوٹے اعلانات اس لیے کیے جاتے ہیں کہ ان اعلانات پر کوئی پکڑ نہیں ہوتی اور بھولے عوام ان پر یقین بھی کرلیتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔